ہومیو پیتھک ڈاکٹرز کا خط وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے نام – تحریر :۔ ڈاکٹر تصور حسین مرزا

حکومتِ پنجاب نے عطائیت کے خاتمہ کے لئے جہاں ٹھوس اقدام شروع کئے وہاں طب یونانی اور ہومیوپیتھی کا گلا گھونٹنے کی بھی ٹھان لی ہے۔ پاکستان کا ہر شہری یہی چاہتا ہے کہ تعلیم اور صحت کے معاملے میں معیار اور اصولوں پر سمجھوتا نہ ہو۔ بلا تفریق عطائیت کا خاتمہ ہونا چاہیئے ، انسانی جانوں سے کھیلنے والے کسی رعائیت کے مستحق نہیں ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور حکماء حضرات عطائیت کے خاتمہ کے لئے حکومت پنجاب کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، پوری دنیا میں الٹرنیٹیو ( متبادل طریقہ علاج ) عوام میں اور حکومت میں روز بروز مقبول ہو رہا ہے جسکی بنیادی ایک ہی وجہ ہے کہ متبادل طریقہ علاج ( ہومیوپیتھی اور حکمت ) میں کسی قسم کے ادویات کے سائیڈ ایفیکٹس نہیں ہوتے جسکی وجہ سے ہر خاص و عام کے لئے مضر اثرات سے مبرا ہونے کے ساتھ ساتھ معیاری اور سستی ہونے کی وجہ سے ہر جگہ آسانی سے دستیاب ہوتیں ہیں ، مگر افسوس صد افسوس !Tasawar JPG LOGO news paper
پنجاب حکومت نے حکماء اور ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے بقول شاعر
جن پہ تکیہ تھا۔۔۔۔۔۔ وہ ہی پتے ہوا دینے لگے
جی ہاں ! حکومت پنجاب نے متبادل طریقہ علاج کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے حوصلہ شکنی شروع کر دی ہیں ۔
وزیر اعلیٰ پنجاب جناب میاں محمد شہباز شریف کی نیت پر شک نہیں کہ وہ پنجاب بھر میں عطائیت کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔۔۔کیونکہ نیت بندے اور اللہ پاک کے درمیان ہیں
جیسا کہ ہر ذی شعور جانتا ہے کہ پاکستان میں تین طریقہ علاج مقبول و معروف ہیں ان میں ایک طرف الٹرنیٹو ٹریٹمنٹ متبادل طریقہ علاج ( ہومیوپیتھی و حکمت ) ہیں جب کہ دوسری طرف انگریزی (ایلوپیتھک ) طریقہ علاج ہیں جس کو سرکاری پوری سرپرستی حاصل ہیں، پاکستان دنیا کے چند ان ممالک میں شامل ہیں جن کی پالیسیاں غیر بناتے ہیں اور رہا صحت کا مسلۂ تو حکومت مکمل طور پر ایلوپیتھک ( انگریزی طریقہ علاج) کے رحم و کرم پر ہیں، اور ایلوپیتھک طریقہ علاج کے ڈاکٹرز ، ڈائریکٹرز اور صحت کے شعبہ سے منسلک اعلیٰ عہدے دران نے اس بات کو باور کروایا ہوا ہے کہ پاکستان میں جگر ، اور گردے کے امراض میں لوگوں کی کثیر تعداد مبتلا ہیں اور یہ عطائیت کی پیداوار ہیں ، اس بات میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں عطائیت اس کا بہت بڑا سبب ہیں لیکن !
اس عطائیت کو متبادل طریقہ علاج ( ہومیوپیتھی و حکمت )سے نتھی کرنا انصاف نہیں
ہومیوپیتھی و حکمت کی عطائیت یہ ہے کہ یہ لوگ پائیوڈین یا عام روز مرہ کی ادویات ڈسپرین یا پیراسٹامول استعمال کرواتے ہیں حالانکہ عام روزہ مرہ کی ادویات کے لئے پوری دنیا میںیورپ امریکہ اور افریقہ سمیت کسی ملک میں کوئی پابندی نہیں صرف پنجاب حکومت نے پابندی لگائی ہے وہ بھی عطائیت کے خاتمہ کے لئے۔ دوسری طرف ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور حکما کے دوا خانوں کا صرف چلان نہیں بلکہ سیل کر رہے ہیں تا کہ عطائیت کا خاتمہ ہو سکے اس طرح عطائیت کا خاتمہ مشکل ہی نہیں بلکہ نہ ممکن ہے اور ان دواخانوں اور کلینکوں کے چلان بلکہ سیل ہونے کی بڑی وجہ فرسٹ ایڈ ( وہ فرسٹ ایڈ جو ہر سکول ، پلازہ بلکہ دکان پر لازمی ہوتی ہے ) اس سے ثابت ہوا کہ عطائیت کے خاتمہ کے نام پر در حقیقت حکومت پنجاب ہومیوپیتھی اور حکمت کا خاتمہ چاہتی ہے۔
اگر کسی کو میری بات سے اتفاق نہ ہو تو حکومت پنجاب کا یہ فرمان پچھلے ہفتہ کے تمام اخبارات اور میڈیا سیل سے پڑھ لیں
محکمہ پرائمری ہیلتھ اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر نے ہسپتالوں میں ہومیوپیتھک اور حکمت کے شعبہ جات کو بند کرنے کے فیصلے کے بعد محکمہ کے زیرِ اہتمام ہسپتالوں میں نئے بھرتی ہونے والے حکماء اور ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کی بھرتیاں بھی منسوخ کر دی ہے کیونکہ ان شعبہ جات کو بند کرنے کی حکومتی تیاری مکمل ہو چکی ہے ۔محکمہ پرائمری ہیلتھ اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر نے دونوں شعبہ جات کو مکمل ’’ مردہ قرار دیا ‘‘ ہے اسی لئے مزید بھرتیاں نہیں کی جا رہی بلکہ نئی بھرتیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے
محکمہ صحت نے سرکاری ہسپتالوں میں ہومیو پیتھک ڈسپنسریوںں اور ہومیو ڈاکٹروں کے خلاف شکنجہ تیار کر لیا ہے،یہ کارروائی ان رپورٹس پر کی جا رہی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں میں 1160ہومیو ڈاکٹرسالہا سال سے ایک ہی جگہ تعینات ہیں اور فرائض سرانجام دینے کی بجائے حاضریاں لگا کر رفو چکر ہو جاتے ہیں اور مہینوں بعد اکا دکا مریض دیکھ کر یا فرضی یا جعلی مریضوں کے نام پر پرفارمے فل کر کے خانہ پری کر رہے ہیں اور خزانہ پر بوجھ ہیں۔محکمہ صحت کو یہ بھی رپورٹس موصول ہوئی ہیں کہ زیادہ تر ہومیو ڈاکٹرز جعلی ڈپلوموں پر تعینات ہیں اگر ان کی تحقیقات کروائی جائیں تو 60سے 70 فیصدڈاکٹرز خود بخود ہی فارغ ہو جائیں گے۔ان ہومیو ڈاکٹرز کو گریڈ 17 میں مختلف ہسپتالوں میں تعینات کیا گیا تھا مگر ان کی کارکردگی مانیٹرنگ نہ ہونے کی وجہ سے زیرورہی۔ذرائع نے بتایا ہے کہ انہیں فارغ کر کے ان کی جگہ ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کو گریڈ 17میں میڈیکل افسر تعینات کیا جائے گا اور یہ سیٹیں ہر ہسپتال کو اضافی سیٹوں کے طور پر دی جائیں گی۔ذرائع نے بتایا ہے کہ اس سلسلے میں محکمہ صحت پنجاب نے تمام سرکاری اسپتالوں سے ہومیو پیتھک ڈاکٹروں کو فارغ کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔اس کے ساتھ ہومیو پیتھک نام نہاد ڈسپنسریاں بھی ختم کی جا رہی ہیں۔جبکہ ان خالی سیٹوں پر ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کو میڈیکل افسر کے طور پر بھرتی کر کے بعد میں نئی بھرتی پر پابندی بھی عائد کر دی جائے گی۔
یہ سارے حقائق روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت پنجاب ایلوپیتھک ڈاکٹرز کے ہاتھوں کھیل کر نہ سرف ہومیوپیتھی و حکمت کا گلا دبا کر بے موت مارنا چاہتی ہے بلکہ قدرتی بے ضرر موثر سائنسی علاج سے پاکستانی غیور عوام کو بد ظن کرنا چاہتی ہے ، ہومیوپیتھی اور حکمت جیسے بے ضرر علاج سے پاکستانی عوام کو دور کرنے کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہوگئی کیونکہ پاکستانی عوام بھی اپنا فائدہ اور نقصان جانتی ہے
رہا مسلہ سرکاری ہومیوپیتھک ڈاکٹرز پر الزام تراشی کا؟اگر ہومیوپیتھک ڈاکٹرز حاضری لگا کر غائب ہو جاتے ہیں تو ہسپتال کا ایم ایس اور ڈی ایم ایس کس مرض کی دوا ہے؟ اگر مریض ہومیوپیتھی سے فیضیاب نہ ہوتے تو ایلوپیتھک ڈاکٹرز ہومیوپیتھی و طب سے جیلس نہ ہوتے ؟اگر ہومیوپیتھی و طب کے سائیڈ افیکٹس ہوتے تو آج الزام تراشی کرنے والی سرکاری طب ( ایلوپیتھی )خاموش نہ ہوتی۔
اگر روز مرہ کی ادویات یا فرسٹ ایڈ کو عطائیت کے زمرے میں شمار کیا جائے تو پھر پوری دنیا عطیت کا شکار ہے ( ماسوائے پنجاب )
بات عطائیت کی ہورہی ہے تو نئے قوانین کے تحت اگر کسی طب کا کوالیفائڈ معالج اپنی طب کے علاوہ کسی دوسرے طریقہ علاج کی کوئی چیز استعمال کرواتا ہے تو یہ عطائیت ہے یعنی اگر کوئی ہومیوپیتھک ڈاکٹر یا حکیم کسی کو سر دردر کے لئے پیراسٹامول یا اسپرین دیتا ہے تو یہ عطائیت ہے ۔۔۔۔
کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر صاحب مریض کو اسبغول یا دھی کھلاتے ہیں توعطائیت کا لیبل نہیں ؟ اگر یہی ڈاکٹر صاحب بچے کو ہومیو یا یونانی COLIC ڈراپس استعمال کرواتے ہیں تو عطائیت کا زمرہ کیوں استعمال نہیں ہوتا۔۔
آج کل ہر جگہ لیڈی ہیلتھ ورکرز ہیں جو گھر گھر جا کر پیرا سٹامول ، ڈسپرین، زنک ، کونین ، وٹامنز وغیرہ دیتی ہیں اور وہ عطائیت نہیں حالانکہ لیڈی ہیلٹھ ورکرز نے Anotomy , Physiology Pathology وغیرہ کچھ بھی نہیں پڑھا ہوتا جبکہ حکماء اور ہومیوپیتھک ڈاکٹرز نے بنیادی سائنسی علوم امتیازی نمبروں سے پاس کئے ہوتے ہیں
ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور حکماء حضرات کو ہراساں کرنے کے لئے ایسے چیک کیا جاتا ہیں جیسے ہومیوپیتھک ڈاکٹر یا حکیم ہونا کوئی بہت بڑا جرم ہو ، سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک کوالیفائیڈ ہو میو معالج اور حکیم الٹرنیٹیو میڈیسن کے ہوتے ہوئے انگریزی ( ایلوپیتھک ) ادویات کیوں استعمال کرواتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی ہومیوپیتھک ڈاکٹر انگریزی ادویات استعمال نہیں کرواتا ، دور دراز علاقوں میں جہاں لوگ غربت یا سفید پوشی کی وجہ سے مہنگی ادویات خرید نہیں سکتے مثلاً ہومیوپیتھک کھانسی کا سیرپ75/50 روپے کا ہے جبکہ انگریزی طریقہ علاج میں عام طور پر کھانسی کا سیرپ15/20 روپے میں مل جاتا ہے یہی حال عام پریکٹس کی ادویات کی قیمتوں میں، جب پہلے پہلے ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو ہومیوپیتھک فارمیسیوں نے خوب سراہا اور یہ حُب علی نہیں بلکہ بغض یزید تھا اگر اسی وقت ہومیوپیتھک برادری اور حکما یک جان ہوکر الٹرنیٹومیڈیسن کے خلاف حکومتی سازشوں کو بے نقاب کرتے تو آج ہومیوپیتھی اور حکمت بے موت نہ مرتی۔
ایک آخری بات عطائیت نہ ہومیوپیتھک ڈاکٹرز پھیلا رہے ہیں اور نہ ہی حکماء حضرات، رہا مسلۂ ڈسپنسروں اور نرسوں کا وہ بے چارے اپنے اپنے مورچوں میں رہتے ہوئے ہومیوپیتھس کی طرح وطن عزیز سے بیماریوں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں ۔
پاکستان میں عطائیت کی بڑی بڑی فیکٹریز ہیں جن کو عرف عام میں پرائیویٹ ہسپتال کہا جاتا ہے جہاں آج تک کسی مائی کے لعل کو چلان دور کی بات چیکنگ کی بھی فرصت نہیں حالانکہ ایک ایک سرجن ایک ایک سپیشلسٹ درجن درجن ہسپتالوں میں مسیحا اور نگران ہیں پورے پنجاب کے پرائیویٹ ہسپتالوں کا ڈیٹا اگر اکھٹا کیا جائے تو پورے پنجاب کے 10% ہسپتال بھی معیار پر پورے نہیں اتر سکتے اس تلخ حقیقت کے باوجود بھی پرائیویٹ ہسپتال میں جو عمل کام کرتا ہے آج بڑے بڑے ڈاکٹرز کے زیر سائیہ اور کل محکمہ صحت کی نگرانی میں عطائیت ہی پھیلائے گا اور کاغزی کاروائی کے لئے ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور حکماء کو ہی قربانی کا بکرا بنایا جائے گا۔
ہر آدمی جانتا ہے کہ محکمہ صحت میں درجہ چہارم کا ملازم بھی اپنی اپنی جگہ سرجن کے فراہض سرانجام دے رہا ہے مگر یہ عطائیت نظر نہیں آتی کیونکہ ملازم ملازم کا خیال کرتا ہے۔ اور بجلی جب بھی گرتی ہے تو بے چارے حکماء اور ہومیوپیتھک ڈاکٹرز پر۔۔۔
ہومیوپیتھی اور حکماء برادری نے اعلیٰ احکام اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف سے گزارش ہے کہ ہومیوپیتھی اور حکمت کو بے موت مرنے سے بچایا جائے یہ آپ کا پاکستانی قوم پر احسانِ عظیم ہوگا۔

پنھنجي راءِ لکو