نئے پاکستان کی جانب قدم-تحریر:اسماء طارق

عمران خان نے شاندار فتح کے بعد اپنی تقریر میں پاکستان کے متعلق اپنا منشور بیان کر کے نئے پاکستان کی جانب پہلا قدم رکھ دیا ہے ۔
2018 کے الیکشن پاکستان کے تاریخ ساز الیکشن ہیں جو تمام تر ملکی اور غیر ملکی رکاوٹوں کے باوجود بہت پر امن طریقے سے کامیاب ہوئے ہیں اور شرپسند عناصر کو شکست نصیب ہوئی ۔ عمران خان نے واضح اکثریت کے ساتھ برتری حاصل کی ہے ،عوام نے اپنے ووٹ سے ثابت کہ وہ غیر جمہوری سیاست اور کرپٹ مافیا سے اب چھٹکارا پانا چاہتے ہیں اور ملک میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں ۔
عمران خان نے فتح کے بعد نہایت مدبرانہ انداز میں تقریر کی ،ایک وہ عمران خان تھے جو ہر وقت چیختے رہتے تھے اور تنقید کرتے رہتے تھے مگر عمران خان نے بہت شاندار طریقے سے وکٹری سپیچ کی ۔ باوقار آواز اور عاجزانہ انداز جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے کندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری محسوس کر رہے ہیں اور پھر جس طرح انہوں اللہ کا شکر ادا کیا اور اس فتح کو اللہ کی طرف سے ایک موقع قرار دیا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے مقصد سے کس قدر لگن رکھتے ہیں اور پھر جس طرح انہوں نے واضح کیا کہ وہ پاکستان کو مدینہ کی ریاست کی طرح فلاحی ریاست بناناچاہتے ہیں جہاں مظلوم طبقے کے ساتھ انصاف کیا جائے گا اور عوام کا پیسہ عوام پر ہی خرچ ہوگا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عوام کا درد محسوس کرتے ہیں اور عوام کی فلاح کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں اور جن طرح انہوں نے کہا کہ سب کا احتساب ہوگا اور یہ مجھ سے شروع ہو گا جو کہ بہت اچھا اور مثبت عمل ہے،اس سے ظاہر ہے کہ اب احتساب کا عمل روکنے والا نہیں ، وہ سب پیسہ جو عوام سے لوٹا گیا ہے اور باہر لے جایا گیا ہے اس سب کا احتساب ہوگا ۔اس لیے تو ان کے وزارت سنبھالنے سے پہلے ہی بہت سے لوگ بغاوت کر رہے ہیں تاکہ وہ کسی طرح اس عمل کو روک سکیں۔مگر یہ سب آوازیں بہت جلد دم توڑ جائیں گی ابھی باہر سے کسی غیر ملکی وزیر اعظم یا صدر کی مبارک باد کال آئی تو، سب عوامی منڈیٹ کو تسلیم کر لیں گے تھوڑا سا وقت گزر جائے ۔

اور جس طرح عمران خان نے خارجہ پالیسی میں اپنے موقف کو بہت نپے تلے انداز میں بیان کیا ہے اور دوسروں ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید فروغ دینے کی بات کی ہے اس سے ظاہر ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کی اہمیت کو جانتے ہیں اور معاملات کو صلح وصفائی سے طے کرنا چاہتے ہیں ۔
عمران خان نے ماضی کی روایات کے برعکس بنا کسی شور شرابے کے انتہائی سادگی کے ساتھ بغیر پرچی کے اپنے منشور کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے عمران خان کی تقریر پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر بہت مثبت ردعمل سامنے آ رہے ہیں جن میں تحریک انصاف کے حامیوں کے ساتھ ساتھ مخالفین اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے بھے شامل ہے اور بےشک یہ ایک بہترین تقریر تھی ۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ ان پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، عوام کو ان سے بہت زیادہ توقعات ہیں جو ایک طرف تو خوش آئندہ بات ہے مگر دوسری طرف خطرناک بھی ہے کیونکہ زیادہ توقعات ہمیشہ بہت اعلٰی نتائج کی توقع رکھتی ہیں اور عمران خان کے لیے یہ مشکل ہے کہ وہ شروع میں اعلی نتائج دے سکیں اس کے لیے عوام کو حوصلہ رکھنا ہوگا ۔ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ عمران میں جوش ہے جذبہ ہے وہ ایک اچھے انسان ہیں ان کی تقریر کا ہر لفظ حوصلہ افزا ہے مگر اس بات سے آپ اتفاق کریں یا نہ کریں کہ ان کا سیاسی تجربہ ابھی اتنا نہیں ہے وہ اس حوالے سے ابھی تھوڑے امیچور ہیں اس لئے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو بہت حوصلے اور سمجھ کے ساتھ معاملات کو سلجھانا ہے ،معاملات میں ذرا سا تناو بھی حالات کو بگاڑ سکتا ہے اس لئے انہیں بہت سمجھداری سے حکومتی معاملات کو طے کرنا ہے ۔عمران خان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ پاکستان پر ایسے حکومت کریں گے جیسے پہلے کبھی نہ کی گئی ہو مگر ان کے سامنے بہت سی مشکلات کھڑی ہیں انہیں ان کو بہت تدبر کے ساتھ طے کرنا ہے ، ان میں سے کچھ مسائل ان کی اپنی جماعت کے ارکان بھی کھڑا کر سکتے ہیں اس لیے عمران خان کو انتہائی استقامت اور ثابت قدمی کی ضرورت ہے ۔بےشک عمران خان نے بہت شاندار منشور دیا ہے مگر اب دعا ہے کہ وہ اور ان کی ٹیم اس پر عمل پیرا ہو سکیں ۔
ان کے پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ تین صوبوں میں حکومت بنائیں گے اور اس کے لیے دوسری جماعتوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔پنجاب ،خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں ان کی حکومت کی توقع کی جارہی ہے اور وزراء کے نام بھی مشاورت کے ساتھ پیش کر دیے گئے ہیں جو ایک دو دن تک سامنے آ جائیں گے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن بھی میدان میں آ گئی ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ پنجاب میں اپنی حکومت بنائے گے اور اس کے لیے دوسری جماعتوں سے مشاورت جاری ہے ۔اب دیکھتے ہیں کہ کون حکومت بناتا ہے اور نئے پاکستان کی جانب اور کون کون سے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں ،امید کی جاتی ہے کہ یہ قدم مثبت تبدیلی لے کر آئیں گے ۔

پنھنجي راءِ لکو