غازی عبدالرشید قتل کیس: مشرف اشتہاری قرار

اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی مقامی عدالت نے غازی عبدالرشید قتل کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے ضامنوں کو 25 جون تک جواب جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج پرویز القادر میمن نے 14 مئی کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے غازی عبدالرشید قتل کیس میں مسلسل غیر حاضری اور وارنٹ کے باوجود پیش نہ ہونے پر سابق فوجی صدر کو اشتہاری قرار دے دیا۔

اس سے قبل ایس ایچ او آبپارہ نے وارنٹ گرفتاری سے متعلق عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم پرویز مشرف بیرون ملک مقیم ہیں، جس کے باعث ان کی گرفتاری ناممکن ہے۔

جس کے بعد عدالت نے پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دے کر ان کے ضامنوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 25 جون تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پر مدعی کے وکیل طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ملزم ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کے باوجود بیرون ملک فرار ہوا ہے، پرویز مشرف کی ضمانت ضبط کرتے ہوئے انہیں اشتہاری قرار دیا جائے۔

انھوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دینے میں اب کوئی قانونی رکاوٹ موجود نہیں۔

واضح رہے کہ گذشتہ سال مذکورہ عدالت نے لال مسجد کے سابق خطیب غازی عبدالرشید قتل کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی حاضری سے استثنٰی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے اور پولیس کو ہدایت کی تھی کہ ملزم کو گرفتار کرکے 24 جولائی کو پیش کیا جائے، تاہم پولیس عدالتی حکم پر عمل درآمد میں ناکام رہی۔

یاد رہے کہ 2007 میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں اسلام آباد میں قائم لال مسجد اور اس سے ملحقہ جامعہ حفصہ میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے نتیجے میں لال مسجد کے نائب خطیب عبدالرشید غازی اور ان کی والدہ سمیت 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

تقریباً آٹھ دن تک جاری رہنے والے اس آپریشن، جس میں نا صرف اسلام آباد پولیس بلکہ فوج نے بھی حصہ لیا تھا اور اس کا اختتام مدرسے کے 58 طلباء اور 58 فوجیوں کی ہلاکت پر ہوا تھا۔

مشرف حکومت کا موقف تھا کہ لال مسجد میں شدت پسندوں نے پناہ لے رکھی تھی جو ریاستی قوانین کی عملداری کو قبول نہیں کرتے تھے۔

عبدالرشید غازی کے بیٹے حافظ ہارون رشید نے سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

پنھنجي راءِ لکو