اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

 

Email:- 

Telephone:- 92-300-2248711        

شگفتہ جمانی (وزیر مملکت برائے مذہبی امور

ذوالفقار علی بھٹو ۔ ایک کرشماتی شخصیت

شگفتہ جمانی (وزیر مملکت برائے مذہبی امور


پانچ جنوری 1928 تاریخ کا ایک عظیم ترین دن ہے ۔ یہ وہ دن ہے جب قائد عوام ‘ ناموس رسالت کے عظیم سپاہی، تیسری دنیا کے قائد، ایٹمی ٹیکنالوجی کے بانی، اسلامی سربراہی کانفرنس کے روح رواں، استعماری، سامراجی قوتوں کو للکارنے والے، عالم اسلام کو ایک پلیٹ فارم پرجمع کرنے والے، اور 1973 کے آئین کے خالق و بانی ‘ پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پیدا ہوئے ۔ صوبہ سندھ کا شہر لاڑکانہ ان کا جائے پیدائش ہے ۔ان کا یوم ولادت ایک تاریخ کے نئے باب کا آغاز ہے ۔ اﷲ رب العزت صدیوں میں ایسی شخصیات کو جنم دیتا ہے جو کہ تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتے ہیں اور یہ ہمیشہ ہمیشہ زندہ جاوید رہتے ہیں ۔ ان کا یوم ولادت ایک بڑی جدوجہد کا آغاز ہے ۔ ان کی ولادت نہ صرف ہماری تاریخ بلکہ درحقیقت عالمی تاریخ کا ایک اہم یوم ہے ۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کا جنم بیسویں صدی میں ہوا تھا لیکن وہ اپنی پیدائش سے کئی صدیوں پہلے پیداہوئے تھے ۔ وہ صدیوں کے انسان ہیں جو آنے والی کئی صدیوں پر ایک سیاسی مفکر کی حیثیت سے محیط رہےں گے ہم خوش قسمت ہیں کہ طبعی زندگی ختم ہونے کے باوجود ان کے جلیل القدر افکار اور بنیادی دستاویزات نے ہمیں مستفیض کیا ہے بات یہی ختم نہیں ہوجاتی بلکہ خطہ پاکستان کے عوام کی خوش نصیبی ہے کہ انہیں بھٹو ازم کا ہتھیار حاصل ہے ۔
قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے درماندہ قوم کو نہ صرف جینے کا حوصلہ دیا بلکہ اپنے حقوق کی حصول حقوق تک جاری رہنے والی جنگ کا شعور بخشا ۔ آمر وقت کے سامنے سر نہ جھکاتے ہوئے وطن دشمن استعماری قوتوں کو للکارتے ہوئے اور مادر وطن کو قرون وسطیٰ کے دور سے نکال کر عہد جدید کے تقاضوں سے ہمکنار کیا ۔ان کی آواز کروڑوں عوام نے سنی کا خلاصہ یہ تھا کہ بنی نوع انسان نہ صرف برابر ہیں بلکہ وہ مملکت خدادکے وسائل اور مواقعوں میں برابر کے حصہ دار ہیں ۔ انہوں نے ایک دفعہ عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہاے تھا کہ ”یہ اﷲ تعالیٰ کی مرضی نہیں کہ آپ غریب رہیں ۔ آپ غیر مراعات یافتہ رہیں اور شب وروز کی ضروریات سے محروم ہیں ۔ اگر ایسا ہے اور یقینا ہے تو آپ پھر متحد ہوجائیں اور اٹھ کھڑے ہوں اور ایک لڑائی کو چھیڑ کو فتح سے ہمکنار کریں جہاں باطل کی استعماری قوتیں سر جھکاکر نہ صرف عوام کے حقوق تسلیم کریں بلکہ صدیوں تک اس کے استحصال کی جرات کرنے کا تصور بھی نہ کریں “۔ یہ ایک سادہ فلسفہ ہے ۔ یہ شہید بھٹو کی جرات ہے باالفاظ دیگر یہی بھٹو ازم ہے۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو کی تحریر کردہ تصانیف ، تقاریر ، خطوط ، پریس سے خطابات ، عالمی اداروں سے مخاطب ہونا اور ملک وقوم کو درپیش مسائل کے حصول اور حل کی تفصیلات آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے ۔ قائدعوام ذوالفقار علی بھٹونہ صرف ایک عام نام ہے بلکہ ایک نظریہ ہے ۔
قائد عوام کا عظیم تر کارنامہ ایک ایسی عوامی پارٹی کو معرض وجود میں لانا ہے جو تہذیبی اور سیاسی کلچر میں پاکستان پیپلزپارٹی کے نام سے معرض وجود میں ہے ۔ جس کے کارکن ملک کے طول و عرض میں متحرک ہیں ۔ جس کی قیادت تمام تر جبر کے باوجود ملک کے سولہ کروڑعوام کی رہنمائی کررہی ہے ۔ جس کے سیاسی افکار وقت کی طوفانی کروٹوں کے باوجود متحرک ہیں ۔ جو روز اول کی طرح آج بھی جبر کی قوتوں نبردآزما ہے لیکن ان قوتوں کا مقدر شکست ہے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے پاکستان کے سیاسی کلچر کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔پاکستان پیپلزپارٹی جب معرض وجود میں آئی تو ا س نے عوام کو چار نعرے دیئے ۔
۱۔ اسلام ہمارا دین ہے ۲۔ سوشل ازم ہماری معیشت ہے ۔
۳۔ جمہوریت ہماری سیاست ہے ۴۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے ۔
یہ ایک سیاسی جماعت ہے جو وقت کے ساتھ پیچھے نہیں آگے کی طرف سفر جاری رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ جو ایک جمہوری ‘ترقی پسند ‘ روشن خیال ‘ اعتدال پسند ‘ معاشرے کی تعمیر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی اپنے سیاسی فکر و فلسفے کے اعتبار سے واحد سیاسی جماعت ہے جو کروڑوں عوام کی رہنما ئی کی صلاحیت رکھتی ہے ۔
شہید ذوالفقار علی بھٹوکی سیاسی دانش ، حکمت عملی ، اور فکری اساس کا ذکر کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے ۔وہ اس صدی کے بہت بڑے خارجہ پالیسی کے ماہر تھے ان جیسا ڈپلومیٹ اور مذاکراتی صلاحیت کرنے والی دوسری شخصیت نظر نہیں آتی ۔ تاریخ انہیں چو این لائی ، گرومیکوف ، اور ہنری کسنجر جیسے سفارت کاروں اور ورزاءخارجہ کے ہم پلہ گردانتے ہیں ۔ مذاکرات کے میدان میں ان کا کوئی دوسرا ہم پلہ نہیں ۔ سفارتی دستاویز کی تاریخ میں معاہدہ شملہ ایک بے مثال معاہدہ ہے ۔ جس نے اپنے سے کئی گنا بڑے ملک جس نے پاکستان کو ایک حد تک مغلوب کرلیا تھا اسے مذاکرات کی میز پر بیٹھا کر شملہ معاہدہ کی شکل میں شکست سے دوچار کیا اور اس معاہدہ کے ذریعے اپنے اغراض کو حاصل کیا ۔ انہوں نے کشمیر کو ایک متنازعہ مسئلہ قرار دیتے ہوئے دو طرفہ بنیادوں پر حل کرنے کا راستہ دکھایا ۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ملک کو ایک ایسے آئین کی ضرورت تھی جو کہ چاروں صوبوں کے عوام کی ترجمانی کرے ۔12 اپریل1973ئ کو پی پی پی ، نیشنل عوامی پارٹی، جماعت اسلامی، مسلم لیگ قاسم گروپ، کونسل مسلم لیگ، جمعیت العلمائے اسلام ، جمعیت العلمائے پاکستان، ، قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی اور آزاد اراکین قومی اسمبلی نے دستخط کیے ۔ آئین میں پہلی بار سینیٹ کو شامل کیا گیا جس میں تمام صوبوں کو مساوی نمائندگی دی گئی ۔
پاکستان کو جو ملک بے دستور کہلاتا تھا اور قانون کی حاکمیت سے محروم تھا ایک ایسا متفقہ جمہوری اسلامی وفاقی دستور فراہم کیا جو گزشتہ ایک چوتھائی صدی سے بے دستور تھا جس آرزو و تمنا اور منصوبہ بندی میں پاکستان یکے بعد دیگر ناکامیوں سے ہمکنار ہوتا رہا ۔ ہمیں تاریخ ایسے شواہد فراہم کرتی ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کی شہادت میں ان قوتوں کا ہاتھ تھا جو پاکستان کو دستور سے محروم رکھنا چاہتی تھی ۔ اس تاریخی ادراک کے باوجود اور سقوط ڈھاکے کے المیے سے ہمکنار ہونے کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے یہ عزم کیا کہ وہ کم از کم عرصہ کے اندر پاکستان کو ایک ایسا متفقہ دستور دینگے جس پر تمام سیاسی قوتیں متفق ہوں اور انہوں نے یہ کارنامہ کرکے دکھایا۔ ان کی سربراہی میں پاکستان کو 1973کا دستور ملا اور انہوں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ دستور میرا یا میری جماعت کا دستو ر ہے ۔ اگر وہ چاہتے تو اسمبلی میں اپنی دو تہائی اکثریت کے بل بوتے پر اپنی مرضی اور اپنے جماعتی مفادات کے پیش نظر ایک دستور دے سکتے تھے لیکن ان کے پاس تاریخ کا وژن اور ادراک تھا ۔ انہوں نے دیکھا تھا کہ اس سے قبل 1956ئ اور 1962ئ کے دساتیر اپنے خالقوں کے ساتھ اپنے اختتام سے ہمکنار ہوگئے چنانچہ انہوں نے تما م قوتوں کو ایک جگہ پر جمع کرکے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک ایسا دستور قوم کو دیا جسے کئی بار فوجی آمر اور مہم جو معطل کرنے کے باوجود بحال کرنے پر مجبور ہیں اور اپنے غیر دستوری ‘ غیر جمہوری اور غیر اخلاقی اقتدار کو دوام دینے کے لیے عارضی طور پر اس دستو ر میں پناہ تلاش کرتے ہیں لیکن ایسے کئی آمر فنا وشکست سے دوچار ہوتے رہیں لیکن 1973کا دستور اپنی اصلی شکل اختیار کرکے پھر بحال ہوجاتا ہے ۔ یہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کا عظیم ترین کارنامہ ہے کہ پوری قوم اگر کہیں متفق ہوسکتی ہے تو 1973ئ کے دستور کی بحالی پر جو آمروں اور جرنیلوں کو شکست دائمی فراہم کرتی ہے ۔
1973ئ کا آئین پاکستان کا پہلا متفقہ اسلامی اور جمہوری آئین ہے جس کا کریڈٹ بجا طور پر شہیدذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے ۔ 1971 کی شکست اور سقوط ڈھاکہ کے بعد حالات نے بھی مختلف سیاسی جماعتوں کو مجبور کیا کہ وہ متفقہ آئین کے لیے راضی ہوجائیں ۔ پاکستان بہت سے سیاسی نشیب و فراز سے گزراہے ۔ آئین کو ہمیشہ آمروں نے پامال کیا ، 1956ئ میں جنرل ایوب خان نے آئین کو توڑا،1962۱ئ کے آئین کے مطابق اقتدار اسپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کیا جانا چاہیے تھا مگر یحییٰ خان نے اقتدار پر خود قبضہ کرلیا ۔ جنرل ضیاءالحق نے 1973ئ کا آئین توڑا اور کہا ” آئین بارہ صفحات کی کتاب ہے اسے جب چاہوں پھاڑ کر پھینک سکتا ہوں“ اور موجودہ حکمرانوںنے اس بالکل ہی سائیڈ لائن کردیا ہے ۔ آئین عوام کی آرز وں ، خواہشات اور توقعات کا ترجمان ہوتا ہے ۔ اس کو توڑنا رائے عامہ کی توہین اور تذلیل کے مترادف ہے ۔ مگر تاریخ شاہد ہے کہ آمروں نے ہمیشہ عوام کی آرز وں کا خون کیا ۔ 1973 کا آئین آج بھی وفاق اور قومی یکجہتی کا ضامن ہے ۔ 1973ءکے آئین کی اپنی ایک مسلمہ حیثیت ہے جس سے کوئی بھی آمر اور حکمراں انکار نہیں کرسکتا۔
قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کو دنیا رہتی دم تک جس وجہ سے یاد رکھے گی وہ ہے پاکستان میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دینا۔ یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔ قادیانی وہ لوگ ہے جنہوں نے ہمیشہ پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور آج بھی یہ کھلے عام پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں ۔ یہ ہمت اور جرات صرف اور صرف قائد عوام ہی میں تھی جنہوں نے ان کو اقلیت اور غیر مسلم قرار دے کر نہ صرف دنیا بلکہ آخرت میں بھی سرخرو ہوگئے ۔ پاکستان میں 29 سالوں تک کسی رہنما ، سیاست دان یا حکمران کو یہ جرات نہ ہوسکی کہ حضرت محمد ﷺ کے منکرین ختم نبوت کے خلاف کوئی قدم اٹھاسکیں مگر یہ اعزازشہیدذوالفقار علی بھٹو ہی کے حصہ میں آیا کہ انہوں نے ختم نبوت کے منکرین کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا وار تاریخ اسلام کا جرات مندانہ عظیم فیصلہ کیا ۔ قائد عوام کے اس تاریخی فیصلہ کو ہر مکتبہ فکر کے رہنما وں ، علماءکرام اور دانشوروں نے سراہا اور اسے سنہری کارنامہ قرار دیا ۔ اس طرح قائد عوام نے یہ ثابت کیا کہ وہ نہ صرف ترقی پسند ہیں بلکہ اسلام پسند بھی ہیں ۔ یہاں تک کہ پاکستان میں جمعتہ المبارک کی ہفتہ وار تعطیل کا سہرا بھی قائد عوام کے سر جاتا ہے ۔
مغرب ا ور امریکہ کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ کوئی اسلامی ملک اس قدر مضبوط اور طاقتور نہ ہو کہ وہ ان کے لیے چیلنج بن جائے ۔ تاریخ میں غیر مسلم ممالک متحد ہ بلاک بناتے رہے مگر عالمی طاقتوں نے مسلمانوں کو کبھی متحد نہیں ہونے دیا۔ تاہم شہد بھٹو نے جب اسلامی سربراہی کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا تو امریکہ نے ان پر دبا و ڈالا کہ وہ کانفرنس ترک کردیں ۔ بھٹو صاحب نے امریکہ کی مخالفت کے باوجود دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کا اجلاس پاکستان کے دل لاہور میں کرنے کا اعلان کردیا۔ امریکہ کی دوسری کوشش یہ تھی کہ کانفرنس کامیاب نہ ہو اور اسلامی ملکوں کے سربراہ شرکت نہ کریں ۔ لیکن دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس ہر لحاظ سے اس طرح کامیاب رہی کہ کہ اس میں 38مسلم ممالک کے سربراہ شریک ہوئے جبکہ اس سے پہلے جو اسلامی سربراہی کانفرنس رباط میں منعقد ہوئی تھی اس میں صرف 24اسلامی ممالک نے شرکت کی ۔ قائد عوام نے اپنی اہلیت ، بصیرت، صلاحیت اور ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا کے مسلمان ممالک کو متحد کرکے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرلیااور یہ مغرب اور امریکہ کی نظر میں ان کے لیے جرم بن گیا۔
پاکستان کو دفاعی ٹیکنالوجی سے شہید ذوالفقار علی بھٹو نے متعارف کرایا ہے ۔ انہوں نے خطے کے بگڑے ہوئے سیاسی توازن کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے ذریعے سے پُر کیا۔ یہ اس وقت پاکستان کی ایک ضرورت تھی اور اگر اس ضرورت کو بروقت پورا نہ کیا گیا ہوتا تو آج جنوبی ایشیاءعدم توازن کا شکار ہوتا ۔ بھارت کا جسد ‘ آبادی کا بوجھ اور علاقائی قوت کا خواب پاکستان کو عدم دفاع اور تحفظ سے ہمکنار کردیتا لیکن شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی ٹیکنالوجی کے ہتھیار سے بھارت جیسے بڑے ملک سے مدمقابل ‘ ہم پلہ ملک کی حیثیت بخشی ۔ پاکستان تمام تر فوجی معاہدوں ‘ فوجی صلاحیتوں کے باوجود اگر ایٹمی صلاحیت سے آراستہ نہ ہوتا تو پاکستان کا وجود سنگین خطرات سے لاحق ہوسکتا تھا اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو عالمی سطح پرایٹمی ٹیکنالوجی کے کیمپ کا حصہ بنادیا جس کے نتیجے میں پاکستان کی اپنی علاقائی اہمیت میں اضافہ ہوا۔ گو اس عظیم کارنامے کے نتیجے میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی جان کا نذرانہ قربان کرنا پڑا۔ یہی سبب ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ چاہے ہمیں گھاس کھانی پڑی لیکن ہم اپنی دفاعی ضرورت کے پیش نظر پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے آراستہ و پیراستہ کرینگے اور انہوں نے ایسا کرکے دکھلایا ۔
قائد عوام کو اٹیمی ٹیکنالوجی کے بانی کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ جب ہندوستان نے پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تو قائد عوام نے مصمم ارادہ کرلیا کہ وہ پاکستان کو ہر صورت ایک ایٹمی قوت بنائیں گے ۔ ۔ قائد عوام نے ایٹم بم کے بارے میں یہ تاریخی اعلان کیا کہ ”اگر ہندوستان نے ایٹم بم بنالیا تو ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے“۔ جنرل حمید گل ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ ”بھٹو کو نیوکلیئر پروگرام اور اسلامی ممالک کی قیادت کی وجہ سے ہٹایا گیا“۔ آج پاکستان جن ستونوں پر کھڑا ہے اس میں ۳۷۹۱ئ کا آئین اور ایٹم بم شامل ہے ۔ یہی ایٹم بم بیرونی جارحیت سے تحفظ فراہم کررہا ہے اس طرح ان تمام کا سہرا پی پی پی اور بھٹو کے سر ہے ۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی صلاحیت کا ہتھیار پاکستان کو دے کر بھارت کے مقابل ایک ایسی جامع کاروائی کی جو نہ صرف طاقت کا توازن پیدا کرے اور متحرک موضوعات پر دونوں ممالک کو پُر امن میز پر بیٹھ کر امور کو نپٹانے کے مواقع فراہم کرے ۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان ایک ترقی یافتہ ، روشن خیال ، اعتدال پسند، اور روشن مستقبل کا علمبردار ہو لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب پاکستان خطہ میں اپنے بڑے مد مقابل ملک کے سامنے ہم پلہ قوت رکھتا ہو۔
قائد عوام کو آج ہم سے جدا ہوئے تین عشروں سے زائد کا طویل عرصہ بیت چکا ہے مگر کیا وجہ ہے کہ بھٹو شہید آج بھی کروڑوں دلوں میں زندہ ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ وہ حیات نو سے ہمکنار ہے اور ہمارے شب و روز کی زندگی میں ہماری رہنمائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ جس نے ایک نعرہ کی شکل اختیار کرلی ہے جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو تیرے نام رہے گا ۔ وہ کل بھی زندہ تھے اور کل بھی زندہ ہونگے۔ ان کی تقلید کرنے والے فخریہ طور پر اپنے آپ کو بھٹو اسٹ کہتے ہیں یعنی ذوالفقار علی بھٹو کے پرستا ر اور مقلد ۔پاکستان کے لاکھوں نہیں کروڑوں غریب، مزدور، کسان ، ہاری ، دہقان اور کچلے ہوئے مظلوم ترین عوام اور سفید پوش طقبہ سے تعلق رکھنے والے لوگ آج بھی بھٹو شہید کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں ۔ اس لیے نہیں کہ شہید بھٹو صرف ایک سیاستدان تھے بلکہ اس لیے کہ شہید بھٹو نے مظلوم طبقوں کو شعور دیا ، انہیں زبان دی ، انہیں حق مانگنے کا حوصلہ دیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شہید بھٹو پاکستان ہی کے نہیں بلکہ تیسری دنیا کے کروڑوں مظلوم اور پسے ہوئے لوگوں کے ترجمان بن گئے ۔ قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو ایک مرد آہن، مرد قلندر شخصیت تھے جو نہ کبھی جھکے اور نہ کبھی بکے۔
لاڑکانہ ، شہر شہداءمیں زندگی کبھی ساکت نہیں ہوتی بلکہ قدم قدم پر ایک حیات نو کا پیغام دیتی ہے اور قرآن کی اس عقیدہ کی تازہ تکرار کرتی ہے کہ شہیداءکو مرا ہوا نہ کہووہ زندہ ہے لیکن تم انہیں دیکھ نہیں سکتے ۔ بہر طور شہادتوں کی اس تفصیل کے اردگرد شہید ذوالفقار علی بھٹوقائد عوام کے بے شمار سیاسی اور قومی کارنامے ہماری تاریخ کا حصہ ہیں ۔جسے کبھی بھلایا نہیں جاسکتا

جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پردے
خدا آرزو میری یہی ہے
میرا نور بصیرت عام کردے
 
 

 

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team