جہلم جیت گیا – تحریر: نوید احمد

چند روز بعد جہلم کے حلقہ این اے63کے منعقدہونے والے الیکشن کا نتیجہ چاہے کچھ بھی ہو Pic by Naveed Ahmed
لیکن دل لگتی بات یہ ہےکہ اخلاقی طور پر جہلم جیت گیا ہے،یہ وہی حلقہ ہے جہاں سے مسلم لیگ ن 1985سے بلا شرکت غیرے کامیابی حاصل کرتی آرہی ہے،اس حلقہ کے رائے دہندگان نے ہمیشہ مسلم لیگ ن سے محبت کی ہے بلکہ پرویز مشرف کے دور اقتدار میں جب ن لیگ ابتلاء کا شکار تھی اس وقت بھی مسلم لیگ ن کو یہاں سے مینڈیٹ ملا، چنانچہ مئی2016میں نوابزادہ اقبال مہدی کی وفات تک کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مسلم لیگ ن کے اانتہائی مضبوط قلعے میں کوئی شگاف ڈال سکتا ہے مگر اس میں کچھ اندرونی محرکات بھی شامل ہیں،مسلم لیگ ن کے مضبوط حلقے کے ان با وفا لوگوں کو صلہ یہ ملا ہے کہ آج بھی پنڈ دادن خان کی آخری6یونین کونسلوں میں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں،کئی مقامات پر انسان اور جانورایک جگہ سے پانی پینے پر مجبور ہیں،جبکہ جہلم شہر میں سڑکوں پر پانی راج کرتا ہے،جب ضمنی الیکشن کا مرحلہ شروع ہوا تو پی ٹی آئی نے ایک مضبوط سیاسی خاندان لدھڑ فیملی کے چشم و چراغ معروف تجزیہ نگار چوہدرہ فواد حسین کو ٹکٹ دے کر تمام حلقوں کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا،ابتداء ہی سے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن داخلی طور پر کئی گروپوں میں تقسیم تھی،لیکن چوہدری فواد حسین نے سائنسی بنادوں پر انتخابی مہم چلاتے ہوئے اس حلقے کے بنیادی مسائل اور عوام کے حقوق سے آگہی کی باقاعدہ مہم شروع کی،قریہ قریہ خود پہنچے،نیا جہلم کا نعرہ لگایا،جہلم کے ذرائع آمدن و خرچ کا تخمینہ عوام کے سامنے رکھا،جہلم سے ٹیکس کی مد میں حاصل ہونے والی سالانہ125ارب کی رقم سے جہلم کا جائز حصہ دس فی صد یعنی 25ارب روپے کا حکومت سے مطالبہ کیا،نیا جہلم کا پر کشش نعرہ اور عوامی آگہی مہم نے جہلم کے لوگوں کو متاثر کیا ہے،ان میں اپنے بنیادی حقوق سے شناسائی اور حصول کے لیے جدوجہد کا جذبہ پیدا ہوا ہے،اسی مہم کی بدولت پہلی دفعہ میاں برادران کے کان کھڑے ہوئے ہیں کہ اس مضبوط حلقے سے وہ ہار سکتے ہیں اس لیے انہوں نے پیش بندی کرتے ہوئے ن لیگی امیدوارنوابزادہ مطلوب مہدی کو شرف ملاقات بخشا،الیکٹرانک میڈیا کے مطابق واپڈا کو خصوصی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ الیکشن کے دن تک اس حلقے کو لوڈشیڈنگ فری کیا جائے،26 اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی فوج ظفر موج گزشتہ ایک مہینے سے اس حلقے میں تعینات کر رکھی ہے ،ضلعی انتظامیہ کو متحرک کر رکھا ہے اور اس کے باوجود مرکزی و صوبائی حکومت مطمئن نظر نہیں آتی،اس منظر نامے کو دیکھتے ہوئے کوئی کہہ سکتا ہے کہ مذکورہ انتخابی مہم کے سیاسی مضمرات کچھ بھی ہوں مگرواقعہ یہ ہے کہ جہلم کے باسی جاگ چکے ہیں،ان کو جہلم کی پسماندگی کی بنیادی وجہ معلوم ہو چکی ہے،پہلی دفعہ انہیں احساس ہوا ہے کہ عوامی نمائندہ ان کے سامنے جوابدہ ہے،یہ سوچ کسی شہر کی ترقی کے پیچھے کارفرما ہوتی ہے ،اس سوچ کو سوچنے کا جہلم کے شہریوں نے اب سوچ لیا ہے،یہ سوچ دراصل اس انتخابی مہم کا مثبت پہلو ہے اور بلاشبہ اس سوچ کی وجہ سے جہلم جیت گیا ہے،
اس حلقے کے گزشتہ الیکشن 2013ء میں نوابزادہ اقبال مہدی بہت بڑے مارجن سے پی ٹی آئی کے امیدوار محمود مرزا جہلمی اور ق لیگ کے امیدوار چوہدری فواد حسین کو شکست دیکر پانچویں دفعہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے،بعد ازاں وہ اسی غیر عوامی”طرز کہن “پر اڑے رہے،جو ہمیشہ ان کا خاصہ رہا ،اگرچہ زندگی کا آخری سال انہوں نے علالت میں گزارا،تاہم اس دفعہ محسوس ہوتا ہے کہ پلوں کے نیچے سے کافی پانی گزر چکا ہے،ق لیگ کے امیدوار پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر سامنے آئے ہیں،گزشتہ الیکشن میں کم و بیش 34000ووٹ انہوں نے حاصل کیے تھے وہ لدھڑ خاندان کا ذاتی ووٹ بنک تھا،کیونکہ ق لیگ کا نظریاتی ووٹ بنک کسی حلقہ انتخاب میں موجود نہیں،اس میں اگر پی ٹی آئی کا مقبول ووٹ بنک شامل کیا جائے تو مخالف امیدواروں کے لیے یہ خطرے کی علامت ہے،دریں اثناء پی ٹی آئی کے مختلف گروپوں کو پی ٹی آئی کے امیدوار کافی حد تک متحد کرنے میں بھی کامیاب ہو چکے ہیں،تاہم چوہدری فواد حسین کو اس الیکشن میں سب سے بڑا سیٹ بیک اس وقت ہوا جب ان کے صوبائی اسمبلی کے امیدواروں چوہدری عابد جوتانہ اور عارف چوہدری نے بزعم خود ق لیگ کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے ن لیگ کی حمایت کا اعلان کر دیا،جس کو وہ ن لیگی ایم پی اے چوہدری نذر گوندل اور عابد جوتانہ کے قریبی ساتھیوں کی حمایت حاصل کر کے پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،پی ٹی آئی کے امیدوار کو اس وقت حکومتی امیدوار اور سرکاری مشینری کے بے دریغ استعمال کا چیلنج درپیش ہے،جس قدربہتر طریقے سے وہ اس چیلنج سے نبرد آزما ہوں گے اس قدر ان کی کامیابی کا امکانات موجود ہیں،
ن لیگ کے امیدوار نوابزادہ مطلوب مہدی اپنے والد کی خاندانی وراثت،مسلم لیگ کے روایتی ووٹ بنک، اور برادری کے نعرے اور حکومتی امیدواری پر تکیہ کیے ہوئے ہیں،مسلم لیگ ن بھی پی ٹی آئی کی طرح پہلے دن سے اندرونی خلفشار کا شکار تھی،جس میں گھرمالہ گروپ اور مہر فیاض گروپ دو واضح دھڑوں میں تقسیم تھے،بزرگ رہنما راجہ محمد افضل خان ن لیگ سے پی پی پی پھر پی ٹی آئی اور اب دوبارہ ن لیگ میں آچکے ہیں،ان کی ن لیگ میں شمولیت کے پیچھے مہر فیاض گروپ کی زبردست کوشش شامل ہے جو گھرمالہ گروپ کو سائیڈ لائن کرنا چاہتے ہیں،بلکہ راجہ افضل نے آتے ہی گھر مالہ گروپ کے خلاف طبل جنگ بجا دیا ہے،گھرمالہ گروپ جس کو ضلعی تنظیم کی بھی حمایت حاصل ہے فی الحال الیکشن کی وجہ سے خاموش نظر آتا ہے،دوسری طرف جہلم میں موجود 26 رکنی ن لیگی کمیٹی بھی اس محاذآرائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آتی ہے،اگرچہ آج بھی اس حلقے میں ن لیگ کا ووٹ بنک موجود ہے لیکن پی ٹی آئی کے امیدوار کی بھرپور انتخابی مہم،پنڈدادن خان کے باسیوں کی پسماندگی،شہر کی دگرگوں صورتحال ، 31سالہ دور حکومت کی تھکن اور پارٹی میں بڑھتی ہوئی خلیج کی وجہ سے 31اگست کو اس حلقے میں منعقد ہونے والے الیکشن میں ن لیگی امیدوار کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے،
پی ٹی آئی کے سابق امیدوار محمود مرزا جہلمی ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں اور ان کا صاحبزادہ جہانگیر مرزا اس انتخابی معرکے میں حصہ لے رہا ہے،پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے منڈی بہاؤالدین،سرگودھا اور گجرات کے رہنما اس مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر واقفان حال کے نزدیک پیپلز پارٹی اس حلقے میں اپنا روایتی ووٹ بنک پانچ سے چھ ہزار تک حاصل کرسکتی ہے،
بہرحال 314پولنگ سٹیشن پر مشتمل اس ضمنی الیکشن کا سیاسی فیصلہ 427757 رائے دہندگان 31اگست2016کو کریں گے،

پنھنجي راءِ لکو