|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
Telephone:-+919811254615 |
Email:-sarailliyasi@gmail.com |
کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر
جانے کے لیے کلک
کریں |
تاریخ اشاعت:۔2011-08-08 |
کیا بن سکے گی حضرت نوح علیہ السلام کی
کشتی ؟ |
کالم ۔۔۔۔۔۔۔ سارہ
الیاسی |
محض ہالی ووڈکی
مشہور اور طویل فلم بائبل پر ہی موقوف نہیں
بلکہ گزشتہ تین سال سے ہالینڈ کے شہر ڈورڈریخٹ
کے رہنے والے حیرت و استعجاب سے ایک خاص
پراجیکٹ کو دیکھ رہے ہیں۔ یوحان ہبرس ایک
مقامی تاجر کی خواہش تھی کہ وہ حضرت نوح علیہ
السلام کی کشتی کا حقیقی ڈھانچہ تیار کریں۔اب
وہ دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے والا ہے۔
ہبرس اور اس کی کمپنی کے 50 ملازمین ایمسٹرڈیم
دریا کے 65 کلو میٹر جنوب میں میرویڈس کے
کنارے پر،کھڑی ہوئی کشتی کو حتمی شکل دے رہے
ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ یہ واحد اصلی لکڑی کی
بنی ہوئی کشتی ہے۔ 52 سالہ انتہائی مذہبی
ولندیذی شہری ہبرس کا کہنا ہے کہ ہم لوگوں کو
خدا کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں۔ ہم کوئی
ایسی چیز بنانا چاہتے ہیں جو بائبل کی صحیح
عکاسی کرتی ہو۔ ہبرس کا منصوبہ ایک ’بائبل
میوزیم‘ بنانے کا ہے جو رواںسال کے آخر میں
کھلے گا لیکن وہ مقامی باشندوں کو اس مہینے کے
آخر میں ایک دن کے لیے کشتی کو چپکے سے دیکھنے
کا موقع دے گا۔ اس پروجیکٹ کی خاص بات یہ ہے
کہ ہبرس نے کشتی بنانے کے لیے بائبل میں دی
گئی قدیم پیمائش اور وضاحت کا استعمال کیا
تاکہ جہاں تک ہو سکے اس دور میں بنائی گئی
کشتی کی منظر کشی کر سکے۔کشتی کے ڈیک پر 1600
مختلف اقسام جانوروں کے ڈھانچے ہوں گے جو حضرت
نوح ؑکی کہانی کو اصلی زندگی میں پیش کرنے کی
کوشش کریں گے۔ اس کے علاوہ اس بڑی کشتی میں
سونے کی جگہ، تھیٹر، اعلی رستوران اور ایک
کانفرنس ہال جہاں 1500 لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ
بھی موجود ہے۔وہاں ایک پتھر کی چکی بھی ہو گی
جس کے ساتھ لوگ آٹا پیس کے پرانے زمانے والے
نان بنا سکتے ہیں۔ ہبرس کے ملازمین دیواروں پر
بائبل کی کہانیوں کو تصویری شکل میں پیش کریں
گے۔اس پروجیکٹ کا خیال ہبرس کو 2002میں آیا
تھا جب اسے ایک خوفناک خواب دکھائی دیا جس میں
اس نے ہالینڈ کو ڈوبتے ہوئے دیکھا۔ اگلے دن اس
نے حضرت نوح کی کہانی کے بارے میں کتاب خریدی۔
اسکو پڑھنے کے بعد ہبرس نے ارادہ کر لیا کہ وہ
اسی طرح کی کشتی بنائے گا۔2004 میں اس نے ایک
چھوٹی کشتی بنا لی تھی جس پہ وہ لوگوں کو
ہالینڈ کی نہروں کی سیر کرواتا تھا۔ ان ٹوروں
کے منافع سے اس نے 2008 میں اس بڑی کشتی کو
بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ہبرس اپنی بڑی کشتی
کو 2012 لندن میں ہونے والے اولمپکس کے دوران
وہاں لے کر جائے گا تاکہ وہ ’لوگوں کو خدا کے
نزدیک لاسکے‘ اور اسکی بنائی ہوئی تخلیقات کے
بارے میں بتا سکے۔واضح رہے کہ عیسائیوں کی
مقدس مذہبی کتاب بائبل یعنی انجیل میں حضرت
نوح کے زمانہ میں آنے والے طوفان اور ان کی
کشتی میں سوار جانداروں کے حوالے سے تحقیق
کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کشتی میں
جانداروں کی 16 ہزار اقسام کا ایک ایک جوڑا
سوار تھا جسے دنیا بھر سے جمع کرنے کے لئے
حضرت نوح کو کئی مہینوں تک سخت محنت کرنی پڑی
تھی۔ یہ ماہرین جو اس حوالے سے انجیل کے
بیانات کے درست ہونے کی تصدیق کے لئے شواہد کی
تلاش میں مصروف ہیں انھوں نے کہا کہ حضرت نوح
کی تیار کردہ کشتی کی لمبائی 140 میٹر '
چوڑائی 23 میٹر اور اونچائی 13.5 میٹر تھی۔ اس
کشتی کی تین منزلیں تھیں جن میں ہر طرح کے
جاندار کا جوڑا رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے لئے
پانی اور خوراک کی ضروریات کا بھی خیال رکھا
گیا تھا تاہم انجیل کے بیان میں یہ بھی لکھا
ہے کہ کشتی میں سوار کئے جانے والے بعض جانور
سات تک کی تعداد میں بھی تھے۔ ماہرین کا کہنا
ہے کہ انجیل کے بیان کے مطابق حشرات الارض میں
سے نتھنوں کے ذریعے سانس لینے والوں کو ہی اس
کشتی میں سوار کیا گیا تھا اور غالب امکان یہ
ہے کہ دیگر حشرات نے سیلابی پانی کی سطح پر
تیرنے والے کاٹھ کباڑ کی مدد سے اپنی جان
بچائی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں
جانداروں کی 18 لاکھ اقسام موجود ہیں لیکن جن
اقسام کو ابھی تک دریافت نہیں کیا جاسکا ۔ان
کی تعداد کروڑوں میں ہو سکتی ہے اور ابھی تک
ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوششیں جاری
ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جس دور میں یہ
طوفان آیا غالب امکان ہے کہ ڈائنوسار ابھی اس
دنیا سے معدوم نہیں ہوئے تھے تاہم زیادہ جگہ
گھیرنے کے بعد حضرت نوح علیہ السلام نے ان
عظیم الجثہ جانوروں کے بچوں کو ہی کشتی میں
سوار کیا ہوگا جبکہ اس سے قبل چین اور ترکی کے
محققین نے دعوی کیا تھا کہ وہ حضرت نوح علیہ
السلام کی کشتی دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے
ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے یہ کشتی
ارارات کی پہاڑیوں میں دریافت کی۔مذکورہ ٹیم
کا دعوی ہے کہ انھیں 99.99فیصد یقین ہے کہ یہ
حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہی ہے۔تحقیقاتی
ٹیم کے مطابق یہ کشتی سطح سمندر سے تیرہ ہزار
فٹ کی بلندی پر دریافت کی گئی ہے اور اس کی
لکڑی2800قبل مسیح قدیم ہے۔ٹیم نے اس کشتی کی
نشاندہی بتانے سے اس وقت تک انکار کردیا جب تک
اسے آثار قدیمہ کے طور پر تسلیم نہیں کرلیا
جاتاتاہم مغربی ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے
کہ اس سلسلے میں دعوی کی تصدیق کیلئے ابھی
مزیدتحقیقات کرنی ہوں گی۔ |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved |
Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved
|