چیمپئنز کا چیمپئن کون

چیمپئنز کا چیمپئن کون؟انگلینڈ میں دنگل جمعرات سے سجے گا، توقعات کے بوجھ سے آزاد پاکستانی ٹیم عمدہ کھیل کی خواہاں ہے۔
ماضی میں تنقید کا نشانہ بننے والے سرفراز احمد ان دنوں نہ صرف اپنی انتھک کوششوں اور کاوشوں کی بدولت گرین شرٹس کی قیادت کر رہے ہیں بلکہ مصباح الحق، یونس خان سمیت ملک کے ممتاز کرکٹرز ان میں پاکستان کے کامیاب کپتان کی جھلک بھی دیکھتے ہیں۔
22 مئی1987ء میں شہرقائد کراچی میں پیدا ہونے والے سرفراز احمدکا موجودہ ہدف اب انگلینڈ میں یکم جون سے شیڈول آئی سی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں کامیابی کا حصول ہے۔ میگا ایونٹ کے دوران انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی عالمی رینکنگ میں براجمان ابتدائی 8پوزیشنز کی ٹیمیں پاکستان، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، بھارت ، سری لنکا، بنگلہ دیش، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ شامل ہیں، پاکستان ٹورنامنٹ میں شریک ٹیموں میں سب سے آخری یعنی آٹھویں نمبر پر ہے جبکہ آسٹریلیا اس فہرست میں سب سے آگے ہے.

ویسٹ انڈیز 2004 میں ٹائٹل اپنے نام کرنے کے باوجود اس بار چیمپئنز ٹرافی میں شرکت سے محروم رہی گی۔ حیران کن پہلو یہ ہے کہ میگا ایونٹ میں شریک ٹیموں میں سے 6 ٹیمیں ایسی ہیں جن کے کپتان پہلی مرتبہ چیمپئنز ٹرافی میں اپنی ٹیم کیلیے یہ فرائض انجام دیں گے، ان میں سرفراز احمد، ویرات کوہلی، ایون مورگن، اسٹیون اسمتھ، مشرفی مرتضیٰ اور کین ولیمسن شامل ہیں، جنوبی افریقہ کے ابراہم ڈی ویلیئرز اور سری لنکا کے اینجیلو میتھیوز اس سے قبل بھی چیمپئنز ٹرافی میں کپتانی کر چکے ہیں۔
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے میچز میں پاکستانی ٹیم کے ریکارڈز کا جائزہ لیا جائے تو نتائج خاصے مایوس اور حوصلہ شکن دیکھنے کو ملیں گے، یہ بین الاقوامی کرکٹ کے واحد مقابلے ہیں جن میں پاکستان کی ٹیم فائنل تک پہنچنے میں بھی کبھی کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔آئی سی سی ناک آؤٹ ٹورنامنٹ کے نام سے 1998 میں شروع ہونے والے مقابلوں کے اب تک 7 ٹورنامنٹ ہو چکے ہیں جن میں 3 مرتبہ پاکستان کی ٹیم سیمی فائنل تک پہنچنے میں کامیاب رہی ہے۔
اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کی ٹیم نے اب تک کل 21 میچز کھیلے ہیں جن میں سے یہ صرف 11 میں کامیاب ہو سکی ، 9مرتبہ شکست کا سامنا کرنا پڑاجبکہ ایک برابری کی سطح پر ختم ہوا، روایتی حریف بھارت نہ صرف دفاعی چیمپئن ہے بلکہ اس کا ریکارڈ بھی اس ٹورنامنٹ میں شریک تمام ٹیموں سے بہتر ہے اور اس ٹورنامنٹ کی حد تک وہ آسٹریلیا کی ٹیم سے بھی کہیں آگے ہے۔
بھارت کی ٹیم 2 مرتبہ چیمپیئنز ٹرافی جیتنے میں کامیاب رہی ہے، بلو شرٹس نے اب تک اس ٹورنامنٹ میں کل 23 میچز کھیلے ہیں جن میں15میچوں میں وہ کامیاب اور 6 میں ناکام رہے، 2 میچ بغیرنتیجہ کے ختم ہوئے، یوں بھارت کی جیت کی شرح 71 فیصد سے بھی ذرا زیادہ ہے تاہم روایتی حریفوں کے درمیان میچز کا موازنہ کیا جائے تو چیمپئنز ٹرافی میں پاکستانی ٹیم کا بھارت کے خلاف 2 فتوحات کے ساتھ بہتر ریکارڈ ہے اور یہ واحد آئی سی سی ایونٹ ہے جہاں پاکستان روایتی حریف کو زیر کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
چیمپئنز ٹرافی کی تیاریوں کے سلسلے میں پہلے وارم اپ میچ میں فہیم اشرف کی شاندار کارکردگی کی بدولت پاکستانی ٹیم بنگلہ دیش کیخلاف شکست کی رسوائی سے بچنے میں تو کامیاب رہی لیکن قومی ٹیم نئے کپتان سرفراز احمد کی قائدانہ صلاحیتوں کا اصل امتحان 4جنوری کو روایتی حریف بھارت کے خلاف بھرپور دباؤ کے حامل میچ سے شروع ہو گا۔ون ڈے رینکنگ میں آٹھویں نمبر پر موجود پاکستان کیلیے یہ ایونٹ جہاں ورلڈ کپ 2019 تک براہ راست رسائی کیلیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے وہیں ساتھ ساتھ یہ کئی کھلاڑیوں کے مستقبل کا فیصلہ بھی کرے گا۔
ورلڈ کپ2015 کے اختتام کے بعد مستقل مشکلات سے دوچار پاکستانی ٹیم کو بیٹنگ میں غیر مستقل مزاج سوچ بدلنے کا چیلنج درپیش ہے جس کے سبب گرین شرٹس نے کئی ون ڈے اور ٹی20 مقابلے حریف ٹیموں کی جھولی میں ڈالے۔ورلڈ کپ کے بعد قیادت کی باگ ڈور اظہر علی کے کمزور کاندھوں پر ڈالی گئی اور قومی ٹیم کو تاریخ میں پہلی بار بنگلہ دیش کے ہاتھوں ون ڈے سیریز میں 3-0 سے کلین سوئپ کا منہ دیکھنا پڑا جبکہ آسٹریلیا اور انگلینڈ کے ہاتھوں سیریز میں 4-1 سے شکستوں کے بعد ارباب اختیارکی ہمت جواب دے گئی اور انھوں نے اظہرعلی سے قیادت لیتے ہوئے یہ ذمہ داری سرفرازاحمد کوسونپ دی۔
مصباح اور اظہر علی کی نسبت قدرے جارحانہ انداز میں قیادت کیلیے مشہور سرفراز نے ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز میں بہترانداز میں قیادت کی اور قومی ٹیم کی سوچ میں واضح تبدیلی کے ساتھ جیت کی لگن اور ایک توانائی بھی نظر آئی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ چیمپئنز ٹرافی کے دوران بھی شاہینوں کو حریف ٹیموں کے خلاف اسی انداز میں لڑا سکیں گے؟
گزشتہ سال شرجیل خان کی شکل میں پاکستان کو ایک جارح مزاج اوپنر ملا تھا جس نے بیرون ملک بھی تیزی سے اسکور بناتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا لیکن پاکستان سپر لیگ کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے سبب ان کے خلاف کاروائی جاری ہے، اسی اسکینڈل کی زد میں آنے والے بیٹسمین خالد لطیف اور طویل قامت پیسر محمد عرفان کو بھی میگا ایونٹ میں حتمی اسکواڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا، نچلے نمبروں پر بیٹنگ کیلیے عمر اکمل کو ٹیم میں شامل کیا گیا لیکن خراب ڈسپلن کیلیے شہرت رکھنے والے بیٹسمین کو غیر معیاری فٹنس کے سبب ڈراپ کرتے ہوئے حارث سہیل کو ٹیم میں شامل کیا گیا۔
بیٹنگ کی نسبت پاکستان کی بولنگ قدرے بہتر نظر آتی ہے جس میں شاداب خان کی شکل میں نوجوان اسپنر اور گیند کو سوئنگ کرنے پر مہارت رکھنے والے محمد عامر اور حسن علی جیسے بولرز اور فہیم اشرف اور عماد وسیم جیسے کھلاڑی بھی موجود ہیں۔
سرفراز احمد بحیثیت کپتان ویسٹ انڈیز جیسی کمزور ٹیم کے خلاف پہلی انٹرنیشنل سیریز جیتنے میں تو کامیاب رہے لیکن طویل عرصے سے سلو بیٹنگ اور 90 کی دہائی کی حکمت عملی کے تحت کرکٹ کھیلنے کیلیے مشہور موجودہ پاکستانی ٹیم کے قائد کی اصل آزمائش یہ ٹورنامنٹ ہو گا جہاں اس کا سامنا دنیا کی ممتاز ٹیموں باالخصوص بھارت سے ہو گا۔
پاکستان اور بھارت کی ٹیموں کے کپتانوں کو کرکٹ کے تجربے کے ترازو میں تولاجائے تو بلوشرٹس کے قائد کا پلڑا بھاری دکھائی دے گا، سرفراز احمد چیمپئنز ٹرافی میں سے سب کم تجربہ رکھنے والے کپتان ہیں،ان کی کپتانی میں اب تک پاکستان نے 4 ایک روزہ میچز کھیل کر3 میں کامیابی حاصل کی جبکہ صرف ایک مقابلے میں ٹیم کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ 2013ء میں کپتانی سنبھالنے کے بعد سے ویرات کوہلی اب تک کل 20 میچز میں بھارتی ٹیم کی قیادت کر چکے ہیں جن میں سے صرف 4 میچوں میں انہیں شکست جبکہ 16 میچوں میں کامیابی ہوئی ہے۔
سابق کرکٹرز اور ماہرین کا ماننا ہے کہ چیمپئنز ٹرافی میں توقعات سے بڑھ کر کچھ کرنے کیلیے پاکستانی ٹیم کو خصوصاً اپنی بیٹنگ کا انداز بدلتے ہوئے جارحانہ کھیل پیش کرنا ہو گا اور سرفراز کا انداز قیادت بھی بہت اہمیت کا حامل ہو گا، میچوں کے دوران بیٹسمینوں کو نہ صرف زیادہ ڈاٹ گیندیں کھیلنے سے اجتناب کرنا ہوگا بلکہ بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کرتے ہوئے کپتان سرفراز احمد کو خود چوتھے یا پانچویں نمبر پر بیٹنگ کرنا ہوگی، جبکہ بڑے اسکور کیلیے شعیب ملک اور عماد وسیم کی جانب سے بھی جارحانہ بیٹنگ درکار ہو گی۔
حال ہی میں کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنے والے سابق کپتان اور ٹیسٹ کرکٹ میں 10 ہزار رنز بنانے کا اعزاز حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی بیٹسمین یونس خان کے بقول اس سال پاکستان کی ٹیم سیمی فائنل تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اس کے بعد اگر قسمت نے ساتھ دیا تو پاکستان یہ ٹورنامنٹ جیت بھی سکتا ہے، اسی طرح کے ملے جلے خیالات دوسرے سابق کرکٹرز کے بھی ہیں.
کپتان سرفراز احمد خود بھی میگا ایونٹ میں کامیابی کے لیے پُرعزم ہیں، ان کے مطابق ویسٹ انڈیز میں اچھی سیریز کھیل کر آئے ہیں جہاں کھلاڑیوں کی مجموعی طور پر کارکردگی بہت بہتر رہی ہے، پوری امید ہے کہ پاکستان ٹیم اس ٹورنامنٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہے گی۔سابق ٹیسٹ کرکٹرز کی ماہرانہ رائے میں کس حد تک سچائی ہے اورکپتان سرفراز احمد مصباح الحق کی طرح فتح و کامرانی کی نئی تاریخ رقم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، اس کے لیے شائقین کرکٹ کو 18جون تک کا انتظار کرنا پڑے گا۔

پنھنجي راءِ لکو