الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کیلئے قومی اسمبلی میں 22 ویں ترمیم متفقہ طور پر منظور

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) قومی اسمبلی میں 22 ویں آئینی ترمیم کی متفقہ طور پر منظوری دیدی گئی ہے۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے 22 ویں ترمیم کا بل اسمبلی میں پیش کیا جس کے حق میں 236 ارکان نے ووٹ ڈالے جبکہ کسی رکن نے بھی اس کی مخالفت میں ووٹ نہیں ڈالا۔ 22 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد اب 22 گریڈ کے سول افسر اورٹیکنو کریٹ بھی الیکشن کمیشن کے عہدیدار بننے کے اہل ہو گئے ہیں اور سینیٹ کی طرز پر الیکشن کمیشن بھی مسلسل قائم رہے گا جبکہ الیکشن کمیشن کے آدھے ارکان ڈھائی سال بعد ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے متفقہ طور پر بل منظور ہونے کے بعد ایوان کو مبارکباد پیش کی۔
مجوزہ بل کے تحت الیکشن کمیشن سینیٹ کی طرز پہ کبھی تحلیل نہیں ہو گا اور مسلسل قائم رہے گا جبکہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کی اہلیت کا معیار بھی تبدیل کیا گیا ہے اور اب الیکشن کمیشن کو مقامی حکومتوں کے انتخابات کیلئے حلقہ بندیوں اور ووٹر لسٹوں کی تیاری کا اختیار بھی ہو گا۔ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ ججز سمیت سینئر سول سرونٹ اور ٹیکنو کریٹ بھی الیکشن کمیشن کا ممبر بننے کے اہل ہوں گے جبکہ چیف الیکشن کمشنر کیلئے عمر کی حد 68 سال اور الیکشن کمیشن کے رکن کیلئے عمر کی حد 65 سال ہو گی۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق سول سرونٹ سے مراد گریڈ 22 سے ریٹائرڈ وہ افسر ہے جسے 20 سال وفاقی یا صوبائی ملازمت کا تجربہ ہو جبکہ ٹیکنو کریٹ سے مراد وہ شخص ہے جو ایچ ای سی سے منظورشدہ 16 سالہ ڈگری کا حامل اور متعلقہ شعبے میں ملکی یا عالمی سطح پر 20 سالہ تجربہ رکھتا ہو۔ ترمیم کے تحت وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے متفق نہ ہونے کی صورت میں دونوں رہنماءپارلیمانی کمیٹی کو الگ فہرست بھیجیں گے مجوزہ افراد میں سے کسی ایک شخص کا انتخاب کرے گی۔الیکشن کمیشن کے 2 ارکان پہلے ڈھائی سال بعد قرعہ اندازی کے ذریعے ریٹائر ہوں گے جبکہ باقی دو اگلے ڈھائی سال بعد ریٹائر ہوں گے۔ چیف الیکشن کمشنر یا کسی رکن کی خالی نشست 45 دن کے اندر پر کی جائے گی جبکہ قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کیلئے چیف جسٹس پاکستان کا اختیار بھی ختم کر دیا گیا ہے اور سپریم کورٹ کے سینئر جج کی بجائے اب قائم مقام چیف الیکشن کمیشن کا سینئر ممبر ہو گا۔

پنھنجي راءِ لکو