القاعدہ نے ایمن الظواہری کے خاندان کی خواتین کی رہائی کیلئے اغوا کیا : علی حیدر گیلانی

لاہور (ویب ڈیسک) سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی نے اپنے اغوا کے ماہ و سال سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا ہے کہ انہیں القاعدہ نے اغوا کیا تھا جبکہ انہیں فیصل آباد، وزیرستان اور افغانستان میں رکھا گیا جہاں ان پر جسمانی تشدد نہیں کیا گیا بلکہ ہروقت انہیں باندھ کر رکھا جاتا تھا۔ القاعدہ ان کے بدلے ایمن الظواہری کے خاندان کی چند خواتین کو رہا کروانا چاہتی تھی۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے علی حیدر گیلانی کا کہنا تھا کہ اغوا سے قبل کوئی دھمکی نہیں ملی تاہم یہ بتایا گیا کہ میرا پیچھا کیا جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی پاسداری کرتے ہوئے میرے محافظوں نے اپنے ہتھیار گاڑی میں چھوڑ دیے تھے۔ایک جلسے کے بعد میں باہر نکالا تو کسی نے میری گردن سے پکڑ کر مجھے زور سے دھکا دیا جس سے میں زمین پر گر گیا۔ پھر میں نے گولیوں کی آواز سنی اور اپنے دونوں محافظوں کو گرتے دیکھا۔ میں زمین پر لیٹا تھا کہ انھوں نے بندوق میرے سر پر دے ماری اور میرا سر پھٹ گیا۔ مجھے اس وقت لگا کہ شاید یہ لوگ مجھے مارنے آئے ہیں۔ جس کے بعد انھوں نے مجھے گاڑی میں ڈالا اور اس خوف سے کہ کوئی جاسوسی کے آلات میرے کپڑوں میں نہ ہوں میرے کپڑے اور جوتے اتار کر باہر پھینک دیے۔
انھوں نے میری آنکھوں پر پٹی نہیں باندھی تھی اس لیے میں انھیں دیکھ سکتا تھا لیکن اب ان کے چہرے بھول گیا ہوں۔ وہ سب پنجابی زبان میں باتیں کر رہے تھے۔ پھر مجھے خاموش رہنے کے لیے کہا اور ایسا نہ کرنے پر گولی مارنے کی دھمکی دی اور گاڑی ملتان سے خانیوال روڈ پر ڈال دی۔‘
علی حیدر گیلانی کا کہنا تھا کہ انھیں جسمانی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا
’دو اغوا کار خانیوال میں گاڑی سے اتر گئے۔ پھر وہ مجھے فیصل آباد لے آئے۔ جس گاڑی میں ہم سفر کر رہے تھے اس پر انتخابی پوسٹرز اور جھنڈے لگے ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنا تعارف القاعدہ کے طور پر کروایا اور کہا کہ آپ یوسف رضا گیلانی کے بیٹے ہیں اس لیے آپ کو اغوا کیا ہے۔ آپ کے والد کے دور میں اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد کے علاوہ سوات اور وزیرستان میں کارروائیاں ہوئیں۔ آپ دشمن ہیں ہمارے!‘
سابق وزیرِ اعظم کے صاحبزادے نے بتایا کہ اغوا کے بعد انھیں کچھ عرصے تک فیصل آباد میں رکھا گیا جہاں سے انھیں وزیرستان منتقل کیا گیا۔
ملتان سے فیصل آباد تک سفر میں کوئی پولیس چوکی نہیں آئی اور نہ کوئی کہیں چیکنگ ہوئی۔ مجھے اڑھائی ماہ تک فیصل آباد میں ایک مکان میں رکھا گیا۔ اخبار آنے کی وجہ سے اندازہ ہوا کہ یہ فیصل آباد ہے۔ انھوں نے مجھے زنجیر سے باندھ کر رکھا بلکہ بعض اوقات وہ رات کو سوتے ہوئے ہاتھوں میں بھی زنجیر پہنا دیتے تھے۔
22 جولائی 2013 کو وہ مجھے ایک گاڑی میں براستہ موٹر وے بنوں سے وزیرستان لے گئے۔ انھوں نے مجھے اور دو اور لوگوں کو برقعے پہنا دیے اور چپ رہنے کے لیے کہا۔ بنوں سے وزیرستان جاتے ہوئے کوئی دس فوجی چوکیاں آئیں۔ایک دو پر شناخت کے لیے روکا گیا لیکن صرف ڈرائیور کا شناختی کارڈ دیکھ کر چھوڑ دیتے تھے۔ مسافروں کی چیکنگ نہیں کر رہے تھے۔ (شمالی وزیرستان میں) میں ڈانڈے درپہ خیل میں مجھے سات ماہ تک رکھا گیا۔ وہاں بھی سارے پنجابی بولنے والے اور ایک جرمن مغوی تھا جسے ملتان سے اٹھایا گیا تھا۔‘
(ایک غیرسرکاری تنظیم کے لیے کام کرنے والا یہ جرمن شہری برنڈ موہلن بیک جنوری 2012 میں اغوا ہوئے اور اکتوبر 2014 میں رہا ہوئے۔ عام تاثر ہے کہ انھیں تاوان کی ادائیگی کے بعد رہائی ملی لیکن جرمن حکومت اس سلسلے میں کچھ نہیں بتایا کہ وہ کیسے اور کہاں رہا ہوئے۔ صرف اتنا کہا تھا کہ وہ ایک ’غیرملکی دوست’ کی مدد سے بازیاب ہوئے تھے۔)
’مجھ پر انھوں نے کبھی جسمانی تشدد نہیں کیا لیکن ذہنی دباو¿ میں رکھتے تھے۔ زنجیر کی وجہ سے بیت الخلا جانے میں دقت وغیرہ کافی رہی۔‘انھوں نے بتایا کہ ڈرون حملوں میں القاعدہ برصغیر کے رہنما اور لاہور سے اغوا کیے گئے امریکی شہری ڈاکٹر وارن وائنسٹائن کی ہلاکت کے بعد انھیں طالبان کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
’دتہ خیل میں ایک ڈرون حملے کے بعد مجھے طالبان کے حوالے کر دیا گیا جو مجھے شوال لے گئے۔ یہ سجنا گروپ تھا جن کے پاس میں نے 14 ماہ گزارے۔ تاریخ، دن اور ماہ مجھے اس لیے آج بھی یاد ہیں کہ میں تواتر سے ڈائری لکھتا تھا جو وہ باقاعدگی سے جلا دیتے تھے۔ انھوں نے مجھے پڑھنے کے لیے کتابیں بھی دی تھیں۔‘
ایک اس بات پر ایمان کہ اللہ مدد کرے گا، دوسری امید کہ ایک دن رہائی نصیب ہوگی اور تیسرا صبر۔ یہ تینوں مجھے اچھی ذہنی حالت میں رکھنے کے لیے اہم تھیں۔ میں نے اپنے کمرے کی دیوار پر لکھا ہوا تھا ’وکٹری کمز ود پیشینس’ یعنی فتح صبر سے ملتی ہے۔ میں روزانہ اٹھ کر یہ پڑھتا تھا۔
قید کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے علی حیدر کا کہنا تھا ’قید کے دوران میں نے 14 ماہ تک آسمان نہیں دیکھا۔ کمرے میں ایک بلب 24 گھنٹے جلتا رہتا تھا۔ قدرتی روشنی ناپید تھی۔ میں نے ایک دن تنگ آ کر اغوا کاروں سے کہا کہ کم از کم یہ بلب رات کے وقت تو بند کر دیا کرو تاکہ مجھے دن اور رات کا کوئی اندازہ تو ہو۔‘
علی حیدر کا کہنا تھا کہ انھیں باہر کی دنیا کے ساتھ رابطہ اچھا لگتا تھا اور اس سلسلے میں انھیں جو بھی موقع ملا انھوں نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔’طالبان کو کرکٹ کا شوق تھا۔ ورلڈ کپ کے دوران جب پاکستان جنوبی افریقہ کے خلاف میچ کھیل رہا تھا تو میں نے اپنے اغوا کاروں سے درخواست کی کہ مجھے میچ دیکھنے دیں۔ انھوں نے ٹی وی تو نہیں لیکن ریڈیو کا بندوبست کر دیا۔ کمرے کے اندر سگنل صاف نہیں آ رہے تھے لہٰذا میں ریڈیو اور سلیپنگ بیگ لے کر باہر آگیا۔ پھر وہ میچ میں نے برفباری کے دوران سنا اور پاکستان جیت گیا تو خوشی کی انتہا بھی نہ تھی۔‘
پاک فوجہ کی کارروائیوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جب بمباری شروع ہوتی تھی تو وہ ہمیں لے کر باہر کھلے علاقے میں چلے جاتے تھے۔ میں نے سو گز کے فاصلے سے جیٹ طیارے کا حملہ دیکھا ہے۔ پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کی ہلاکت کے بعد میں نے پاکستانی فضائیہ کی دتہ خیل پر بمباری دیکھی تھی۔ خوفناک آوازیں ہوتی تھیں۔ نشانہ ٹھیک لگاتے تھے لیکن ان گھروں میں اکثر کوئی نہیں ہوتا تھا۔ شدت پسند پہلے ہی نکل جاتے تھے۔
’اس سال فروری میں جب پاکستان فوج نے دتہ خیل اور شوال میں کارروائی شروع کی تو مجھے افغانستان منتقل کر دیا گیا۔ وہاں کے علاقوں کے نام مجھے نہیں معلوم لیکن شاید پکتیکا کا علاقہ تھا۔ ہم نے وہاں بھی دو تین مقامات تبدیل کیے۔ ویسے تو میں جنگی علاقے میں تھا تو ڈرون اور پاکستان فضائیہ کے حملے اکثر ہوتے رہتے تھے۔
دورانِ قید اہلخانہ سے رابطوں کے بارے میں بتاتے ہوئے علی حیدر گیلانی نے کہا ’انھوں نے دو سال میں صرف دو مرتبہ میری بات گھر کروائی تھی افغان موبائل سم سے۔ ایک مرتبہ والدہ سے بات کی تھی اور دوسری مرتبہ والد سے۔ انھوں نے میری کئی ویڈیوز بھی بنائیں لیکن جاری دو ہی کیں جن میں میں حکومت اور اپنے خاندان سے ان کی بات سننے کو کہتا تھا۔‘
علی حیدر کے مطابق ان کے اغواکاروں کے مطالبات غیرحقیقی تھے جیسے کہ امریکی فوج کا افغانستان سے مکمل انخلا، قیدیوں کی رہائی اور رقم کا تقاضہ لیکن پیسہ ان کے لیے کبھی مسئلہ نہیں رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ انھیں ان کے اغوا کار اکثر بتاتے تھے کہ اگر ان کی رہائی کے لیے کوئی فوجی کارروائی ہوئی تو سب سے پہلے وہ خود انھیں گولی مار دیں گے۔
بازیابی کے آپریشن کا ذکر کرتے ہوئے علی حیدر نے کہا ’جب نو مئی کا دن آیا۔ اس روز اتفاق سے میں بہت افسردہ تھا۔ شام کو القاعدہ کا آدمی آیا اور کہا کہ آج چھاپہ پڑے گا۔ نماز عشا کے بعد وہ مجھے مکان سے باہر لے گئے۔ وہ مجھے پاکستان کی جانب لے جا رہے تھے اتنا تو اندازہ تھا مجھے۔ مجھے سرحدی پہاڑ دکھائی دے رہے تھے۔ میرے پاو¿ں کے چپل اتر گئے تھے۔ ایسے میں دو امریکی شنوک ہیلی کاپٹر اور شاید دو بغیر آواز والے کوبرا تھے جو ہم پر روشنی ڈال رہے تھے۔ میرے اغوا کار نے پہلے کہالیٹ جاو¿ میں لیٹ گیا پھر کہا بھاگو۔‘
’میں اغوا کاروں کے ساتھ بھاگنے کی بجائے دوسری سمت میں دوڑا۔ تین چار فائر ہوئے۔ مجھے یقین تھا کہ میں بھی مارا جاو¿ں گا۔ بس یہ چند سیکنڈز کی دوری نے مجھے بچا لیا۔ القاعدہ کے اغوا کار کے مرنے کے بعد امریکیوں نے مجھ سے پشتو میں کچھ کہا۔ میں نے چیخ کر جواب دیا انگلش۔ تو انھوں نے پھر مجھے قمیض اتارنے اور ہاتھ اونچے کرنے کی ہدایات دیں۔ امریکی فوجی آیا اور اس نے میرے ہاتھ پیچھے باندھ دیے۔
میں نے اسے اپنا تعارف کروایا کہ میں علی حیدر گیلانی ہوں اور میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم کا بیٹا ہوں۔ تو وہ حیران ہوا۔ اس نے میری آنکھوں میں روشنی ڈال کر دیکھا اور کہا کہ اس کا رنگ تو نہیں ملتا۔ پھر سر دیکھا اور کہا کہ ہیئر لائن بھی نہیں ملتی۔ شاید وہ کسی اور کے ساتھ مجھے ملا رہے تھے۔ پھر اس نے اپنے ہیڈکوارٹر سے رابطہ کیا اور منٹوں میں تصدیق آ گئی تو اس نے مجھ سے کہا۔ ’مسٹر گیلانی یو آر گوئنگ ہوم۔‘

پنھنجي راءِ لکو