آفریدی اور جاوید آفریدی کے درمیان اختلافات

شاہد آفریدی نے آفریدی نے حال ہی میں 50 اوورز کے میچ کھیلنے کی کاؤنٹی کی پیشکش قبول کی ہے۔
پاکستان کے اسٹار آل راؤنڈر اور سابق کپتان شاہد آفریدی نے پاکستان سپر لیگ کی ٹیم پشاور زلمے کے مالک جاوید آفریدی کے ساتھ اختلافات کے اشارے دیے ہیں۔

کرکٹ آسٹریلیا کے ساتھ انٹرویو میں 36 سالہ آل راؤنڈر نے واضح کیا کہ وہ پشاور زلمے تک محدود نہیں ہیں۔
‘میں ایک پیشہ ور کرکٹر ہوں اور جس فرنچائز کو بھی میری ضرورت ہو گی میں اس کو دستیاب ہوں۔ ایسا نہیں کہ میں صرف پشاور زلمے تک محدود ہوں’۔
انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ میری موجودہ ٹیم زلمے ہے لیکن مجھے آگے بڑھنے سے قبل جاوید آفریدی کے ساتھ چند معاملات حل کرنے ہیں۔
اس موقع پر انہوں نے خیبر پختونخوا میں باصلاحیت نوجوانوں کے ٹیلنٹ کو منظر عام لانے کی کوششیں کرنے پر زلمے کے مالک کی کوششوں کو سراہا۔
پاکستان سپر لیگ کے پہلے ایڈیشن میں پشاور زلمے کی نمائندگی کرنے والے شاہد آفریدی نے کہا کہ ایک فرنچائز بنانے کا مقصد محض پی ایس ایل کھیلنا نہیں بلکہ پاکستان میں کرکٹ کے ڈھانچے کو بہتر بنانا ہے اور میں پشاور اور خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں ٹورنامنٹس اور کیمپ کے انعقاد پر اس کا سہرا زلمے کے سر باندھوں گا۔ لیکن چند چیزوں کو حل کرنے کی ضرورت ہے لیکن ویسے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کیلئے ہیمپشائر کاؤنٹی کا حصہ بننے والے آفریدی نے حال ہی میں 50 اوورز کے میچ کھیلنے کی کاؤنٹی کی پیشکش قبول کر لی تھی-
یاد رہے کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد شاہد آفریدی نے قیادت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
اپنے مستقبل کے بارے میں سوال پر مایہ ناز آل راؤنڈر نے مزید کہا کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ میں مزید دو سال کھیل سکتا ہوں پھر وہ چاہے پاکستان کیلئے ہو، پی ایس ایل کیلئے، بگ بیش یا انگلینڈ کی دومیسٹک کرکٹ۔
اس موقع پر ایک مرتبہ پھر اپنے سابقہ موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ جب بھی پاکستان کو ضرورت پڑی تو میں ٹیم کیلئے دستیاب ہوں۔
سابق کپتان نے قومی ٹیم کی مینجمنٹ میں حالیہ تبدیلیوں پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چیف سلیکٹر کا منصب سنبھالنے والے انضمام الحق کو بیٹنگ کوچ بنانا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر انضمام کو بیٹنگ کوچ بنایا جاتا تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی کیونکہ اس سے ٹیم کا فائدہ ہو گا، بیٹنگ کوچ کے ساتھ ساتھ وہ سلیکٹر بھی رہ سکتے تھے۔

پنھنجي راءِ لکو