قابل اعتراض اشتہارات نشرکرنے کی اجازت نہیں، پیمرا

لاہور(ویب ڈیسک)پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے لاہور ہائی کورٹ کو بتایا کہ ضابطہ اخلاق برائے 2015 کے تحت ٹی وی چینلز پر حکمیوں، کالے جادو اور پورنوگرافی سے متعلق اشتہارات نشر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید کی جانب سے بجلی کے بلوں میں پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کی فیس کی وصولی اور پرائیویٹ کیبل ٹی وی چینلز پر قابل اعتراض اشتہارات، ڈراموں اور انٹرٹینمنٹ پروگرام نشرکرنے کے حوالے سے دائر کی گئی درخواست کی سماعت ہوئی۔

ریجنل جنرل منیجر (لاہور) نے پیمرا کی جانب سے اس کیس کے حوالے سے عدالت میں تحریری جواب جمع کروایا۔

جواب میں کہا گیا کہ پیمرا پر لگائے گئے الزامات عمومی نوعیت کے ہیں اور اتھارٹی نے ابھی تک کسی ایسے چینل کو لائسنس جاری نہیں کیا جس نے پیمرا کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہو، ‘تاہم اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ پیمرا نے تمام چینلز کو آزاد اور بے لگام چھوڑ دیا ہے، پیمرا اپنے ضابطہ اخلاق کے مطابق(حکیموں، کالے جادو اور فحاشی پر مشتمل) قابل اعتراض اشتہارات چلانے کی اجازت نہیں دیتا۔’

جسٹس سید منصور علی شاہ نے پیمرا کو اپنے ضابطہ اخلاق پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنانے اور کیبل آپریٹرز اور ٹی وی چینلز کے خلاف قابل اعتراض اشتہارات، ڈرامے اور پروگرام نشر کرنے پر کارروائی کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے قانونی تحفظ کے بغیر بجلی کے بل میں 50 روپے بطور پی ٹی وی فیس کی وصولی پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل اس معاملے پر تسلی بخش جواب دینے سے قاصر رہے، جس پر عدالت نے 29 جون کو آئندہ سماعت پر پی ٹی وی کے مینجنگ ڈائریکٹر کو معقول جواب جمع کرانے کا حکم دیا۔

اس سے قبل پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید کے وکیل شیراز ذکاء نے عدالت کو بتایا تھا کہ کیبل ٹی وی چینلز پر بے حیائی اور فحاشی پھیلانے والے ہندوستانی اسٹارز دکھائے جارہے ہیں اور اس طرح کے قابل اعتراض پروگراموں کی نشریات سے نوجوانوں کا اخلاق تباہ ہورہا ہے، لیکن وزارت اطلاعات پیمرا کے ضابطہ قانون کی خلاف ورزی ہونے کے باوجود کوئی نوٹس نہیں لے رہی۔

انہوں نے کہا کہ کیبل آپریٹرز کھلے عام ’انڈیسنٹ ایڈورٹائزمنٹ ایکٹ‘ کی حلاف ورزی کررہے ہیں اور ان قابل اعتراضات پروگراموں کے ذریعے اسلامی ریاست میں فحاشی اور بے حیائی پھیلائی جارہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزارت اطلاعات کی جانب سے بجلی کے بل میں پی ٹی وی کی فیس کو شامل کرنا بھی غیر قانونی ہے۔

پنھنجي راءِ لکو