پاکستانیوں کا ‘اماراتی ڈریم’ – تحریر:صوفیہ کاشف

ابوظہبی اور دبئی شہر کے پررونق اور گنجان مرکز سے پرے کھلے صحرا کے وسیع علاقے میں امارات حکومت کی جانب سے عرب لوگوں کے لیے بسائی گئی بستیوں کا ایک سلسلہ آباد ہے، جہاں وسیع و عریض علاقے میں حکومتِ امارت کے تعاون سے گھر اور علاقے بسائے گئے ہیں۔

ان علاقوں میں کنالوں کے حساب سے مفت جگہ فراہم کی گئی اور تعمیر و تزئین کے لیے آسان قرضے دیے گئے جو اکثر بعد میں معاف بھی کر دیے گئے یا پھر حکومت کی طرف سے پوری بستی آباد کرنے کے بعد اماراتی لوگوں میں گھر مفت بانٹے گئے اور ساتھ میں تزئین و آرائش کے لیے رقم بھی مہیا کی گئی۔

جن علاقوں میں جگہ مہیا کی گئی، ان کنالوں کے پلاٹس پر مالکان نے اپنے گھروں کے ساتھ دو تین منزلہ، تین یا چار کمروں پر مشتمل گھر بنائے ہیں اور اکثر تارکین وطن کم کرائے کی غرض سے گنجان آبادی سے دور ان گھروں میں رہائش اختیار کرتے ہیں۔

اپنے گھروں کے ساتھ یہ کئی گھر مالکان کے لیے آمدنی کا ذریعہ ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف یہی کرائے کے گھر ہی ان کا ذریعہ آمدن ہیں۔

امارات کے گھر کا ہر فرد جوان، بوڑھا اور عورت صاحب روزگار ہیں۔ اماراتی حکومت نے ہر محکمے میں ادنیٰ سے ادنیٰ اور اعلیٰ سے اعلیٰ روزگار پیدا کر رکھا ہے تا کہ ہر شخص کو اس کی اہلیت کے مطابق روزگار مل سکے۔

چناچہ کوئی ادھیڑ عمر عورت ہو یا تعلیم سے جی چراتا نوجوان اس کے لیے اس کی اہلیت کے مطابق نوکری موجود ہے۔

یہ ہے متحدہ عرب امارات کی امیر کبیر اور ماڈرن ریاستوں کی بادشاہت کی اندر کی کارکردگی اور ان کا اپنی عوام اور ملک کے ساتھ سلوک اور انداز بادشاہی.

ان کھلے اور وسیع علاقوں میں پختہ چمکتی کارپٹڈ سڑکیں پانی اور بجلی کا بہترین انتظام، ساری رات چمکتی روشنیاں اور ہر نکڑ پر اعلیٰ کافی شاپس، مالز اور ہر ضرورت کا ہر سامان گھر کی دہلیز پر دستیاب ہے۔ مقامی عرب لوگ بڑے خاندانوں کے ساتھ وسیع اور کشادہ گھر رکھنا پسند کرتے ہیں۔ شہر کے اندر واقع چھوٹے اپارٹمنٹس والا گنجان آباد علاقہ اکثر عرب لوگوں کو پسند نہیں آتا۔

چنانچہ پاکستانی حساب سے امیرانہ لائف اسٹائل رکھنے والا یہ اماراتی متوسط طبقہ شہر سے پرے ان کھلے اور خوبصورت پھولوں اور جھولوں سے بھرے میدانوں والے وسیع علاقوں میں رہنا پسند کرتا ہے۔ جہاں قریب ہی بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے اعلیٰ درجے کے سرکاری اسکول ہیں، دیکھنے کو ریت ہے، ابھرتے اور ڈوبتے سورج کا نظارہ ہے، گھر سے باہر ڈیزرٹ سفاری اور اندر محل کا مزہ۔

ان خوبصورت بستیوں میں داخل ہوں تو علاقے کی وسعت اور خوبصورتی کے ساتھ پاکستانیوں کو ایک عجیب منظر نظر آتا ہے۔

ان بستیوں کے اندر ہر طرف کارپٹڈ سڑکوں اور چوراہوں کا جال بچھا ہے اور ہر چوراہے کے آس پاس شلوار قمیض میں ملبوس پاکستانی غریب مزدور گروہوں کی صورت میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔

آپ جس سمت چلے جائیں، جس چوراہے کی طرف نکلیں، تین چار اپنے دیسی لوگ مل ہی جائیں گے اور رمضان میں تو کم سے کم پندرہ بیس یا پچاس ڈگری کی گرمی کی دھوپ ہو یا جنوری میں صحرا کی سخت ٹھنڈی راتیں پاکستان کے یہ بچے آپ کو اسی ٹھکانے پر نظر آئیں گے۔

یہ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں؟

یہ وہ لوگ ہیں جو غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر روزگار کی خاطر بوڑھے ماں باپ کی دوا یا بیوی بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے روزگار کی تلاش میں یہاں آتے ہیں اور روزگار نہ ملنے کی وجہ سے یا بعض اوقات زیادہ کمائی کی کوشش میں یہاں ڈیرہ جما لیتے ہیں۔

پردیس آنے کے بعد ان کے گھروں میں سفیدیاں ہونے لگتی ہیں۔ کچے صحن پکے ہو جاتے ہیں۔ اور پھر کچھ عرصے بعد چرچا ہونے لگتا ہے کہ امارت ان کے گھر تو پہنچ رہی ہے مگر امارت لانے والے پردیس کو پیارے ہو چکے ہیں۔

عالیشان بستیوں کے ان نکڑوں پر کتنے ہی پردیس کو پیارے اور ماں باپ کو بھولنے والے بے وفا بیٹے بیٹھے گرمی اور سردی سینکتے رہتے ہیں اس لیے بھی کہ پانچ سو یا ہزار درہم ایک ماہ میں کمانے والے کو شاید دو سو درہم کی کسی عرب کے گھر ایک دن یا کچھ گھڑیوں کی مزدوری مل جائے یا کوئی متوسط طبقے کا عرب چکن اور مٹن کی بوٹیوں سے بھری چاولوں کی پرات پکڑا جائے۔

اپنی عوام دوست اور مہربان حکومت کی طرح عرب عوام بھی سخی اور کھلے دل کے ہیں۔ نکڑ پر بیٹھنے والوں کو چھوٹے سے چھوٹے کام کے عوض یا صدقہ خیرات کے سو پچاس درہم مل جاتے ہیں جو ان کی یومیہ مزدوری سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔

پردیس کو پیارے یہ لوگ یہاں بیٹھ کر کھانے پینے اور رہائش کا خرچہ بھی بچاتے ہیں اور پارٹ ٹائم نوکری بھی کرتے ہیں۔

آپ کو ان کے چہرے پر دکھ اور تکلیف کے بجائے سکون اور اطمینان نظر آتا ہے۔ کیا انسانوں کو مطمئن رکھنے کے لیے سب سے بنیادی چیزیں یہی ہیں کہ پیٹ بھرا اور مناسب آمدنی ہو، بچوں کے لیے خوراک ہو اور والدین کی دوا ہو؟

پچاس ڈگری کی گرمی میں جب گاڑیوں کی کولنگ کم ہونے لگتی ہے اور گھروں میں اے سی کا تھرمو اسٹیٹ کمتر سے کمتر ہوتا جاتا ہے تو پاکستان کے یہ بچے کڑی دھوپ میں حالتِ سکون میں بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔

کوئی بتائے کہ چند درہم کی خاطر دو وقت کی روٹی کے لیے دھوپ میں جلتے پردیسی ہزاروں کی ٹکٹ لے کر وطن واپس کیسے جائیں۔ یہ لوگ اس ملک کے باسی ہیں جن کے سب حکمرانوں کو یو اے ای بہت پسند ہے.

دبئی کی زندگی سے محبت کا یہ عالم ہے کہ انہیں ہر چھوٹے بڑے موقع پر دبئی جانا ہے، وہیں جائیدادیں بنانی ہیں، مگر اپنی عوام کو امارات کے متوسط طبقے کے عوام کے حال میں بھی رکھنا پسند نہیں، ورنہ اگر یہی دو وقت کا اچھا کھانا، چھوٹا سا روزگار جن سے ان کے ماں باپ کی دوا آ سکے، ان کے گھروں میں سفیدی ہو سکے، انہیں اپنی سرزمین پر مل جائے تو کون کافر جیب میں بیوی بچوں کی تصویر ڈالے سمندر پار دبئی اور ابوظہبی کی تپتی سڑکوں پر بیٹھنا چاہے گا؟

دبئی کے مکین پاکستان کے مستقل حکمران اپنی عوام کو دبئی کے مقامی لوگوں سی سہولتیں اور آسائشیں نہیں دے سکتے مگر خود عرب بادشاہوں کی سی زندگی گزار سکتے ہیں۔

مفت گھر اور اسباب زندگی نہیں تو کم سے کم دو وقت کی روٹی اور ایک چھوٹا سا روزگار ہی فراہم کر دیں۔ اتنی تو سہولت دیں کہ غریب پاکستانی گرمی سردی پانی اور خوراک کی کمی سے مرنا چھوڑ دیں۔

مگر پاکستان میں شاید ایسا ممکن نہیں کہ ارباب اختیار جانتے ہیں کہ بھرا پیٹ اور زندگی کا استحکام دماغ میں شعور بیدار کرنے لگتا ہے اور باشعور معاشرہ ہمارے حکمرانوں کے لیے نقصان کا باعث ہے۔

اسی لیے ہمارے حکمران اور ان کی اولادیں اور سارے خاندان ضرور عرب ریاستوں کے بادشاہوں کے جیسی زندگی بسر کرتے ہیں مگر عوام کی حیثیت ابوظہبی و دبئی کی ان سڑکوں پر بیٹھے غریب تارکین وطن سی بھی نہیں۔

پنھنجي راءِ لکو