پاناما لیکس: 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ

پاکستان میں حکومت اور حزب مخالف کی جماعتوں نے پاناما لیکس، آف شور کمپنیوں، سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرکے قرضے معاف کروانے اور بدعنوانی کی تحقیقات کا طریقۂ کار طے کرنے کے لیے ایک 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کمیٹی میں چھ ارکان حکومتی بینچوں سے، جبکہ چھ ہی ارکان حزب مخالف کی مختلف سیاسی جماعتوں سے لیے جائیں گے۔
دھ کو اسلام آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی ان معاملات کی چھان بین کرے گی اور ان کی تحقیقات کے لیے طریقہ کار بھی وضع کرے گی۔
اُنھوں نے کہا کہ اس 12 رکنی کمیٹی کی کارروائی کو قانونی حثیت دینے کے لیے جمعرات کو ایک قرارداد کے ذریعے اس کی منظوری لی جائے گی۔
پرویز رشید کا کہنا تھا کہ یہ کمیٹی دو ہفتوں میں اپنی رپورٹ پارلیمان میں پیش کرے گی جس کے بعد یہ طے کیا جائے گا کہ ان معاملوں کی تحقیقات کے لیے کون سا فورم استعمال کیا جائے۔
اُنھوں نے کہا کہ اس بارے میں کوئی شرط نہیں رکھی گئی کہ اس کمیٹی میں کتنے افراد قومی اسمبلی سے ہوں گے اور کتنے سینیٹ سے۔
ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ اس پارلیمانی کمیٹی کی سربراہی کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔
اس سے قبل حکومت اور حزب اختلاف کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کے لیے اہم اجلاس سپیکر قومی اسمبلی کے چیمبر میں منعقد ہوا۔
اس اجلاس میں حکومت کی جانب سے وفاقی وزرا اسحاق ڈار، خواجہ آصف اور پرویز رشید شریک تھے، جبکہ حزبِ اختلاف کی نمائندگی خورشید شاہ، شاہ محمود قریشی، اعتزاز احسن اور غلام احمد بلور نے کی۔
خیال رہے کہ قبل قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس اور دیگر امور پر صرف وزیر اعظم ہی کا نہیں بلکہ اُن سمیت پارلیمنٹ میں موجود دیگر سیاست دانوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے جنھوں نے بدعنوانی کی اور قرضے معاف کروائے لیکن اس بارے میں سب سے پہلے احتساب وزیر اعظم کا ہونا چاہیے کیونکہ انھوں نے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا ہے۔

پنھنجي راءِ لکو