ترک صدر کا امریکی جرنیل پر ’باغیوں کی پشت پناہی‘ کا الزام

انقرہ: ترک صدر رجب طیب اردگان نے اعلیٰ امریکی فوجی جرنیل پر بغاوت کی ناکام کوشش کرنے والوں کی معاونت کا الزام لگا دیا۔

قبل ازیں ان کا کہنا تھا کہ ملک میں موجودہ افرا تفری کے باعث امریکا سے فوجی تعاون میں کمی آسکتی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق رجب طیب اردگان نے انقرہ کے باہر گُلباسی میں واقع ملٹری سینٹر میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ بغاوت کی منصوبہ بندی کی کوشش کرنے والوں کو شکست دینے کے بجائے ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔15 جولائی کی رات اس ملٹری سینٹر پر باغی فوجیوں کے فضائی حملے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔

امریکی میڈیا کے مطابق امریکی سینٹرل کمانڈ چیف جنرل جوزف ووٹیل نے کہا تھا کہ بغاوت کی کوشش اور اس کے بعد نتیجتاً درجنوں فوجی افسران کی گرفتاری کے بعد ترکی سے فوجی تعاون متاثر ہو سکتا ہے۔

انہوں نے خاص طور پر یہ بھی کہا تھا کہ امریکا نے ترک فوجی مذاکرات کاروں کو کھو دیا ہے اور وہ اب بغاوت کی کوشش کے الزام میں جیلوں میں قید ہیں۔

ترک صدر نے اپنے خطاب میں جوزف ووٹیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اپنی اوقات یاد رکھیں۔‘ انہوں نے امریکا میں مقیم مبلغ فتح اللہ گلن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’بغاوت کے منصوبہ ساز تو پہلے سے ہی آپ کے ملک میں ہیں جہاں آپ ان کی پرورش کر رہے ہیں۔‘

یاد رہے کہ ترکی کی حکومت کی جانب سے فتح اللہ گلن کو بغاوت کی کوشش کا مرکزی منصوبہ ساز قرار دیا گیا تھا۔

ترکی، شام میں شدت پسند تنظیم داعش کو شکست دینے کے لیے امریکا کی قیادت میں اتحاد کا اہم رکن ہے اور اس کی اِنکرلِک ایئربیس داعش کے خلاف حملوں کے لیے اہم حیثیت رکھتی ہے۔

ترکی میں 15 جولائی کی شب فوج کے ایک گروپ کی جانب سے حکومت کو گرانے کی ناکام کوشش میں 250 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، جبکہ باغی فوجیوں نے باسفورس پل اور استنبول اہئرپورٹ پر قبضے کی کوششوں سمیت ترک پارلیمنٹ کی جانب بھی ٹینک بھیج دیے تھے۔

فوجیوں کی جانب سے بغاوت کی کوشش پر ترک صدر رجب طیب اردگان نے عوام سے باہر نکلنے کی درخواست کی تھی، جس کے بعد لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے فوجی بغاوت کی کوشش کو ناکام بنادیا۔

بعد ازاں فوجیوں، ججز اور دیگر اداروں میں فتح اللہ گلن کے حامیوں اور ہمدردوں کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن کیا گیا اور ہزاروں افراد کی گرفتاری سامنے آئی۔

پنھنجي راءِ لکو