اہم عہدوں پر بدلتے چہرے، سرمایہ کاری کیسے ہو گی؟

پاکستان میں جاری معاشی بحران نے بدھ کو ایک نیا موڑ لیا جب سرمایہ کاری بورڈ کے سربراہ ہارون شریف نے اپنا استعفیٰ دیا اور اگلے ہی روز فنانس سیکرٹری یونس ڈھاگا کی تبدیلی کی اطلاعات کی بھی تصدیق ہو گئی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ہارون شریف کا کہنا تھا کہ ان کا کسی ایک فرد سے اختلاف نہیں، بلکہ تمام سسٹم کی خرابی سے مسئلہ ہے۔

’ملک میں ادائیگیوں کا توازن سیدھا کرنے کے دو بنیادی طریقے ہیں، ایک ہے غیر ملکی ترسیلات بڑھانا اور دوسرا غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھانا۔ جہاں اس خطے میں دیگر ممالک کے مجموعی ملکی پیداوار کی نسبت سرمایہ کاری 25 سے 30 فیصد ہے، پاکستان میں محض 15 فیصد ہے۔ وزیرِ اعظم کی اس پر بہت توجہ ہے، لیکن اس نظام میں ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔‘

اپنا نقطہ نظر مزید سمجھاتے ہوئے ہارون شریف کا کہنا تھا کہ ایک ’فاسٹ ٹریک‘ سسٹم کی ضرورت ہے جس کے تحت ملک میں سرمایہ کاری لانے والوں کو مسلسل سرکاری دفاتر میں پھنسنا نہ پڑے، کیونکہ اگر ان کو آسان سہولیات نہیں دی جائیں گی تو وہ کہیں اور چلے جائیں گے۔

اپنے تجربے کو ’مایوس کُن‘ قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان کو اپنا کام کرنے کے لیے جس طرح کی حمایت چاہیے تھی وہ نہیں ملی۔ ’کسی بھی سرمایہ کار کو تین چیزیں دیکھنی ہوتی ہیں، پہلا اس ملک میں اعتماد اور اپنے پارٹنر پر بھروسا، دوسرا واضح پالیسی اور تیسرا پالیسی میں تسلسل۔ جب ان میں اتار چڑھاؤ آئے گا تو نقصان پاکستان کا ہی ہو گا۔‘

منگل کو سٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اس مالیاتی سال کے دس ماہ میں گذشتہ سال کی نسبت 51.7 فیصد گر گئی ہے۔ لیکن ہارون شریف کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد ملک میں سرمایہ کاری بڑھانے کے جو 30 سے 35 ارب کے منصوبے بنائے تھے ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ادارے تیار نہیں تھے۔

’اس 51.7 فیصد کی کمی کا زیادہ تعلق حب پاؤر پلانٹ سے ہے جس کا ایک پراجیکٹ منسوخ ہونے سے 60 کروڑ ڈالر ملک سے باہر چلے گئے۔ لیکن اس کے علاوہ پاکستان میں اندر آنے والی رقم تقریباً اتنی ہی ہے جتنی پہلے تھی۔‘

دوسری جانب یونس ڈھاگا کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے رجوع کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں اور ان کی جگہ کابینہ ڈویژن کے سیکرٹری نوید قمر بلوچ کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ’یونس ڈھاگا اور مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے درمیان آئی ایم ایف ڈیل پر اختلافات‘ کو اس تبدیلی کی وجہ بتایا جا رہا ہے۔

یونس ڈھاگا کو سیکرٹری فنانس بنے ہوئے دو ماہ ہوئے تھے جس سے پہلے وہ سیکرٹری کامرس تھے۔ اسی طرح ہارون شریف کو بھی سرمایہ کاری بورڈ کی سربراہی کرتے ہوئے آٹھ مہینے ہوئے تھے جس سے قبل وہ عالمی سطح پر معاشی ماہر کی حیثیت سے نام بنانے کے بعد ورلڈ بینک کے ریجنل ایڈوائیزر رہ چکے ہیں۔

ماہر معیشت صہیب جمالی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس طرح کے اقدامات سے دنیا بھر میں ایک برا تاثر جاتا ہے کہ حکومتِ پاکستان کو اپنا کام کرنا نہیں آتا۔ اور اگر حکومت یہ خیال کرتی ہے کہ ان کے چُنے ہوئے لوگ نااہل ہیں تو پھر ان کو عہدے دینے ہی نہیں چاہیے تھے۔‘

صہیب کہتے ہیں کہ ’ان تبدیلیوں کا اثر شاید پاکستان کے اندر فوراً واضح نہ ہو لیکن غیر ملکی سرمایہ کاری اس سے ضرور متاثر ہو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ جو پاکستان میں پیسے لگانا چاہتا بھی ہے وہ نمائندوں میں تبدیلی دیکھ کر ڈر جاتا ہے کیونکہ نمائندہ بدلنے سے پالیسی بدلتی ہے جس سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔

’کوئی بھی بورڈ یا وزارت اکیلے سب کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ سب کا ایک دوسرے پر انحصار ہوتا ہے۔ لیکن سرمایہ کاری بورڈ کی سربراہی اہم اس لیے بھی ہے کیونکہ تمام وزارتوں سے حمایت ملنے کے بعد ہی یہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری لا سکیں گے۔‘

اسی طرح اسلام آباد ایوانِ صنعت و تجارت کے صدر احمد مغل کا بھی کہنا ہے کہ ’حکومت اپنے نمائندے منتخب کرتی ہے، کاروباری برادری ان کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کرنے کا عمل شروع کرتی ہے تو آپ نمائندہ تبدیل کر دیتے ہیں۔ کاروبار میں ایک اعتماد اور تعلق بنانے میں وقت لگتا ہے۔‘

احمد مغل کا خیال ہے کہ بجٹ کا اعلان ہونے سے بالکل پہلے اس طرح کی تبدیلیاں کرنا مناسب نہیں۔ ’ایک غیر یقینی کا ماحول بن جاتا ہے اور سب کچھ دوبارہ سے شروع کرنا پڑتا ہے۔ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ کسی بھی پالیسی کو نتائج دکھانے میں وقت لگتا ہے، جس کے لیے ہمیں تھوڑا صبر و تحمل اختیار کرنا پڑے گا۔

پنھنجي راءِ لکو