ندیم کشش تعلیم یافتہ ملٹی ٹیلنٹ شخصیت ہے اس کے عملی کام اور تعمیری سوچ سننے والوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے : تحریر۔راشدخان : ترتیب وعکاسی۔ ملک محبوب جیلانی

ندیم کشش تیسری جنس کا ٹھپہ لگے بنیادی حقوق سے محروم انسانوں کو اکیسوی صدی کے ایک تعلیم یافتہ معاشرے سے عزت نفس کے ساتھ جائز حقوق دلانے کی جہدوجہد میں مصروف ہے جس کے لیے انہوں نے SAAFARنام سے تنظیم بنا رکھی ہے

ہمارے معاشرے کا ایک مخصوص طبقہ جسے عضو بیکار سمجھتے ہوئے تیسری صنف کا ٹھپہ لگا کر ہم نے ماضی بعیدسے محرومیوں کی دلدل دھکیل رکھا ہے،ہمارے منفی رویوں کی بنا پر ان کا تمسخر اڑایا جانا ایک عام سی بات ہے اور جنہیں ہم نے علاقائی تقسیم کی بنیاد پر مختلف زبانوں میں مختلف نام دے رکھے ہیں جن میں ہنجڑا،مخنث،کھسرا،زنانہ سمیت خواجہ سراء عام ہیں،
ایک اہم اورخوش آئندبات یہ ہے کہ اسی فیملی سے تعلق رکھنے والا ایک باہمت اور بلند حوصلہ شخصیت ’ندیم کشش‘ ہے جسے ایک رول ماڈل کہا جائے تو غلط نا ہوگا،ندیم کشش نے انتہائی کھٹن حالات کا سامنے کرتے ہوئے خود کو ایک مفید اور باعزت شہری کے طور پر منوایاجس پر اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔

)ندیم کشش اس وقت ملک کے ایک معروف نشریاتی ادارے ایکسپریس نیوزمیں بطور میک اپ آرٹسٹ ایک باعزت پیشے سے منسلک ہیں اس کے ساتھ ساتھ کشش ایک ریڈیو اسٹیشن سے اسی تیسری صنف کے متعلق ہفتہ وار شو جسکا نام (مورت ایک قدرت) ہے کی میزبانی بھی کر رہے ہیں اورنجی ٹیلی ویژن کے لیے مختلف ڈراموں،ٹیلی فلموں میں بھی اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے ساتھ مختلف رفاعی اور سماجی بہتری کے لیے کام کرنے والی این جی اوز میں بطور رضاکار حصہ لیتے ہیں،یہ سب تو ندیم کی انفرادی پہچان کے لیے تھا،جبکہ کشش کا ایک انتہائی اہم اور بڑا قدم جو انہوں نے اپنی برادری کے لیے اٹھایا وہ Shemale Association For Fundamental Rights))SAFFAR کے نام سے ایک ایسوسی ایشن کا قیام ہے جس میں قلیل عرصے میں ملک کے طول وعرض سے سینکڑوں خواجہ سراء شامل ہوچکے ہیں ایسوسی ایشن کابنیادی مقصد غیر مناسب معاشرتی رویوں سے نجات حاصل کرکے تیسری صنف سے وابستہ لوگوں کو اپنی باعزت شناخت، محفوظ پناہ گاہ اورتعلیم کے ساتھ ساتھ باعزت روزگار کے حصول میں معاونت کرنا ہے
گزشتہ دنوں ندیم کشش سے ان کے میک اپ روم میں ایک نشست کا موقع ملا جس کا دلچسپ اور معلوماتی احوال سوال جواب کی بجائے ایک کہانی کی شکل میں قارئین کے پیش خدمت ہے
ندیم کشش نے اپنے بارے میں بات شروع کرتے ہوئے بتایا کہ میرا تعلق شہر ملتان سے ہے ہماری فیملی انڈیا سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئی،ہمارا گھرانہ مذہبی رجحان کا حامل تھا میں نے ہوش سنبھالا تو والد صاحب کو باریش دیکھا جو صوم وصلات کے پابند تھے ہم آٹھ بہن بھائی ہیں میرا بھائیوں میں دوسرا نمبرہے، میں آپ کو بتاتا چلو کہ میں قدرتی طور پر لڑکا پیدا ہو ا تھا خاندان میں لڈو بھی لڑکے کی پیدا ئش کے تقسیم ہوئے تھے مگرباوجوداس کے میرا لڑکیوں کے ساتھ کھیل کود میں رجحان زیادہ تھا امی اور بہنوں کے ساتھ ساتھ محلے کی لڑکیوں سے زیادہ نذیک تھا میری محسوسات قدرے منفرد تھیں پہلے پہل تو کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا بس بچہ سمجھ کر نظر انداز کر تے رہے میں بھائیوں کی طرح گھر سے باہر کھیلنے بھی نہیں جاتا تھامیری منفرد حرکات کو والد صاحب نے ماں کے بے جا لاڈ پیاد کا نام دیا،تاہم جوں جوں عمر بڑھی تو بھائیوں کے ساتھ سکول جانے پر چال ڈھال لڑکیوں جیسی ہونے پر محلے اور سکول میں عجیب نظروں سے دیکھا جانے لگا اس کا بھائیوں نے بھی نوٹس لیا، قابل افسوس بات ہے کہ مجھے اور مجھ جسے سینکڑوں انسانوں کو ہمارا مہذب اور اعلی تعلیم یافتہ معاشرہ خواجہ سرا ء بنا دیتا ہے گھر،گلی،محلے کے مکین اشارے،آوازیں اور کانہ پھوسی کر کر کے ہمیں ایسی باتیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم ان جیسے نہیں ہیں
خیر میری دوہری شخصیت کو دیکھتے ہوئے اب تو گھر بھر کو میری فکر لاحق ہو گئی،جوں توں کر کے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور ایف اے میں داخلہ بھی لے لیا تو گھروالوں کی طرف سے جاب کرنے کی باتیں ہوئی تو میں نے PTCکیا جس کے بعد ایک سکول میں ٹیچر کی نوکری مل گئی،اس زمانے میں استاد ایک باروعب شخصیت ہوا کرتا تھا اور مجھ میں اس کوالٹی کی کمی تھی یہ نوکری میرے مزاج کے بر خلاف تھی اس لیے جاب چل نا سکی، لیکن اس مختصر عرصہ کی نوکری نے میری زندگی نے ایک بڑا موڑ لیا،ہوا یوں کہ جب گھر سے باہر نکلا تو لوگوں کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا اسی میل ملاپ میں میری ملاقات علاقہ کی ایک (مورت) سے ہو گئی اور آہستہ آہستہ اس نے اور مورتوں سے ملوایا ہمارا پورا ایک گروپ بن گیا میں نے ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کیا ان کے وقت گزارنا چھا لگتا تھا پھر اس بات کاعلم جب گھر والوں کو ہوا تو انہوں نے خوب واویلا کیا اور بہت باتیں سنائیں،اور کہا کے تمھیں کھسرے اٹھا کر لے جائیں گے،یہ وہ پہلے الفاظ تھے جس نے مجھے کھسرے کے مطلق سوچنے پر مجبور کیا،،

جس ڈیرے پر جانے سے مجھے گھر والے ڈراتے تھے وہاں مجھے پیا ر ملا،وہاں کے ماحول کے مطابق ناچ گانا،بناوؑسنگھار کے مواقع،جب مجھے میری فطرت کے مطابق ماحول ملا تو میں نے ان ہی کے ساتھ اٹیچ ہونے کا فیصلہ کرلیا،پھر ایک مرتبہ موقع مل ہی گیا ان مورتوں کی دنیا دیکھنے کا،گھر والوں کو بتایا کہ سکول کی طرف سے ٹرپ ہے ہم سیر وتفریح کے لیے لاہو رجا رہے ہیں دراصل پروگرام انہی مورتوں کے ساتھ تھا جن کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا،یہ وہ وقت تھاجب میں نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر حقیقی معنوں میں تیسری دنیا میں جانے کا فیصلہ کیا،دل میں بہت سے ارمان تھے میں بہت خوش تھاکہ میں ایک بناوٹی دنیا (بناوٹی اس لیے کہ مجھے اپنی فطرت سے ہٹ کر چلنا پڑتا تھا) سے نکل کر اپنی پسند کی دنیا میں جا رہا ہوں،بس پھرکیا تھا لاہور جا کر میں بھی گرو سسٹم کا حصہ بن گیا،شکل و صورت لڑکیوں جیسی،ناچ گانا،ڈانس کی تربیت شروع ہو گئی، پیچھے والدین نے ڈھونڈنا شروع کر دیا گھر میں رونا دھونا مچ گیاکہ کہی میں اغواء تو نہیں ہوگیا بلا آخر والد صاحب نے مجھے لاہورکھسروں کے ڈیرے سے ڈھونڈ ہی لیا لیکن میر ے حالات دیکھ کر اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ مجھ سے بائیکاٹ کر دیا بلکہ یوں کہیں کہ عاق کر دیا،معاشرتی خوف اور دباؤ کے تحت انہوں نے ملتان شہر ہی چھوڑ دیا اور کراچی اپنے رشتہ داروں کے پاس چلے گئے وہاں انہیں اٹیک ہوا اورتین سال کی علالت کے بعد ا ن کا انتقال ہو گیا،
اپنی فطری جذبات اور شوق سے مجبور ہوکر میں نے فلم ڈانس ڈائریکٹر اشرف شیرازی سے ڈانس کی باقاعدہ تربیت حاصل کی، پھر لکی ایرانی سرکس میں بطور ڈانسر ایک عرصہ تک کام کیا،فیملی کے زرائع آمدن محدود تھے جبکہ میری آمدن اچھی ہو گئی تھی اس زمانے میں فنکاروں کی عزت تھی میں نے پس پردہ رہ کر گھروالوں کی بھر پور مالی معاونت کی بڑا بھائی ہونے کے ناتے سے بہنوں کی شادیوں میں شرکت نا کرتے ہوئے بھی انہیں اچھے طریقہ سے رخصت کیا،اس کام کے دوران کا م مجھے پیسہ اور پزئر ائی تو بہت ملی پر جو پہچان و شناخت ملی وہ نامناسب تھی اسی چیز نے مجھ میں بغاوت کی چنگاری بھڑکا دی،میں نے ایک فیصلہ کیااور خواجہ سراؤں کے حالات بدلنے کا بیڑہ اٹھایا اور ایک رول ماڈل کی حیثیت سے خود کو پیش کیا،جسکی وجہ سے خواجہ سراؤں کی نام نہاد تنظیموں اور گرو سسٹم کی مخالفت کا بھی شدت سے سامنا کرنا پڑا،ندیم کشش کے عملی کام اس کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں اس کی باتیں آدمی کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں ندیم نے بتایاکہ فنگشنز کے لیے خود کا میک آپ کیا کرتے تھے مداحوں کے سامنے خود کو ایک دلکش لڑکی کے روپ میں پیش کرنا ہوتا تھا اس کی بھر پورتیاری نے مجھے میک اپ کے ہنر سے آگاہی دی،پھراسی کو بطور پیشہ اپنا لیا،

عمر کے آخری چار سال والدہ نے میرے ساتھ یہی گزارے کیونکہ شادیوں کے بعد بھائی اپنی زندگیوں میں مگن ہو گئے تھے والدہ کے انتقال کے بعد میں پریشان تھا کی اب کیا کرونگا تو اللہ پاک نے میری مشکل آسان کر دی اور مجھے میک آرٹسٹ کی باعزت نوکری مل گئی
،کشش نے لفظ ’مورت‘ بارے سوا ل کے جواب میں کہا میں نے خود اپنے جیسوں کے لیے لفظ ’مورت‘کا انتخاب کیا ہے جو مرد اور عورت کے الفاظ کو ملاکر بنایاگیا ہے،کیونکہ ہم ان ہی مردوعورت سے پیدا ہوئے ہیں جن سے معاشرے قائم ہیں،ہم کوئی زمین سے تو اُگے نہیں ہیں اور نا ہی آسمان سے برسے ہیں،کشش نے انتہائی جزباتی انداز میں بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ خواجہ سراؤں کی بدنصیبی یہ ہے انہیں قدرت نے جو شناخت دی وہ ہمارے معا شرے کی سفاکی کی بھینٹ چڑھ گئی،معاشرے کے غیر مناسب رویئے تعلیم سے دوری نے انہیں ناچنے گانے،بھیک مانگنے ور جنسیت پھیلانے جیسے مکرو کاموں تک محدود کر دیاجو ان کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے انہیں ایڈزجیسی بیماری کے پھیلنے کا سبب گردانا جا رہا ہے اب جبکہ ملک میں تعلیم عام ہو رہی ہے تو خواجہ سراؤں میں بھی اپنی محرومیاں دور کرنے کے لیے تعلیم حاصل کرنے کا رجحان کسی قدر بڑھ رہاہے اب یہ اپنی پہچان بنانے کی دوڑ میں شامل ہیں اور قانون سے مدد لینے کے لیے کوشش کر رہے ہیں حکومتی تعاون سے اب کئی خواجہ سراں پڑھ لکھ کر باعزت نوکریاں بھی کر رہے ہیں.

ندیم کشش نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہاکہ خواجہ سراؤں پر ایک بے بنیاد الزام ہے کہ وہ اپنی فطرت سے مجبور ہوتے ہیں اور تعلیم حاصل کرنے کے باوجود منفی کاموں کا حصہ بنے رہتے ہیں میں اس بات کی مکمل نفی کرتا ہوں،گرو سسٹم کے بارے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کشش نے بتایا کہ
کیا آپ جانتے ہیں یہ (گرُو)کیا ہوتا ہے یہ وہ ہے جو ہندوں سے سیکھ کر آیا اور مرد پیدا ہونے والی مورتوں کو آپریشن سے کھسرا بنا دیاصرف اپنی کمائی کا زریعہ بنانے کے لیے،یہ ایک ظلم ہے جس کی اجازت قانون اور مذہب دونوں میں نہیں ہے،پیدائش کے وقت ہارمونز کی کمی بیشی سے بچوں میں اس قسم کے نقائص پیدا ہوجاتے ہیں جن کا علاج موجود ہے لیکن اس کے بارے میں معلومات کی کمی ہے والدین کو آگائی ہی نہیں ہوتی کہ اگر بچوں میں اس قسم کی علامات ہو تو کس سے اور کہا رجوع کیا جائے بروقت علاج ایسے بچوں کی زندگی برباد ہونے سے محفوظ کر سکتا ہے،کشش نے مزید بتایا کہ
نادرا میں شناختی کارڈ بنوانے جاؤ تو وہاں بھی والد کی جگہ گرو کا نام لکھوانے پر زور دیا جاتا ہے جو انتہائی ٖغلط ہے،اس کے علاوہ جنس کے خانے میں (ایکس)لکھاجانا،اس قسم کی بہت سی پیچیدگیاں ؎جس میں ترامیم اب ناگزیر ہوچکی ہیں
پیدائشی طور پر مرد پیدا ہونے والے خواجہ سراں اگر آپریشن نا کروایں تو وہ اپنی ازدواجی زندگی بھی بہتر طریقے سے گزا ر سکتے ہیں،لوگوں میں مشہو ر کے تمام خواجہ سرا بانجھ ہوتے ہیں غلط ہے ان میں صرف ہارمونز کی کمی بیشی ہوتی ہے جسکا علاج ممکن ہے بہت سے میرے جیسے خواجہ سراء شادی شد ہ زندگی گزار رہے ہیں تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ پیدائش کے وقت ہارمونز کی کمی بیشی سے مرد خواجہ سراوں میں زنانے پن کی جھلک موجود ہوتی ہے جس کی وجہ سے انہیں معاشرے میں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے،قدرتی طور پر مرد پیدا ہونے والے جن میں زنانہ جھلک ہوتی ہیں گرو مافیا کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جہاں انہیں آپریشنز کر کے خواجہ سرا ء بنا دیا جاتا ہے اس پر حکومت کو مکمل فوری پابندی لگانی چائیے،ندیم کشش نے میڈیا کے توسط سے ایک پیغام اپنے حقیقی خواجہ سرا جو جدی پشتی ملک کے طول عرض میں آباد چلے آرہے ہیں جو حاجی نمازی اور دین دار ہیں آج بھی جن لوگ جن کی گود میں اپنے نومولود بچوں کو دے کر دعا کراوتے ہیں جو بھیک نہیں مانگتے شادی بیاہ کے فنگشنز میں ناچتے گاتے نہیں ہیں جو کسی بھی قسم کی برائی میں شامل نہیں ہیں ان تک پہنچانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوکہا کہ اس وقت ان کے نام اور مقام کو گرو سسٹم نے یرغمال بنا لیا ہے جو اپنی مستقل آمدن کی لالچ میں آپریشن کروا کر لوگوں کو خواجہ سرا کا ٹیگ لگوا کر بھیک مانگنے،ناچ گانے اوربطور سیکس ورکر کے استعمال کر ہے ہیں،خواجہ سراوں کے حقوق کے لیے کو این جی اوز کام کر رہی ہیں ان کے ساتھ بھی یہی مافیا نتھی ہو گیا ہے،میری اپیل ہے ان تمام خواجہ سراوں سے کے کہ گرومافیا کے خاتمے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے میدان میں آئیں،ہماری SAFFARنامی تنظیم اسی مقصد کے لیے کا م کر رہی ہے
ہمارے معاشرے میں اس معاملے میں بنیادی تعلیم اور سمجھ بوجھ کی انتہائی کمی ہے جو ان مورتوں کو ملک اور معاشرے کا کارآمد فرد بننے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے ہم مسلم معا شرے کے باسی ہیں ہمیں ہندوآنہ عقائد سے مورتوں کو بچا نا ہے جن کی بھینٹ چڑھا کر(گرو) نامی آقاوں نے انہیں اپنی کمائی کا زریعہ بنا رکھا ہے،اگر حکومت اور فلاحی تنظیموں کی مدد سے ان کی مناسب تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا جائے تو انہیں معاشرے کا باعزت مفید شہری بنایا جا سکتا ہے،میری تنظیم SAFFAR کا بنیادی مقصد بھی خواجہ سراؤں کو ان کے بنیادی حقوق دلانا ہے جس کے لیے انہیں تعلیم حاصل کرنے کی جانب کونسیلنگ کی جا رہی ہے ہماری کوشش ہے کہ ان کے لیے کوٹہ کے مطابق تمام سرکاری اداروں میں ملازمتوں کا حصول ممکن بنایا جائے ساتھ ہی ٹیکنیکل ایجوکیشن،دستکاری جیسے سینٹراور شیلٹر ہوم قائم کیے جائیں جہاں گھروں سے بھاگنے والے بچوں کا ذہینی، جسمانی اور نفسیاتی علاج فری ممکن ہوسکے،

اسی ضمن میں ٹرانسجینڈر ہومز کے نام سے ایک رہائشی اپارٹمٹس کا منصوبہ بھی تکمیل کے مراحل میں ہے جس کے مکمل ہونے سے ٹرانسجینڈرز کو ایک بہترین سہولیات کے ساتھ رہینے کو اپنی چھت میسر آئے گی۔

پنھنجي راءِ لکو