اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-jawwab@gmail.com
 

Telephone:-1-514-970-3200       

 

 

 

تاریخ اشاعت11-05-2010

تخت بلقیس: سونے سے منڈھا، مروا رید سے جڑا شاہکار

 

تخت بلقیس: سونے سے منڈھا، مروا رید سے جڑا شاہکارحضرت سلیمان کا دربار لگا ہوا تھا۔ سب درباری موجود تھے جن میں جنات بھی شامل تھے۔ جو حضرت سلیمان کے تابع فرمان تھے۔ اس کا ذ کر قرآن حکیم میں آیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے، ”اور جنوں میں سے وہ تھے جو اس کے سامنے خد مت انجام

دیتے تھے اس کے پرور د گار کے حکم سے اور جو کوئی ان میں سے ہمارے حکم کے خلاف کج روی کرے، ہم اسے د وزخ کے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ وہ (جن) اس کیلئے بناتے تھے جو وہ کہتا تھا۔ قلعوں کی تعمیر، ہتھیار، تصاویر اور بڑے بڑے لگن جو حوضوں کی مانند تھے اور بڑی دیگیں جو اپنی بڑائی کی وجہ سے ایک جگہ جمی رہیں۔ اے آل داﺅد! شکر گزاری کے کام کرو اور میرے بندوں میں بہت کم شکر گزار ہیں۔“ (سورہ سبا آیات 13,12) اس مجلس میں جب حضرت سلیمان کو ملکہ بلقیس کی آمد کا علم ہوا تو آپ نے تمام د رباریوں کو مخاطب فرمایا، تم میں سے کون ہے جو ملکہ بلقیس کے تخت کو مجلس برخاست ہونے سے قبل یہاں لے آئے؟ یہ سنتے ہی ایک جن آگے بڑھا اور گویا ہوا، حضور! آج کا یہ دربار برخاست ہونے سے قبل میں اس کا تخت میں آپ کے قد موں میں لا کر ڈال سکتا ہوں۔ حضرت سلیمانؑ فرمانے لگے، نہیں تب تو بہت دیر ہو جائیگی۔ مجھے تو اس سے بھی بہت پہلے ملکہ کا تخت یہاں چاہیے۔“ ملکہ کے تخت کے بارے میں مختلف کتب میں مختلف روایات آئی ہیں۔ ایک جگہ لکھا ہے کہ یہ وہی تخت ہے جو ہد ہد نے دیکھا تھا اور واپس آکر حضرت سلیمانؑ کو بتایا تھا اور اس کا فاصلہ حضرت سلیمانؑ کی حدود مملکت بیت المقد س سے تقریباً ڈیڑھ ہزار میل کے فاصلے پر تھا۔ اس تخت کے متعلق یہ بھی لکھا ہے کہ اس طول 80 ہاتھ اور عرض 40 ہاتھ تھا اور اس کی اونچائی 30 ہاتھ تھی۔ اس میں سرخ یا قوت، سبز ز مرد اور کئی اقسام کے موتی جڑے ہوئے تھے۔ (فتح القدیر) تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ اس کا تخت نہایت ہی شان دار ہے جس پر وہ جلوس کرتی ہے۔ سونے سے منڈھا ہوا ہے اور جڑاﺅ اور مروارید کی اس پر کاری گری کی ہوئی ہے۔ یہ 80 ہاتھ اونچا 40 ہاتھ چوڑا تھا۔ یہاں 600 عورتیں اس کی خدمت کیلئے ہر وقت کمر بستہ رہتی تھیں۔ اس کا یہ دیوان خاص جس میں یہ تخت رکھا تھا بہت بڑا محل تھا۔ بلند و بالا، کشادہ و فراخ، پختہ و مضبوط اور صاف تھا جس کے شرقی حصے میں 360 طاق تھے اور اتنے ہی مغربی حصے میں بھی تھے۔

اسے اس صنعت سے بنایا گیا تھا کہ ہر دن سورج ایک طاق سے نکلتا اور اسی کے مقابل کے طاق میں غروب ہوتا۔ اہل دربار صبح و شام اسے سجدہ کرتے تھے۔ حکمراں اور رعایا سب سورج پرست تھے، توحید پرست ان میں کوئی ایک نہ تھا۔ اس عظیم الشان تخت کو حضرت سلیمانؑ کے دربار میں لانے کی ذمے داری ایک قوی ہیکل سر کش جن کو زن نے لی۔ فرمایا کہ ٹھیک ہے جاﺅ اور لے آﺅ۔ اجازت ملتے ہی برخیاہ پلک جھپکتے ملکہ بلقیس کا تخت اٹھالایا اور حضرت سلیمانؑ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ اس کا ذکر قرآن حکیم میں بھی موجود ہے، ”جس شخص کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بولا، میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے لا دیتا ہوں۔ جوں ہی سلیمان نے وہ تخت اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا، فوراً بول اٹھا کہ یہ میرے رب کا فضل ہے۔ “ (سورہ النمل آیت 39) ابن عباس کا قول ہے۔ کہ وہ آصف تھے جو سلیمانؑ کے کا تب تھے۔ ان کے والد کا نام برکیا یا برخیاہ تھا۔ ایک اور روایت میں تخت لانے کا نام برخیاہ لکھا ہے۔ ایک جگہ انہیں ولی اللہ لکھا ہے جو اسم اعظم بھی جانتے تھے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ ان کا نام اسطوم تھا۔ بلیخ مروی ہے کہ ان کا لقب ذوالنور تھا۔ جب تخت آگیا تو حضرت سلیمانؑ نے حکم دیا کہ اس کے تخت میں کچھ پھیر بدل کر دو، تاکہ معلوم ہو جائے کہ یہ راہ پالیتی ہے یا اس سے ہوتی ہے جو راہ نہیں پاتے۔ “ (النمل آیت 41) اس آیت کی تشریخ کرتے ہوئے مفسرین لکھتے ہیں کہ تخت کے رنگ، روپ یا ہیئت میں تبدیلی کی بناءپر وہ اپنے تخت کو پہچان پاتی ہے یا نہیں، تخت میں طبیعیاتی تبدیلی ہو جانے کی وجہ سے اس نے صاف الفاظ میں اس کے اپنے ہونے کا اقرار بھی نہیں کیا۔ ردو بدل کے باوجود انسان اپنی چیز کو پہچان ہی لیتا ہے، اس لیے اپنے ہونے کی نفی بھی نہیں کی اور یہ کہا کہ ”گویا وہی ہے“ اس میں اقرار ہے نہ نفی، بلکہ نہایت محتاط درمیانہ جواب ہے۔ اصل الفاظ قرآن حکیم کے مطابق یہ ہیں۔ ”پھر جب وہ آگئی تو اس سے کہا گیا، ایسا ہی تیرا تخت ہے؟ اس نے جواب دیا کہ وہ گویا وہی ہے۔ ہمیں اس سے پہلے ہی علم دیا گیا تھا اور ہم مسلمان تھے۔ “ (آیت 42 اس سے اگلی آیت میں فرمایا گیا: ”اسے انہوں نے روک رکھا تھا جن کی وہ اللہ کے سوا پر ستش کرتی رہی تھی۔ یقینا وہ کافر لوگوں میں سے تھی۔“ (النمل آیت 43) حضرت سلیمانؑ نے ملکہ بلقیس کی مہمان نوازی کے طور پر جنات سے ایک محل تعمیر کروایا جس کا فرش شفاف شیشے کا تھا اور شیشے کے نیچے پانی سے بھر ا وسیع و عریض حوض تھا۔ اس پر چلنے والا یہ امتیاز نہیں کر سکتا تھا کہ وہ درحقیقت شیشے کے فرش پر چل رہا ہے۔ چنانچہ یہی مغالطہ بلقیس کو بھی ہوا اور اس پر چلتے ہوئے اپنے پائینچے اوپر کر لیے جیسے وہ پانی پر سے گزر رہی ہو اور اپنے لباس کو گیلا ہونے سے بچا رہی ہو۔

قرآن حکیم میں ارشاد مبارک ہے۔ ”اس سے کہا گیا کہ محل میں چلی چلو۔ اسے دیکھ کر یہ سمجھ کر کہ یہ حوض ہے، اس نے اپنی پنڈ لیاں کھول دیں، فرمایا، یہ تو شیشے سے منڈھی ہوئی عمارت ہے۔ کہنے لگی، میرے پرورد گار! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی مطیع اور فرماں براد ر بنتی ہوں۔ “ (سورة النمل (آیت 44) فرش کی حقیقت بلقیس پر ظاہر ہونے کے بعد اسے اپنی کوتاہی کا احساس ہو گیا اور اس نے اپنے قصور کا اعتراف کرتے ہوئے، مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔ کتب تواریخ اور مختلف مذاہب کی کتب میں جنوں کی تعمیرات سے متعلق کئی شواہد ملے ہیں۔ حضرت داﺅد نے بیت المقد س کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا، لیکن وہ اپنی زند گی میں اسے پایہ تکمیل کو نہ پہنچا سکے اور داعی اجل کو لبیک کہا۔ پھر ان کی اس ادھوری تعمیر کا بیڑا حضرت سلیمانؑ نے اٹھایا۔ یہ ایک عجوبہ تھا جس کی شہادت قرآن حکیم ان الفاظ میں دیتا ہے۔ ” پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم بھیج دیا تو ان کی خبر جنات کو کسی نے نہ دی سوائے اس گھن (دیمک) کے کیڑے کے جوان کے عصا کو کھا رہا تھا۔ پس جب (سلیمان) گر پڑے اس وقت جنوں نے جان لیا کہ اگر وہ غیب داں ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔“ (سورئہ سبا آیت 14) مفسرین کا اجماع ہے کہ حضرت سلیمانؑ بیت المقد س میں ہیکل کی تعمیر اپنے زیر تابع جنات سے کروا رہے تھے کہ فرشتہ اجل آپ کی موت کا پروانہ لے آیا۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں ایک اسرائیلی روایت کا حوالہ دیتے ہیں۔

”جب حضرت سلیمانؑ کی خد مت میں فرشتہ اجل نے حاضر ہو کر یہ پیغام سنایا کہ ان کی موت میں چند ساعتیں ہاقی ہیں تو انہوں نے یہ سوچ کر کہ کہیں جن تعمیر کو ناقص نہ چھوڑ د یں فوراً جنوں سے آبگینے کا ایک حجرہ بنوایا جس میں دروازہ نہیں رکھا اور خود اس کے اندر بند ہو کر لاٹھی کے سہارے کھڑے ہوئے اور مشغول عباد ت ہو گئے۔ اسی حال میں موت کے فرشتے نے اپنا کام پورا کر لیا۔ تقریباً ایک سال تک آپ اسی طرح کھڑے رہے اور جن اپنی تعمیرات میں مصروف رہے، لیکن جوں ہی تعمیر کھل کر کے فارغ ہوئے تو سلیمانؑ کی لاٹھی کو د یمک اند ر سے بالکل چاٹ چکی تھی۔ پھر وہ حضرت سلیمانؑ کا بوجھ برداشت نہ کر سکی اور آپ زمین پر گر گئے، تب جنوں کو معلوم ہوا۔“ حضرت سلیمانؑ نے ایک نہایت عالی شان محل تعمیر کروایا تھا جس کی اینٹیں سونے اور چاندی کی تھیں۔ چھتوں پر یا قوت اور زمرد جڑے ہوئے تھے۔ اس میں آپ کیلئے ایک تخت بھی بنا ہوا تھا۔ 36 کوس لمبے علاقے پر محیط اس محل میں رکھے ہوئے تخت کی لمبائی 3 کوس بتائی جاتی ہے جو تمام ہاتھی کے دانت سے تیار کیا گیا تھا۔ اس میں بھی تمام اقسام کے لعل گوہر جڑے ہوئے تھے۔ صرف یہی نہیں اس کے چاروں کو نوں پر درخت بنائے گئے تھے جن کی ڈالیاں سونے سے تیار کی گئی تھیں۔ ہر ڈالی کے اندر ایک طوطی اور طاﺅں بنا کر ان کے پیٹ میں مشک بھرا گیا تھا جس کے خوشے انگور کی مانند تھے۔ تخت کے نیچے دائیں اور بائیں جانب سونے کی ایک ہزار کرسیاں لگائی گئی تھیں جن پر لوگ بیٹھتے تھے۔

ان کے پیچھے جنات اور انسانوں میں سے غلام کھڑے ہوتے تھے۔ اس محل میں کئی محرابیں تھی جہاں عابد و زاہد اپنی عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ اس روایت کو پڑھ کر اغلب گمان یہی ہوتا ہے کہ یہ محل میں جو دیگیں بتائی گئی ہیں وہ بہت بڑے بڑے پتھروں کو تراش کر بنائی گئی تھیں جنہیں ابر پانی سے بھرتے تھے اور اس میں پکے کھانوں سے ہزاروں کی تعداد میں مخلوقات شکم سیری کیا کرتی تھیں، جب کہ حضرت سلیمانؑ کے بارے میں آیا ہے کہ وہ اس میں سے ایک دانہ بھی تناول نہیں فرماتے تھے۔ جن انسانوں کی طرح فنا ہونے والی مخلوق ہے اور انسانوں کی طرح ذی اختیار ہے۔ یعنی جنوں کو خیر و شر کا انتخاب کرنے کی آزادی ہے۔ وہ جزا اور سزا کے مکلف ہیں۔ سریع الحرکت ہونے کی وجہ سے جن ایک جگہ سے دوسری جگہ چند لمحات میں پہنچ جاتے ہیں اور یہ اپنی شکلوں کو مختلف اشکال میں بھی ڈھال لیتے ہیں جس کی وجہ سے یہ ان مقامات پر غیر محسوس طریقے سے نفوذ کر جاتے ہیں جہاں خاکی اجزاء سے بنی اشیاء نفوذ نہیں کر سکتیں۔ ان کا نفوذ وہاں محسوس ہو جاتا ہے۔ یہ سب امور بھی اسی وجہ سے ممکن اور ناقابل فہم ہیں کہ وہ دراصل آگ سے بنی مخلوق ہے جس میں مسلم اور کافر دونوں ہیں۔ کافر جن زیادہ شریر ہوتے ہیں اور مشکل سے قابو میں آتے ہیں۔

ان میں نر اور مادہ دونوں ہیں۔ یہ عالم بالا کی جانب پرواز کرتے ہیں، مگر ایک حد تک! اس سے آگے ان کا گزر بھی ممکن نہیں۔ یہ انسانوں کی طرح مل جل کر رہنے والی قوم یا مخلوق ہے۔ عام خیال ہے کہ جن اپنی سر گرمیاں اکثر رات کے اوقات میں کیا کرتے ہیں اور صبح ہوتے ہی انہیں تر کر دیتے ہیں۔ اہل علم لکھتے ہیں کہ جنوں کے بارے میں قرآن حکیم رسید کیے جائیں گے، مگر ان کے بہشت میں جانے کا یا ان نعمتوں کے ملنے کا جو اہل ایمان کو عطا کی جائیں گی۔ کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ المام یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ جنوں کو اطاعت الٰہی پر ثواب بھی ملے گا اور وہ جنت میں بھی جائیں گے۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team