فوجی عدالتوں میں چلائے گئےمقدمات کی دوبارہ سماعت کامطالبہ

اسلام آباد: انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم سماجی رہنما اور سینئر وکیل عاصمہ جہانگیر نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ فوجی عدالتوں میں چلنے والے ان تمام مقدمات کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا جائے جن میں سزائے موت یا دیگر سزائیں دی گئی ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ کے سامنے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کی دوبارہ سماعت ہونی چاہیے، تمام شواہد اور کیس ریکارڈ پیش کیا جانا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ ملزم کو بھی اپنی مرضی کے وکیل تک رسائی کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔

واضح رہے کہ یہ وہی اپیلیں ہیں جن پر عدالت نے مقدمات کا مکمل ریکارڈ طلب کیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ یہ ریکارڈ درخواست گزار کے وکیل کو اٹارنی جنرل کے دفتر میں فوجی افسر کی موجودگی میں فراہم کیا جائے۔

اگرچہ بعض ملزمان کا مکمل کیس ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جاچکا ہے تاہم چیف جسٹس نے حکم دیا کہ دستاویزات ججوں کے چیمبرز میں بھی پہنچائی جائیں۔

سماعت کے بعد بنچ نے فتح محمد خان، قاری زبیر، شیر عالم اور محمد عربی کی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ اس سے قبل بھی دو سماعتوں میں سپریم کورٹ نے 9 اپیلوں پر فیصلے محفوظ کیے تھے۔

عاصمہ جہانگیر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے موکلان قاری زبیر اور شیر عالم کو “Action In Aid of Civil Power Regulation 2011” (اے اے سی پی آر) کے تحت حراست میں لیا گیا تھا اور اس وقت فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا۔
عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ان کے موکلان کا کیس صرف اس لیے فوجی عدالتوں میں بھیج دیا گیا تاکہ سیکیورٹی فورسز کی بددیانتی کو چھپایا جاسکے کیوں کہ جس قانون کے تحت ملزمان کو گرفتار کیا گیا اسے آئینی تحفظ حاصل نہیں۔

عاصمہ جہانگیر نے مزید وضاحت کرتے ہوئے 21 ویں ترمیم کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ ترمیم پاکستان آرمی ایکٹ 1952، پاکستان نیوی آرڈیننس 1961 اور تحفظ پاکستان ایکٹ 2015 کو قانونی تحفظ فراہم کرتی ہے، تاہم اس ترمیم کے ذریعے کبھی بھی (اے اے سی پی آر) کو تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔
عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجتے وقت وفاقی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت ہر شہری کے برابری کے حقوق کو یقینی بنایا یا نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت جب ہم نے فوجی عدالتوں کو تسلیم کیا تو ہم اپنے بنیادی حقوق سے دستبردار ہوگئے کیوں کہ ہم دہشت گردی کو جڑ سے ختم ہوتا دیکھنا چاہتے تھے۔

عاصمہ جہانگیر نے مزید کہا کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنا آسان نہیں، وہ ارکان اسمبلی جنہوں نے فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں ووٹ دیئے، ان سے پوچھا جائے کہ اگر ان پر کوئی الزام لگے تو وہ اپنے مقدمے کی سماعت سول عدالت میں چاہیں گے یا فوجی عدالت میں۔

پاکستان آرمی ایکٹ کی مختلف سیکشنز کا حوالہ دیتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ قانون ہر ملزم کو وکیل تک رسائی کا حق دیتا ہے جو اس کے کیس کو سیشن جج کے سامنے پیش کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے دوران ملزمان کو جو وکیل فراہم کیے گئے وہ مناسب تھے یا نہیں۔
شواہد اور کیس ریکارڈ کی فراہمی کے حوالے سے حکام کی جانب سے مانگی جانے والی رعایت پر بات کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے بتایا کہ رعایت کا مطلب یہ ہے کہ معلومات میڈیا کے سامنے نہیں لائی جائیں گی تاہم انہیں ملزم اور اس کے وکیل کو دکھانے میں کوئی حرج نہیں۔

اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل عتیق شاہ نے ایک بار پھر اپنا موقف دہرایا کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کے دوران قانون سے انحراف نہیں کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ فوجی عدالتوں کے لیے کیسز کے انتخاب کے وفاقی حکومت کے اختیارات کو کبھی پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ پاکستان آرمی ترمیمی ایکٹ 2015 کے تحت وفاقی حکومت کو کسی بھی مقدمے کو فوجی عدالتوں میں بھیجنے کا مکمل اختیار حاصل ہے-

پنھنجي راءِ لکو