تمام ریڈارز ناکارہ، سیلاب کی وارننگ کون دے گا؟

اسلام آباد: پاکستان میں سیلاب کا انتباہ جاری کرنے کے لیے استعمال ہونے والے تمام 7 ریڈارز ناکارہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

محکمہ موسمیات کی جانب سے مون سون کی بارشوں کی پیش گوئی کے بعد وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں یہ بات سامنے آئی کہ سیلاب کی وارننگ جاری کرنے کے لیے استعمال ہونے والے تمام 7 ریڈارز متروک ہوچکے ہیں۔

اجلاس میں شرکاء کو یہ بھی بتایا گیا کہ حکومت کو 7 ارب روپے کے قبل از وقت انتباہ جاری کرنے والے ارلی وارننگ سسٹم (EWS) کی تکمیل کے لیے بھی فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔

اجلاس میں شریک ایک عہدیدار کے مطابق پاکستان میں موجود سب سے پرانا ریڈار 1978 میں سیالکوٹ میں نصب کیا گیا تھا جب کہ آخری بار 2004 میں منگلا کے مقام پر ریڈار لگایا گیا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں 2010 سے مسلسل سیلاب آرہے ہیں تاہم صوبے میں صرف ایک وارننگ سسٹم ہے جو ڈیرہ اسماعیل خان میں 1994 میں نصب کیا گیا تھا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ محکمہ موسمیات نے ملک بھر میں 21 ریڈارز پر مشتمل ای ڈبلیو ایس پروجیکٹ کی تجویز پیش کی تھی تاہم اسے فوری طور پر حکومتی معاونت حاصل نہ ہوسکی۔

عہدیدار نے بتایا کہ مذکورہ منصوبے کے تحت گوادر، ژوب، ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ غازی خان میں ریڈارز نصب کیے جانے تھے جبکہ دیگر اضلاع میں تقریباً 40 رسد گاہوں کی تعمیر بھی کی جانی تھی جس پر اخراجات کا تخمینہ 3.7 ارب روہے لگایا گیا تھا۔

منصوبے کے تحت ملک بھر میں موجود 100 رسد گاہوں کی تجدید کے لیے 50 کروڑ روپے، آٹومیٹک ویدر اسٹیشنز (اے ڈبلیو ایس) کی تعمیر پر ایک ارب، گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈ اسٹیشن (جی ایل او ایف) پر اخراجات کا تخمینہ 45 کروڑ روپے لگایا گیا تھا۔

اس کے علاوہ منصوبے میں ونڈ پروفائلرز، وارننگ کمیونیکیشن سسٹمز، سیل براڈکاسٹ اور ایف ایم موسم ریڈیو کا قیام بھی شامل تھا۔

وفاقی وزیر نے اس موقع پر کہا کہ منصوبے کی لاگت بہت زیادہ ہے اور فوری طور پر اس کی فنڈنگ نہیں کی جاسکتی، تاہم پروجیکٹ کو سالانہ فنڈنگ کی بنیاد پر جاری رکھا جائے۔

پاکستان محمکہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر غلام رسول نے اس بات کی تصدیق کی کہ ہمارے ہاں ریڈارز کا نیٹ ورک انتہائی ناقص ہے کیوں کہ ریڈاز کی افادیت زیادہ سے زیادہ 10 برس ہوتی ہے جس کے بعد وہ ناکارہ ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مردان میں نیا ریڈار سسٹم لگادیا گیا ہے جو 2017 تک آپریشنل ہوجائے گا، سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے تکنیکی خلاء پر کیے بغیر نہیں بچا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ای ڈبلیو ایس کی تجدید میں میں دلچسپی رکھتی ہے جس کے ذریعے قدرتی آفات کے حوالے سے زیادہ بہتر فریکوئنسی حاصل کی جاسکتی ہے۔

ڈاکٹر رسول نے کہا کہ ای ڈبلیو ایس ہمیں پہاڑی علاقوں اور گلیشیئرز تک پہنچنے میں مدد دے گا جہاں برف پگھلنے سے جھیلوں میں طغیانی اور مون سون بارشوں کی وجہ سے سیلاب معمول بن چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس چترال میں ہونے والی تباہی سے سبق سیکھتے ہوئے وہاں ای ڈبلیو ایس کو بہتر بنایا گیا۔

دنیا بھر کی 198 میٹ سروسز کی نگرانی کرنے والے عالمی ادارہ برائے موسمیات (ڈبلیو ایم او) کے جائزوں اور تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ای ڈبلیو ایس پر خرچ کیے جانے والے ایک ڈالر کے بدلے 36 ڈالر بچائے جاسکتے ہیں کیوں کہ سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے خلاف یہ فرسٹ لائن ڈیفنس کا کردار ادا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے وعدہ کیا تھا کہ وہ لاہور، سیالکوٹ اور منگلا میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس ریڈار سسٹم نصب کرنے میں تعاون کریں گے، اس پروجیکٹ پر 4 ارب روپے اخراجات آئیں گے اور یہ 2 برس میں مکمل ہوسکتا ہے۔

وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ محکموں کے خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے رواں برس سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے جائیں کیوں کہ اس سال مون سون کی بارشیں معمول سے 20 فیصد زیادہ ہونے کا امکان ہے۔

انہوں نے کہا کہ آنے والے مون سون کے موسم میں اداروں کو متوقع سیلابوں سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور طبی سہولتوں کی فراہمی اور بحالی کی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی پہلے ہی کرلینی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان بھی غیر معمولی حالات سے دوچار ہے اور نقصانات کو کم سے کم رکھنے کے لیے مکمل تیاری رکھنا ضروری ہے۔

انہوں نے سول ڈیفنس کے حکام سے بھی درخواست کی کہ وہ نوجوانوں کو سیلاب کی صورتحال میں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ترغیب دیں۔

پنھنجي راءِ لکو