حکیم سعید کے قتل کا جھوٹا الزام ایم کیوایم پرلگایاگیا

کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی جانب سے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ حکیم محمد سعید کے قتل کا جھوٹا الزام ایم کیو ایم پر لگایا جارہا ہے، تاہم ماضی میں بھی اس کیس میں ایم کیو ایم کے کارکن باعزت بری ہوئے ہیں۔

ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے خورشید بیگم میموریل ہال کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران پارٹی کے مرکز نائن زیرو کے گرفتار سیکیورٹی انچارج محمد منہاج قاضی کے ویڈیو بیان کے حوالے سے کہا کہ منہاج قاضی کا ریمانڈ مکمل ہوچکا ہے اور وہ اس وقت جیل میں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ منہاج قاضی 90 روز تک رینجرز کی تحویل میں رہے اور مذکورہ بیان رینجرز کی تحویل میں ریکارڈ کیا گیا، 90 دن کے ریمانڈ کے دوران کسی بھی شخص سے ایسا بیان لینا کوئی مشکل بات نہیں۔

فاروق ستار نے ایم کیو ایم پر لگائے جانے والے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے بھونڈے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ زیر حراست ملزم کا ریکارڈ کردہ بیان میڈیا پر نشر کیا جانا آئین کی خلاف ورزی ہے۔

انھوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ وہ زیر حراست ملزم کے ریکارڈ کردہ بیانات کی ویڈیوز نشر ہونے پر توہین عدالت کے تحت ازخود نوٹس لیں۔

ان کا دعویٰ تھا کہ گذشتہ سال سے جاری کراچی آپریشن کے دوران ایم کیو ایم کے 130 کارکن لاپتہ ہیں۔

فاروق ستار نے الزام لگایا کہ حکیم محمد سعید کے قتل کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف یہ دوسرا آپریشن ہے، جبکہ اس سے قبل بھی 1998 میں ایم کیو ایم کو تنہا کرنے کی سازش کی گئی تھی۔

انھوں نے کہا کہ 1998 میں بھی ایم کیو ایم کا میڈیا ٹرائل کیا گیا تھا اور یہ سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع کردیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے مرکز نائن زیرو کے سیکیورٹی انچارج محمد منہاج قاضی نے ایک ویڈیو بیان میں سابق گورنر سندھ اور ہمدرد فاؤنڈیشن کے بانی حکیم محمد سعید کے قتل کیس سے لاتعلقی کا دعویٰ کیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکیم سعید کے قتل میں کراچی سے ذوالفقار حیدر، آل پاکستان متحدہ اسٹوڈنٹس آرگنازئزیشن (اے پی ایم ایس او) کے سابق چیئرمین محمود صدیقی، شاکر لنگڑا، عمران پاشا، ندیم موٹا اور عامر اللہ ملوث تھے۔

یاد رہے کہ رینجرز نے 11 مارچ 2015 کو متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ مارا تھا، اس دوران ایم کیو ایم رہنما عامر خان سمیت 60 کے قریب افراد کو حراست میں لیا گیا تھا جن کو رینجرز نے تحفظ پاکستان آرڈیننس کے تحت 3ماہ کے لیے تحویل میں لیا تھا، بعدازاں ایم کیو ایم کے 38 کارکنان کو رہا کر دیا گیا تھا۔

بعدازاں رینجرز کی مدعیت میں عامرخان پر مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ انہوں نے جرائم پیشہ افراد کو پناہ دی تھی۔

مقدمے میں عامر خان کے 6 ساتھیوں کو بھی نامزد کیا گیا تھا جن میں فیصل موٹا، عبید کے ٹو، منہاج قاضی، ریس عرف ماما، عمران اعجاز نیازی اور فرحان ملا بھی شامل تھے۔

حکیم سعید قتل کیس— کب کیا ہوا؟
سابق گورنر سندھ اور ہمدرد فاؤنڈیشن کے بانی حکیم محمد سعید کو 17 اکتوبر 1998 کو نامعلوم افراد نے ان کے کلینک کے باہر ان کے ساتھی حکیم عبدالقدیر قریشی کے ساتھ قتل کردیا تھا۔

4 جون 1999 کو سابق گورنر سندھ کے قتل کے جرم میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 9 افراد کو سزائے موت دینے کے ساتھ ساتھ ایک ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

تاہم بعد میں سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے عدم ثبوت کی بنا پر ملزمان کو بری کردیا گیا تھا۔

مقدمے میں اگلی پیشرفت اس وقت ہوئی جب حکومت سندھ نے اکتوبر 2001 میں اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

تاہم سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے ایم کیو ایم کے کارکنان عامراللہ ،عمران پاشا اورمحمد شاکر کو عدم ثبوت پر بری کردیا۔

بریت کے فیصلے پر بزنس روڈ، رنچھوڑ لائن اور لیاقت آباد میں ایم کیو ایم کے کارکنان کی جانب سے مٹھائیاں تقسیم کی گئیں اور جشن منایا گیا۔

دوسری جانب ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے سپریم کورٹ کی جانب سے حکیم سعید قتل کیس میں ایم کیوایم کے کارکنوں کوباعزت بری کرنے کا فیصلہ برقرار رکھنے کے فیصلے کو حق اور سچ کی فتح قرار دیا تھا۔

ایک اعلامیے میں رابطہ کمیٹی نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ حکیم سعید قتل ایم کیو ایم کے خلاف گہری سازش کا حصہ تھا۔

پنھنجي راءِ لکو