اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔11-07-2010

  امریکہ مجسمہ ازادی اور سچ

 

کالم۔۔۔  روف عامر پپا بریار

ہر سال جولائی کے مہینے میں راقم کے قلب و زہن پر نیویارک کی بندرگاہ پر نصب مجسمے پر کندن الفاظ افسردہ کردیتے ہیں ۔امریکہ کی دنیا بالخصوص امت مسلمہ پر تھوپی جانیوالی خون اشام پالیسیوں اور وائٹ ہاوس کے مہاراجوں کے طرز عمل کا ایک فیصد بھی مجسمہ ازادی کے جلی حروف سے لگا نہیں کھاتا۔یہ مجسمہ اپنے ہاتھ میں مشعل تھامے اقوام عالم کے تمام دکھی اور خزاں رسیدہ انسانوں کو اپنی اغوش میں سمیٹنے کی زبان حال سے دعوت دے رہا ہے۔ مجسمے کا فقرہ کچھ یوں ہے بے کس ،مظلوم، مفلوک الحال اور عسرت زدہ انسانوں کو ہمارے حوالے کیجیے تاکہ وہ ازادی کی زندگی بسر کرسکے۔چار جولائی امریکہ کا یوم ازادی ہے۔امریکہ نے1776 میں برطانیہ سے ازادی حاصل کی تھی۔امریکن قوم نے اس مرتبہ چار جولائی کو اپنا234واں بڑی دھوم دھام سے منایا۔ امریکہ نے 234سالوں میں ہمیشہ مجسمہ ازادی کے فقرے کی عظمت کو تار تار کیا ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری و سار ی ہے۔یہ حقیقت اظہر من التمش ہے کہ امریکہ نے ازادی کے جملے کے برعکس کروڑوں خوشحال اور ہنستے بستے گھروں کو ماتم کدوں میں بدل دیا۔ امریکن فورسز نے لاطینی امریکہ سے لیکر بغداد اور جاپان سے لیکر کابل تک سکون کی زندگی بسر کرنے والے لاکھوں معصوم بچوں عورتوں اور نوجوانوں کی زندگیوں کو جہنم بنادیا۔امریکہ اپنے یوم ازادی1776تا2010 تک کے234 سالوں میں223 مرتبہ ازاد اور خود مختیار ملکوں پر جارہیت مسلط کرچکا ہے۔امریکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد24 ملکوں پر اگ و خون کی بارش کرنے کا جرم لاحاصل کرچکا ہے۔ امریکہ نے دنیا کے چپے چپے پر عقوبت خانے قائم کررکھے ہیں جہاں لاکھوں لوگ امریکیوں کے قہر کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔2006 میں بش نے خود اعتراف کیا تھا کہ سی ائی اے نے دنیا میں سینکڑوں ازیت کدے قائم کررکھے ہیں۔اسی دو رمیں امریکہ کے306 سفارت کاروں دانشوروں فوجیوں اور تھنک ٹینکس نے مطالبہ کیا تھا کہ ان ٹارچر سیلوں کو بند کردیا جائے۔اوبامہ نے گوانتاناموبے سمیت تمام ظلمت کدوں کو ختم کرنے کا شاطرانہ اعلان کیا تھا مگر یہ وعدہ ہنوز دلی دور است کا روپ دھار چکا ہے۔ امریکی قوم چار جولائی کو ایک طرف مجسمہ ازادی کو بو ساے دے رہی تھی تو دوسری طرف اوبامہ اینڈ کمپنی افغانستان میں خون کے دریاوں کو سمندر بنانے کے لئے جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کو قیمتی ارا اور ہیبت ناک اسلحے سے لیس کررہی تھی۔ایک بین القوامی ویب سائیٹ پر جاری کی جانیوالی رپورٹ کے متن سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عراق و کابل میں لاکھوں معصوم انسانوں کا قتل عام کس طرح تحریر ازادی کی نفی اور مجسمے کی مقدسیت کو پامال کررہا ہے؟سروے کے مطابق افغانستان میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 3 ملین سے زیادہ ہوچکی ہے۔پینٹاگون کے خود ساختہ اعداد و شمار کے مطابق عراق میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ملین اور70 ہزار ہے۔ کابل اور بغداد میں جنگجووں کی شجاعت کا نشانہ بننے والے امریکی فوجیوں کی تعداد بالترتیب 4300 اور 5000 ہے۔امریکہ عراق و کابل کی لاحاصل جنگ میں10 کھرب ڈالر پھونک چکا ہے۔امریکی کانگرس کی بجٹ کمیٹی کے مطابق امریکہ عراق جنگ میں7 کھرب8 ارب ڈالر جبکہ افغانستان میں3 کھرب ڈالر45 ارب ڈالر خرچ کرچکا ہے۔رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ایک امریکی فوجی پر10 لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔عراق جنگ 4394 فوجی1471 امریکی شہری141 صحافی اور450 نمایاں شخصیات کی زندگیوں کا چراغ گل کرچکی ہے۔انٹیلیجینس بیورو کے ڈرائکٹرdenis blair نے میڈیا کو بتایا کہ امریکی حکومت اندرون اور بیرون ملک شعبہ سراغ سانی و انٹیلیجنس پر سالانہ80 کھرب ڈالر خرچ کرتی ہے یہ رقم امریکہ کے سالانہ بجٹ650 ارب ڈالر کا10 فیصد ہے۔امریکہ نے بیرون ملک740 فوجی اڈے بنارکھے ہیں جنکی مالیت کا اندازہ131 ارب ڈالر ہے۔ان اڈوں کے علاوہ امریکہ نے مختلف ممالک میں21 ہزار527 عمارتیں کرایوں پر حاصل کررکھی ہیں۔فوجی اڈوں کی تعداد زیادہ ہے کیونکہ پینٹاگون نے سربیا، کوسوو اسرائیل کرغیزستان قطر کویت اور ازبکستان کے اڈوں کو فہرست میں شامل نہیں کیا۔بش نے اپنے خونی دور میں کانگرس سے جو رقم منظور کروائی تھی وہ روس ، برطانیہ چین اور بھارت کے دفاعی بجٹوں سے بھی زیادہ ہے۔1945تا2005 نے اپنی ناپسندیدہ حکومتوں کے تختے الٹنے کے لئے ایشیا لاطینی امریکہ اور افریقہ کے40 ملکوں پر شب خون مارا۔ان جنگوں کے نتیجے میں ان ملکوں میں اپاہج افغانستان21 لاکھ اور عراق میں11 لاکھ کی نئی افواج پیدا ہوگئیں۔ان60 برسوں میں امریکہ نے40 غیر ملکی اور23 قوم پرستوں کی حکومتوں کا تخت زمین بوس کرڈالا۔امریکی وحشت کا بشانہ بننے والی یہ حکومتیں اپنے ممالک کی مقبول ترین قیادت کے زیر سایہ پھل پھول رہی تھیں۔ امریکہ سے تعلق رکھنے والے نوبل انعام یافتہ مالیاتی ماہرjosephنے اپنے تحقیقی مکالے میں لکھا ہے کہ 6 فیصد فوجیوں کے اعضا ضائع ہو چکے ہیں۔عراق اور افغانستان میں جنگ لڑنے والے30 ٪فیصد فوجی سنگین دماغی عوارض کا شکار بن گئے۔جوزف کے مطابق امریکن فوج میں سے ان ملازمین کو باہر نکال پھینکنے کا عمل شروع ہوچکا ہے جنہوں نے کابل و بغداد میں اپنی ڈیوٹی انجام دینے سے انکار کیا تھا۔ امریکہ کے پوری دنیا میں264 سفارت خانے ہیں جن میں سے85 غیر محفوظ ہیں۔کانگرس نے150 سفارت خانوں کی سیکیورٹی کے لئے 5 ارب ڈالر کی رقم منظورکررکھی ہے مگر وزارت خارجہ نے 10رب ڈالر کی رقم طلب کررکھی ہے۔ امریکی سفارت کاروں کی سیکیورٹی کے لئے50 ممالک میں نئے سفارت خانوں کی تعمیر41 ملکوں کے سفارت خانوں کے ڈیزائن میں رد و بدل اور60 سفارت کاروں کو محفوظ مقامات پر منتقلی کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ملازمین کو خطرہ الاوئنس جاری کرنے والے امریکی مشنوں کی تعداد 2سے بڑھ کر26 ہوگئی ہے۔اوبامہ انتظامیہ سارے جتن افغانستان میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے کررہی ہے مگر قرائن کا تجزیہ اسکے برعکس ہے۔افغانستان امریکہ کے لئے ایسی ہڈی بن چکا ہے جو نہ تو اگلنے کے قابل ہے اور نہ ہی نگلی جارہی ہے۔افغانستان بادشاہتوں کا قبرستان جہاں اج تک چنگیز خان کے علاوہ کوئی بیرونی حملہ اور اپنے پاوں نہ جما سکا۔ اب اسی قبرستان میں ناٹو کو دفن کرنے کی باری ہے۔ ہنری کسنجر نے اوبامہ کو مشورہ دیا تھا کہ عراق اور افغانستان سے فوج واپس نہ بلائی جائے کیونکہ یوں دنیا بھر میں امریکی مشنز کو نقصانات و خطرات کا سامنا کرنا ہوگا۔ہمیں کسنجر کے نسخے سے نادانی کی خوشبو خار کئے ہوئے ہے۔اوبامہ کی افغان پالیسی ہو یا کسنجر کی شہہ دماغی کابل میں میک کرسٹل کی جگہ ڈیوڈ پیٹریاس ہو یا کابل میںاکیسویں صدی کا کوئی امریکی نہرو یاہٹلر نمودار ہوجائے مگر تلخ حقیقت یہی ہے کہ افغانستان میں امریکی و اتحادی ایسے چوراہے پر پہنچ چکے جسکے چارے راستوں کی منزل ہے ہزیمت و شکست کا قبرستان۔دوسری طرف جولائی میں مجسمہ ازادی کو بوسے دینے والے امریکیوں کو چاہیے کہ وہ محولہ بالہ اعداد و شمار کی روشنی میں یا تو اپنے جنگ باز حاکموں سے ہمیشہ کے لئے گلو خلاصی کروالیں یا پھر تحریر ازادی کے جملے کو ان الفاظ سے تبدیل کرلیں ہم امریکی انسانیت کو وحشت امن کو جنگ و جدال انصاف کو جارہیت شرف ادمیت کو گولہ و بارود سے سسکانے اور تڑپانے کے لئے حاظر ہیں۔اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر اخلاقی ائینی مذہبی اور تہذیبی طور پر امریکیوں کو مجسمہ ازادی کے بوسے لینے کا کوئی حق نہیں۔
 

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved