اویس شاہ اغواء: سپریم کورٹ پولیس کے رویئے سے مایوس

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے اویس علی شاہ کے اغواء کے معاملے پر پولیس کے رویئے پر شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کراچی رجسٹری میں اویس علی شاہ کے اغواء کے حوالے سے لیے جانے والے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

بینچ میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس خلجی عارف حسین بھی شامل ہیں۔

سپریم کورٹ کے بینچ میں شامل ایک رکن جج نے کہا کہ واقعے کے بعد متعلقہ ایس ایچ او نے جائے وقوع پر جانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی اور خود ہی فیصلہ کرلیا کہ یہ خفیہ ایجنسیوں کا کام ہے۔

جسٹس ہانی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایک شخص پولیس اسٹیشن گیا تھا لیکن وہاں ایس ایچ او موجود نہیں تھے، جب ایس ایچ او کو واقعے کا معلوم ہوا تو وہ جائے وقوع پر جانے کے بجائے خود ہی اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ یہ خفیہ ایجنسیوں کا کام ہوسکتا ہے۔

بینچ کے ارکان نے سابق ایس ایس پی جنوبی فاروق احمد پر بھی شدید تنقید کی اور کہا کہ ان کی غفلت کے حوالے سے دیکھا جائے تو وہ پولیس کی وردی پہننے کے اہل نہیں۔

عدالت کے استفسار پر ایس ایس پی نے بتایا کہ انہوں نے 7 بجکر 15 منٹ پر علاقے کے ایس ایچ او سے بات کی تھی اور واقعے کے بارے میں ڈی آئی جی جنوبی اور آئی جی پولیس کو اطلاع نہیں دی تھی۔

بینچ میں شامل ایک رکن جج نے سوال کیا کہ ساڑھے نو بجے تک کیوں کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی جس کے بعد چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے خود آئی جی پولیس کو واقعے سے آگاہ کیا۔

بینچ نے ایس ایس پی فاروق احمد کی جانب سے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے عدم دلچسپی پر مبنی رویے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور ریمارکس دیئے کہ انہوں نے واقعے کی اطلاع بروقت ملنے کے باوجود ملزمان کا پتہ لگانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا اور نہ ہی اس واقعے کے بارے میں اعلیٰ افسران کو مطلع کیا اور وہ اس حوالے سے کوئی معقول وجہ بھی پیش نہیں کرسکے۔

وقفے کے بعد ایڈووکیٹ جنرل ضمیر گھمرو نے جج صاحبان کو بتایا کہ صوبائی حکومت ایس ایس پی کو فوری طور پر سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کرے گی۔

عدالت نے حکم دیا کہ مذکورہ پولیس افسر کے معاملے کو محکمے کی سطح پر دیکھا جائے اور تمام ضروری کارروائیاں عمل میں لائی جائیں اور اس حوالے سے رپورٹ 2 ہفتوں میں عدالت کے سامنے پیش کی جائے۔

تقرریوں اور تبادلوں میں آئی جی کی رائے لی جائے
عدالت نے کہا کہ ہمیں حکومت سے توقع ہے کہ وہ نئے ایس ایس پی جنوبی کی تقرری میں آئی جی پولیس کی سفارشات پر غور کرے گی کیوں کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنانا ان ہی کی ذمہ داری ہے۔

ایک سوال کے جواب میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے بتایا کہ صوبائی عہدے دار تقرریوں اور تبادلوں میں اکثر ان سے مشاورت نہیں کرتے۔

اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل نے آئین کے آرٹیکل 129 کا حوالہ دیا جس کے تحت صوبے میں ایگزیکٹو اتھارٹی وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کے پاس ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کے اختیارات آئی جی کو منتقل نہیں کیے جاسکتے اور حقیقت میں آئی جی کے پاس دیگر محکموں کی نسبت زیادہ اختیارات ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اور مقامی حکومتوں کا معاملہ صوبائی تھا لیکن وفاقی حکومت نے غیر آئینی طور پر ان معاملات پر قانون سازی کی اور لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001 اور پولیس آرڈر 2002 متعارف کرادیا جو 2009 تک جاری رہا۔

اے جی سندھ نے کہا کہ 2009 کے بعد صوبوں نے ان معاملات پر قانون سازی کی۔

قبل ازیں سپریم کورٹ نے کراچی بد امنی کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی بھی سماعت کی اور آئی جی پولیس سے تفصیلات طلب کیں۔

پنھنجي راءِ لکو