دنیا بھر کے کلیساﺅں کا ایک ہزار سال بعد پہلا اجلاس،مسلکی اختلافات دور کرنے کی کوشش کریں گے

ایتھنز(مانیٹرنگ ڈیسک )دنیا بھر کے آرتھوڈوکس مسیحی کلیساو¿ں کے اعلیٰ ترین رہنماوں کا ایک ہزار سال بعد پہلا اجلاس شروع ہو گیا۔یہ اجلاس یونانی جزیرے کرِیٹ کے شہر ہیراکلیئن میں شروع ہوا ہے۔ ایسا آخری کلیسائی اجلاس پچھلی مرتبہ 1054ءمیں ہوا تھا۔
یونانی دارالحکومت ایتھنز سے ملنے والی رپورٹس کے مطابق مسیحیت کی دو ہزار سال سے زائد پرانی تاریخ میں ایک حوالے سے یہ اجلاس دراصل اپنی نوعیت کا صرف دوسرا اجتماع ہے۔
جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے کے مطابق اس سے قبل اسی طرح کا ایک اجتماع 962 برس قبل سن 1054ءمیں ہوا تھا اور اس میں مسیحی عقیدہ باقاعدہ طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔ جن میں سے ایک مسلک کیتھولک دوسرا آرتھوڈوکس کہلایا۔ مسیحیت کی تاریخ میں قریب ایک ہزار سال پہلے کے اس واقعے کو ’عظیم تقسیم‘ کی اصطلاح کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔
اس عالمی آرتھوڈوکس کلیسائی اجلاس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں آرتھوڈوکس عقیدے کی کئی اہم شاخوں کے اعلیٰ ترین نمائندے حصہ نہیں لے رہے، جس کی وجہ سے اس ’آرتھوڈوکس کونسل‘ کہلانے والے اجلاس کی کامیابی کے بارے میں شروع سے ہی شکوک و شبہات ظاہر کیے جانے لگے ہیں۔دعوت ناموں اور ’کونسل‘ کی تفصیلات طے کرنے میں نصف صدی سے زائد کا عرصہ لگا۔
اس اجتماع کو ’مقدس اور عظیم کونسل‘ کا نام دیا جاتا ہے، جس دوران شرکاءمسلکی اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس کونسل کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس موقع پر ہونے والی عبادت میں یونانی صدر پاوَلوپولوس نے بھی خاص طور پر شرکت کی اور یہ ’سروس‘ یونان کے سرکاری ٹیلی وژن سے براہ راست نشر بھی کی گئی۔

پنھنجي راءِ لکو