پاکستان میں بم کا سراغ لگانے والے جعلی آلات کا استعمال عروج پر

اسلام آباد(ویب ڈیسک)پاکستان میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کے باوجود ملک بھر میں بموں کا سراغ لگانے والے جعلی آلات کا استعمال اپنے عروج پر ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سن 2000ء میں تنازعات کا شکار ممالک میں دھماکا خیز مواد کا سراغ لگانے کے لیے استعمال ہونے والے یہ آلات بڑی تعداد میں منگوائے گئے اور انہیں استعمال کیا گیا تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ یہ آلات جعلی ہیں۔

ماہرین کی جانب سے غیر موثر قرار دیئے جانے اور بڑے پیمانے پر سیکیورٹی کے خطرات موجود ہونے کے باوجود پاکستان میں اس طرز کے 15 ہزار نئے آلات نہ صرف تیار کیے گئے بلکہ انہیں ایئرپورٹس اور دیگر حساس تنصیبات کی سیکیورٹی کے لیے استعمال بھی کیا جارہا ہے۔

دھماکا خیز مواد کا سراغ لگانے کے لیے استعمال کیے جانے والے اے ڈی ای 651 اور اسی طرح کے دیگر آلات پہلی بار بنانے والے کئی افراد دھوکہ دہی کی وجہ سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور ان میں برطانوی تاجر جیمز میک کورمک بھی شامل ہیں۔

جیمر میک کورمک کا تیار کردہ اے ڈی ای 651 عراقی فورسز کی جانب سے بہت زیادہ استعمال کیا گیا اور ان آلات کی خریداری پر 8 کروڑ 50 لاکھ ڈالر خرچ کیے گئے تاہم گزشتہ ماہ اس ڈیوائس کو غیر موثر قرار دے کر اس پر پابندی عائد کردی گئی۔

پاکستانی وزارت داخلہ کے ایک سینئر عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس ڈیوائس کا استعمال محض دل کو تسلی دینے والی بات ہے کہ سیکیورٹی اہلکار کے ہاتھ میں کچھ تو موجود ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ طالبان اور القاعدہ جنہوں نے 2004 سے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کررکھا ہے اور 60 ہزار سے زائد جانیں لے چکے ہیں، کیا انہیں یہ بات معلوم نہیں ہوگی کہ سیکیورٹی فورسز کے پاس موجود آلات غیر موثر ہیں تو انہوں نے کہا کہ بالکل یہ ممکن ہے کہ وہ اس بات سے آگاہ ہوں۔ حکومت کے دو مزید سینئر عہدے داروں نے بھی اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مذکورہ بیان کی تائید کی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ حکام کی خاموشی کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ اس کاروبار میں کافی پیسہ شامل ہے اور کئی بیوروکریٹس کو خدشہ ہے کہ اگر انہوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تو ان کی نوکری جاسکتی ہے۔

وزارت داخلہ کے ایک سابق عہدے دار نے بتایا کہ طاقتور اور بااثر افراد دھوکہ دہی کے ذریعے پیسہ بناتے ہیں اور آپ انہیں ناراض نہیں کرسکتے چاہے ان کی وجہ سے لوگوں کی زندگیوں کو خطرات ہی کیوں نہ لاحق ہوں۔

حکومتی ذرائع کے مطابق پاکستان نے ابتدائی طور پر اے ڈی ای 651 اور جرمن ساختہ اسنیفکس کی طرح کے دھماکا خیز مواد کا سراغ لگانے والے آلات درآمد کیے تاہم 2009 میں پاکستان کی ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس (اے ایس ایف) نے اس کی تیاری اور فروخت کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

سرکاری عہدے دار کے مطابق پاکستان بھر میں 70 ہزار روپے فی یونٹ کے حساب سے 15 ہزار یونٹس فروخت کیے جاچکے ہیں اور ان کی مجموعی قیمت ایک کروڑ ڈالر بنتی ہے۔

پاکستان میں ‘کھوجی’ نامی بم ڈیٹیکٹر ایئرپورٹس اور سرکاری تنصیبات کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے استعمال کیے جارہے ہیں جبکہ انہیں نجی شعبے کو بھی بڑے پیمانے پر فروخت کیا گیا ہے اور ان کا استعمال شاپنگ مالز، ہوٹلوں اور فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس میں بھی کیا جارہا ہے۔

لندن میں مقیم ایک سیکیورٹی ماہر جے چاکو کہتے ہیں کہ اس ڈیوائس کا استعمال انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

‘کھوجی’ کے ساتھ ملنے والے کتابچے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس آلے کی درستی کی شرح 90 فیصد تک ہے اور یہ ریڈیس تھیسیا یا ڈاؤزنگ کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے دھماکا خیز مواد کا سراغ لگاتا ہے تاہم ماہرین اسے غیر میعاری سائنس قرار دیتے ہیں۔

کتابچے میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ‘کھوجی’ اپنی طرز کی واحد ڈیوائس ہے جو 100 میٹر کی دوری سے دیوار اور آہنی چادروں کے پیچھے چھپے دھماکا خیز مواد کا سراغ لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ‘کھوجی’ زمین کی برقی لہروں اور دھماکا خیز مواد کے درمیان ہونے والی مداخلت، دھماکا خیز ڈیوائس اور انسانی جسم میں موجود بارودی مواد کا سراغ لگاسکتا ہے اور یہ کنکریٹ، مٹی اور دھاتی چادروں کے پیچھے چھپے معمولی مقدار کے دھماکا خیز مواد کا بھی پتہ لگانے کا اہل ہے۔

تاہم یونیورسٹی کالج آف لندن میں کیمسٹری کے پروفیسر آندرے سیلا ان دعووں کو مضحکہ خیز قرار دے کر مسترد کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان ڈیوائسز کے کام کرنے کے طریقوں کی کوئی طبیعاتی بنیاد نہیں ہے، یہ سانپ کے تیل کی طرح ہیں، جس کے کوئی طبی فوائد ثابت نہیں ہوسکے، پھر بھی وہ ناامید اور مایوس افراد کو فروخت کردیا جاتا ہے اور لوگ اسے ‘کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے’ کے فلسفے کے تحت استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی برقی سگنل موجود نہیں ہوتا جسے آپ پکڑ سکیں، یہ خیال کہ آپ ایسا کسی دھات یا خاص طور پر گاڑی میں موجود اسٹیل کی مدد سے کرسکتے ہیں انتہائی مضحکہ خیز ہے۔

امریکا کی میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے تربیت یافتہ پاکستانی طبیعات دان پرویز ہودبھائی نے بھی آندرے سیلا کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ دھوکا دہی پر مبنی ہے، دھماکا خیز مواد کا برقی مقناطیسی لہروں کے ذریعے سراغ لگانے کا کوئی طریقہ موجود نہیں’۔

دنیا کے ماہر سائنسدان ایسے بم ڈیٹیکٹرز بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جن میں سینسرز لگے ہوں گے اور وہ ‘ٹرائی ایسیٹون اور ٹرائی پر آکسائیڈ’ جیسے مواد کا سراغ لگاسکیں گے تاہم اس حوالے سے کام ابتدائی مراحل میں ہے۔

افغانستان میں موجود ایک مغربی سیکیورٹی کنسلٹنٹ کا کہنا ہے کہ اس وقت اگر دھماکا خیز مواد کا سراغ لگانے کا کوئی قابل اعتماد آلہ موجود ہے تو وہ ‘کتا’ ہے۔

پنھنجي راءِ لکو