مراد علی شاہ نے وزیر اعلیٰ سندھ کے عہدے کا حلف اٹھالیا

کراچی(ویب ڈیسک)پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما مراد علی شاہ نے بھاری اکثریت سے صوبہ سندھ کا نیا وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد عہدے کا حلف اٹھالیا۔

حلف برداری کی تقریب گورنر ہاؤس کراچی میں ہوئی، جہاں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے مراد علی شاہ سے عہدے کا حلف لیا۔

قبل ازیں نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے سندھ اسمبلی کا اجلاس اسپیکر آغا سراج درانی کی زیر صدارت ہوا۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے مراد علی شاہ جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی طرف سے خرم شیر زمان قائد ایوان کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔

سندھ اسمبلی میں ارکان کی کُل تعداد 168 تھی اور وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے لیے کسی بھی امیدوار کو کم از کم 86 ووٹ درکار تھے۔

وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے دوران کل 91 ووٹ کاسٹ کیے گئے، جن میں سے مراد علی شاہ نے 88 اور خرم شیر زمان نے 3 ووٹ حاصل کیے۔ اسپیکر اسمبلی کی جانب سے مراد علی شاہ کے بطور وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے اعلان کے بعد پیپلز پارٹی کے اراکین کی جانب سے اسمبلی میں ’جئے بھٹو‘ کے نعرے بھی لگائے گئے۔

وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کے دوران ایوان کے دروازے بند کردیئے گئے تھے۔

ایوان کی دوسری بڑی اور مرکزی اپوزیشن جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا تھا، جس کے باعث نام پکارے جانے کے باوجود اس کے ارکان ووٹ دینے کے لیے اپنے نشستوں سے کھڑے نہیں ہوئے۔ایم کیو ایم کے ایک رکن روف صدیقی کو اجلاس میں شرکت کے لیے جیل سے لایا گیا۔

مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ فنکشنل نے بھی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، جبکہ ٹھٹھہ کے شیرازی اور جتوئی برادران اور پیپلز پارٹی کے باغی رہنما و سابق صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کے بیٹے حسنین مرزا نے مراد علی شاہ کو ووٹ دینے کا اعلان کیا تھا۔

سندھ کے نومنتخب وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان پر اعتماد کرنے والوں کے شکر گزار ہیں اور ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات ان کے لیے مشعل راہ ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ایم کیو ایم کے اراکین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، لیکن خاموشی میں بھی ہاں ہوتی ہے، جبکہ تحریک انصاف شاید ہارنے کے لیے الیکشن میں حصہ لینے کی عادی ہوچکی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ان جماعتوں کے شکر گزار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’میں بطور وزیر اعلیٰ قیادت، جماعت اور عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کروں گا، اور کوشش ہوگی کہ پورے ایوان کو ساتھ لے کر چلوں۔‘

مراد علی شاہ نے کہا کہ میرے لیے صرف عوام کی خدمت ترجیح ہوگی، یہ ہر حکومت کا پہلا فرض ہوتا ہے اور میری بھی کوشش ہوگی کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال، تعلیم و صحت کے شعبے میں بہتری لائی جائے۔

ان کا کہنا تھا ’میں بطور وزیر اعلیٰ اپنا پروٹوکول کم سے کم رکھوں گا اور میری بیوروکریسی کو بھی ہدایت ہے کہ وہ وقت پر دفتر پہنچنے کی تاکید کریں ورنہ پیر سے ان کی شکایتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘انتخاب کا عمل مکمل ہونے کے بعد اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما و اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کا کہنا تھا کہ ہم صرف کراچی سے نہیں بلکہ کنٹونمنٹ، حیدرآباد اور میرپور خاص سے بھی منتخب ہوئے ہیں، جبکہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب سے لاتعلقی کا اظہار ہمارا جمہوری حق ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کرپٹ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑتی آرہی ہے، لیکن کچھ لوگوں نے ہماری خاموشی کو مک مکا قرار دیا، اگر ایسا ہوتا تو آج وسیم اختر جیل میں نہ ہوتے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مک مکا نہیں ورکنگ ریلیشن شپ ہے، تاہم ایم کیو ایم نے انتخاب سے لاتعلقی کا اظہار کرکے احساس محرومی کی نشاندھی کی ہے، جبکہ نئے وزیر اعلیٰ کو 52 فیصدہ حاصل شدہ ووٹوں کے ساتھ ان 48 فیصد ووٹوں کا بھی سوچنا ہوگا جو انہیں اسی احساس محرومی کی وجہ سے نہیں ملے۔

واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ کا عہدہ 8 سال تک فائز رہنے والے سید قائم علی شاہ کے استعفیٰ کے بعد خالی ہوا تھا، جس کے بعد پیپلز پارٹی کی جانب سے مراد علی شاہ کو نیا صوبائی وزیر اعلیٰ نامزد کیا گیا تھا۔

قائم علی شاہ کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کا فیصلہ چند روز قبل پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے دبئی میں ہونے والے اجلاس کے دوران کیا گیا تھا۔

قیادت کے فیصلے کے بعد قائم علی شاہ نے 2 روز قبل گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان سے ملاقات میں اپنا استعفیٰ پیش کیا، جسے انہوں نے منظور کرلیا تھا۔

گزشتہ روز مراد علی شاہ اور خرم شیر زمان نے وزیر اعلیٰ سندھ کے انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے۔

پنھنجي راءِ لکو