خیبرپختونخوا افغانیوں کی سرزمین: ‘بیان درست پیش نہیں کیا گیا’

اسلام آباد: پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے خیبرپختونخوا کو افغانیوں کا صوبہ قرار دینے سے متعلق اپنے بیان کی ترید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔

خیال رہے کہ محمود خان اچکزئی نے افغان اخبار افغانستان ٹائمز کو ایک انٹرویو میں خیبر پختونخوا کو ’افغانیوں‘ کا قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کسی کو، افغان مہاجرین کو ان کی ’اپنی زمین‘ پر ہراساں کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ افغان پناہ گزین بلاخوف و خطر خیبر پختونخوا میں قیام کرسکتے ہیں۔

ڈان نیوز کے پروگرام ‘ذرا ہٹ کے’ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں اچکزئی کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ کہا تھا کہ اگر پنجابی، سرائیکی، بلوچ یا سندھ کے لوگ افغان مہاجرین سے تنگ ہیں تو انہیں ‘پختونخوا وطن’ میں ہماری طرف لے آئیں۔

تاہم، محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین پاکستان میں اقوامِ متحدہ کے ایک معاہدے کے تحت مقیم ہیں اور انہیں ایک افغان شناختی کارڈ فراہم کیا جانا چاہیے تاکہ کوئی انہیں تنگ نہ کرسکے۔

انھوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ہم سب افغان شہریوں کو شناختی کارڈ دینے کی بات کررہے ہیں، ان کا کہنا تھا، ‘ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ جس طرح دبئی میں پاکستان و ہندوستان سمیت کئی ملکوں کے لوگ آباد ہیں، وہ وہاں کاروبار بھی کررہے ہیں تو اسی طرح پاکستان میں بھی مقیم افغان شہریوں کو شناختی کارڈ دیا جائے، کیونکہ وہ ہمارے مہمان ہیں۔ ‘

محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ افغانیوں کو پاکستان میں رہنے کا حق حاصل ہے، کیونکہ وہ اقوامِ متحدہ کے ایک معاہدے کے تحت یہاں مقیم ہیں۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر بلاوجہ افغانیوں کو تنگ کیا جائے گا، تو ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، کیونکہ کوئٹہ اور بلوچستان میں بڑی تعداد میں افغان و ازبک موجود ہیں جو وہاں کی تعمیر نو کے کاموں میں حصہ لیتے ہیں، لہذا انہیں دہشت گرد کہنا مناسب نہیں ہوگا۔

بلوچستان میں مقیم افغانیوں کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے اجراء میں قوم پرست جماعتوں کی مدد سے متعلق ایک سوال ایک جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صوبائی اسمبلی میں ہمارے 4 ارکان نے نادرا کی بے ضابطگیوں کے مسئلے کو اجاگر کیا تھا، لیکن اسی بات کو بنیاد بنا کر بلوچستان میں نادرا کے مقامی افسر نے وزرتِ داخلہ کو ایک خفیہ خط لکھا اور ہمیں بدنام کیا گیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ وہ پوری ایمانداری سے یہ بات کررہے ہیں کہ ‘اگر کسی بھی ایک افغان شہری کو ہم نے شناختی کارڈ دیا ہے تو جو سزا چور کی ہو وہی ہماری ہونی چاہیے۔’

محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ ‘ہوسکتا ہے کہ ایسا کسی نے بھاری رقم لے کر کیا ہو، لیکن اگر اس میں کوئی بھی عہدیدار یا ایم پی اے ملوث ہے تو اس کے خلاف کارروائی عمل میں لانی چاہیے۔’

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی افغانی نے غیر قانونی طور پر شناختی کارڈ لیا ہے تو وہ بھی اتنا ہی قابلِ مذمت ہے جتنا کہ نادرا کی طرف سے شناختی کارڈز کا اجراء ہونا’۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ شناختی کارڈ کے اجراء کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں، لیکن اس کا ذمہ دار ہماری جماعت کو نہ ٹھہرایا جائے۔

واضح رہے کہ افغانستان ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں محمود خان اچکزئی کے حوالے سے کہا تھا کہ اگر ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ پاکستان اور افغانستان نے حل نہ کیا تو اسے امریکا اور چین کے حوالے کردینا چاہیے، وہ اسے دو ہفتوں میں حل کردیں گے۔

اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے اچکزئی نے کہا کہ’پاکستان اور افغانستان دونوں ایک دوسرے پر سرحد پار حملوں کے الزامات لگاتے ہیں تو میں نے یہ کہا تھا کہ جب دونوں ملکوں کے مذاکرات پر بھی امریکا اور چین کی نظر ہے تو یہ مسئلہ بھی ان ہی کے حوالے کردینا چاہیے۔’

خیال رہے کہ گزشتہ روز اس انٹرویو کے منظرعام پر آنے کے بعد ناصرف سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر محمود خان اچکزئی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، بلکہ سیاسی سطح پر بھی ان کے اس بیان کی مذمت کی گئی۔

محمود خان اچکزئی کے افغان اخبار کو دیئے گئے انٹرویو پر خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا اور انھوں نے کہا تھا کہ خیبر پختونخوا کے عوام ان کے بیان کو مسترد کرتے ہیں اور ان کے بیان کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

پنھنجي راءِ لکو