رگوں میں اتر کر بیماریوں کی تشخیص کرنے والا ’ننھا منا‘ کیمرہ

عام بیماریوں کی تشخیص اور کسی خطرناک مرض یا انفیکشن کی صورت میں اعضا کو پہنچنے کی صورت میں علاج کے لیے جراحی کی ضرورت پڑسکتی ہے اور مریض کو ایکسرے، ایم آر آئی یا اینڈو اسکوپی کروانا پڑتی ہے۔ اس طریقۂ تشخیص کے لیے سائنس دانوں نے ایک ایسا آلہ(کیمرہ) تیار کیا ہے جس کی جسامت نمک کے چند ذرات کے برابر ہے۔ اس آلے کو کسی انسانی عضو کا اندر سے معائنہ کرنے کے لیے سرنج کے ذریعے جسم میں داخل کیا جاسکے گا۔
دراصل یہ جرمن انجینیئرز کا تیار کردہ ایک کیمرہ ہے جو مستقبل میں صحت کے شعبے میں انقلاب برپا کر دے گا۔ یہ کیمرہ جرمنی کی ایک یونیورسٹی کے محققین نے تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے تیار کیا ہے۔ اس میں تین عدسے یا لینس لگے ہوئے ہیں۔ اس کیمرے کو ایک ایسی آپٹیکل فائبر تار کے سرے پر نصب کیا گیا ہے، جس کی موٹائی کسی انسان کے سَر کے دو بالوں کے برابر ہوسکتی ہے۔ اس اہم ایجاد پر ’نیچر فوٹانکس‘ نامی جریدے میں ایک رپورٹ شایع کی گئی ہے جس کے مطابق اس قسم کے کیمروں کو مستقبل میں انسانی جسموں میں ’اینڈو اسکوپس‘ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
عام لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں طبی معالج ایسے انتہائی کم جسامت والے کیمروں کو انسانی جسم میں داخل کر کے کسی بھی اندرونی حصے یا عضو کی ’فوٹو امیجنگ‘ کرسکیں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا استعمال موجودہ اینڈو اسکوپس کے مقابلے میں بڑی حد تک غیرمحسوس، سادہ اور آرام دہ ہو گا۔ ایسا کیمرہ جسم میں داخل ہونے پر کسی مریض کو اتنی ہی تکلیف ہو گی جتنی سرنج کے ذریعے دوا داخل کرنے پر ہوتی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان کیمروں کی خاص بات یہ بھی ہو گی کہ انہیں منی روبوٹس پر بھی نصب کیا جا سکے گا اور یہ کسی بھی چھوٹی یا تنگ جگہ کا جائزہ لینے اور وہاں کی تصویر اتارنے میں مدد دیں گے۔ اس کیمرے کا کمپاؤنڈ لینس صرف 100 مائیکرو میٹر (0.1 ملی میٹر یا 0.004 انچ) چوڑا ہے، جس کے بعد اس کیمرے کے بیرونی ڈھانچے یا خول سمیت چوڑائی محض 120 مائیکرو میٹر بنتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ کیمرہ کسی بھی شے یا جگہ کی محض تین ملی میٹر کے فاصلے سے واضح تصویر لے سکتا ہے۔ اس پروجیکٹ سے وابستہ ماہرین کے مطابق ان کے تیار کردہ کیمرے کو کسی بھی عام اور جراثیم سے پاک سرنج کے ذریعے انسانی دماغ کا اندرونی معائنہ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

پنھنجي راءِ لکو