میں ’لائک‘ کروں کہ نہ کروں۔۔۔؟

سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) نے ہماری مصروفیات اور عام قدروں ہی کو ہی نہیں، بل کہ ہماری نفسیات اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں میں بھی بے پناہ تغیر برپا کیا ہے۔
اب ایسا لگتا ہے کہ لوگ حالات اور اپنے خیالات ہی فیس بک پر مشتہر نہیں کرتے، بل کہ اب وہ دراصل ’فیس بک‘ کے مطابق ہی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہر لمحے اور ہر وقت کی ’خبر‘ ان کی ’دیوار‘ پر ضرور دمکتی نظر آتی ہے۔ شاید وہ فیس بک کے ’اسٹیٹس‘ کے ڈبے پر لکھا ہوا What’s on your mind? کو نہایت سنجیدگی سے محسوس کرتے ہیں، اور ہر بار اس کا جواب دینا ضروری خیال کرتے ہیں۔
ویسے تو فیس بک پر ’فرینڈز‘ کی حد پانچ ہزار ہے، جب کہ ’فالوونگ‘ کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ ایسے میں ہم بہت سے لوگوں کی ’پوسٹ‘ چاہنے کے باوجود نہیں دیکھ پاتے، کیوں کہ ہماری ٹائم لائن پر ایسے فیس بک دوستوں کی بہتات ہوتی ہے، جو صبح ہو گئی، شام ہوگئی، آج سردی ہے اور آج گرمی ہو گئی، سے زور کی بھوک لگی ہے، کھانا کھا رہا ہوں، ناشتا نہیں ملا اور سر میں بہت درد ہے، جیسی پوسٹوں کی بھرمار کیے رہتے ہیں۔ اس پر طرّہ یہ کہ ان پر لوگوں کی دل چسپی اور نہایت فارغ قسم کے تبصروں اور بات برائے بات عام ہوتی ہے اور ہر لمحے کی جانے والی ایسی ’فضول‘ سی پوسٹوں پر لاتعداد ’لائکس‘ بھی ہمیں حیران کیے دیتے ہیں۔

پنھنجي راءِ لکو