چین کا ایسا گاؤں جہاں بچے جان لیوا پہاڑی پر لٹک کر اسکول جاتے ہیں

سچواں: چین کے صوبے سچواں کے ایک پہاڑی گاؤں میں رہنے والے بچے اسکول سے گھر پہنچنے کے لیے 2624 فٹ بلندی کا سفر دشوار گزار راستوں اور خطرناک سیڑھیوں سے 2 گھنٹے میں مکمل کرتے ہیں۔
گھر سے اسکول کا راستہ اس قدر دشوار گزار ہو سکتا ہے انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن چین کے صوبے سچواں کا ایک گاؤں دنیا جہاں سے بالکل دور 2624 فٹ بلند پہاڑوں پر واقع ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں صرف 72 خاندان آباد ہیں جن میں سے زیادہ تر خاندان گزر بسر کے لیے مرچوں کی کاشت کرتے ہیں۔ اس گاؤں کے قریب بس ایک ہی پرائمری اسکول موجود ہے جو کہ پہاڑی کے اوپر نہیں بلکہ اس کے نیچے موجود ہے جہاں پہنچنے کے لیے گاؤں کے 6 سے 15 سال کے معصوم بچے 2 سے زائد گھنٹے کا سفر خطرناک سیڑھیوں کے ذریعے کرتے ہیں۔ اس سفر کے دوران ان کے ساتھ رہنمائی کے لیے صرف 3 بڑے موجود ہوتے ہیں۔ گھر سے اسکول تک کے اس بھیانک راستے کی وجہ سے جب بچے ایک دفعہ اسکول پہنچ جاتے ہیں تو 2 ہفتے وہیں رہتے ہیں تاکہ روز روز آنا جانا نہ پڑے۔والدین جو اس راستے کے عادی ہیں وہ اترنے کا سفر ایک گھنٹے میں جب کہ چڑھنے کا سفر ڈیڑھ گھنٹے میں مکمل کرتے ہیں۔ بھاری بھرکم بستوں کے ساتھ خطرناک راستوں کا سفر بچوں کے لیے شدید تھکن کا باعث بھی بنتا ہے۔یہ خطرناک راستہ آج تک 8 لوگوں کی جان بھی لے چکا ہے۔ خاص کر برف باری اور بارش کے دنوں میں اسکول کا سفر بچوں کے لیے انتہائی خوف ناک ہو جاتا ہے۔یہاں کے اکثر لوگ اپنے بچوں کو صرف اس راستے کی وجہ سے اسکول بھیجنا نہیں چاہتے۔چین کے جنوب مغرب میں یہ گاؤں 200 سال سے موجود ہے۔دنیا سے الگ تھلگ اور ناقابل رسائی ہونے کے باوجود یہاں کی زمین زرخیز ہے جس وجہ سے یہاں رہنے والے لوگ خود کفیل ہیں۔
اس علاقے کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہاں مقیم لوگوں کو باآسانی قریبی آبادی میں منتقل کیا جا سکتا ہے لیکن اپنی زمینوں اور کھیتوں کے نہ ہونے سے یہ بے روزگار ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس پُرخطر علاقے میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس علاقے کو شہر کے دوسرے حصوں سے جوڑنے کے لیے سڑک بھی تعمیر کی جا سکتی ہے جس پر 60 ملین یوان لاگت آئے گی لیکن صرف چند خاندانوں کے لیے اتنی بڑی رقم خرچ کرنا ایک مشکل فیصلہ ہے۔ البتہ یہاں کے لوگوں کی خوشحالی کے لیے حکومت ان کے جانوروں میں ایک ملین یوان کی سرمایہ کاری کر چکی ہے اس کے علاوہ مستقبل میں اسے سیاحتی مقام بھی بنایا جا سکتا ہے۔

پنھنجي راءِ لکو