اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309
 

Email:-m.wajiussama@gmail.com 

Telephone:-         

 

 

تاریخ اشاعت18-01-2010

ڈنگر ڈاکٹر

کالم:۔ محمد وجیہہ السماء


ہمارے ملک عظیم میں سماجی، معاشرتی،مذہبی ، اور پتا نہیں کون کو ن سی بیماریاں پا ئی جا تی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر کو ئی دوسرے کی ٹا نگ کھنچنے کی کو شش میں مگن ہے کوئی کسی پر تہمت لگا رہا ہے تو کوئی کسی کے خلاف بر سر پیکار ہے ہر بندہ خو د کو ”قل آ خر“ سمجھے ہو ئے ہے چا ہے وہ کو ئی سیاسی کھلاڑی ہے یا مذہبی بندہ۔لیڈر ہے یا ایک ورکر خود کو پتا نہیں کیا سمجھا ہو ا ہے
ان کی بے قاعدگیوں کی وجہ سے اور آ پس کی نا اتفاقیوں کی وجہ سے ہمارا ملک 63 سال بعد بھی” پتھر کے دور“ کے منظر پیش کر رہا ہے یہاں پر نام کے ہزاروں محکمے کام کر رہے ہیں مگر حقیقتا ان کا کام ان کے لیئے”زحمت“ بنا ہو ا ہے ان محکموں میں کام کر نے والے اپنا ”مقررہ“ کام کر نا اپنی تو ہین سمجھتے ہیں ،گیس ،بجلی، فون ڈاکٹرز سب خود کو اپنے پیشے سے ”اوپر“ سمجھتے ہیں ان لو گو ں کی وجہ سے جو برائیاں اور معاشی نا ہمواریا ں پیدا ہو رہی ہیں ان کی طرف کسی کی تو جہ نہیںجاتی اور ان کی وجہ سے ہر بندہ کسی نا کسی شعبے کا ”ماسٹر “ بن چکا ہے
ہمارے ملک کی سر زمین کو 4 موسموں کی زمیں کہا جا تا ہے مگر اسے ایسے ہی اسے وقت بے وقت حکمران بھی نصیب ہو ئے جن کی نام نہاد پالسیوں کی وجہ سے ہر محکمے کا بیڑہ غرق ہوا اور آ ج اگر ہم اپنے اردگرد نظر ڈارئیں تو ہر محکمے میں ایک۔۔۔۔
کسی بھی محکمے کو ”کرپشن فری “ یا ”رشوت فری“ نہیں کہہ سکتے
ان اداروں میں ایک محکمہ اور ادارہ محکمہ صحت کا بھی ہے جس کی تا ریخ تو بہت پرا نی ہے مگر اس کی ملکی خد مات کو دیکھتے ہوئے محسوس ہو تا ہے یہ اپنی عمر سے زیادہ کام کر چکا ہے کیونکہ یہ وہ ادارہ ہے جس کا کام اپنے ضلع ، صوبے اور پھر ملک میں موجود ڈاکٹروں کی جا ن پڑتا ل کر نا اور ان کے کلینک / ہسپتال وغیرہ کی مانیٹر نگ کر نا ہے مگر اب یہ محکمہ ہزاروں گھر وں کے چولہے بھی جلا ئے ہو ئے ہے ۔ اور اس محکمے کی و جہ سے ہزاروں گھروں کی دال روٹی چل رہی ہے ۔اور ہزاروں ” ڈنگر ڈاکٹرز“ ان کے زیر سایہ اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
ان ڈنگر جنہیں عر عام میں عطا ئی کہا جا تا ہے ان کی ”دیہا ڑی“ عام طور پر گا ﺅں وغیرہ میں بہت آ رام سے اور اطمینان سے لگتی ہے کو ئی کسی نام سے کلینک چلا رہا ہے تو کسی جگہ محکمہ صحت کی و جہ سے ” ڈاکٹر صاحب“ کئی کئی جگہ پر لو گوں کو زندگیوں سے” نجات“ دلا ر ہے ہوتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہو تے ہیں جنہیں شاید مڈل ، پر ائیمری سے ہی سکول سے بھگا دیا گیاہو تا ہے مگر اب وہ ”ڈاکٹر صاحب“ کے اعلی اور مہذب مقام پر ” تخت نشین“ ہو ئے بیٹھے ہیں
ان ڈنگر ڈاکٹروں کی وجہ سے ہزاروں لو گ مو ت کے منہ میں چلے گئے ہیں اور پتا نہیں اور کتنے گھروں کے چراغ ان کی وجہ سے گل ہو نے ہیں۔ مگر ان لو گوں کے ”نذرانوں“ کی وجہ سے کو ئی بھی ان کی طر ف آ نکھ اٹھا نا اپنا نقصان سمجھتا ہے
پورے پا کستا ن کی طرف نظر ڈوڑائیں تو معلوم ہو تا ہے کہ ڈنگر ڈاکٹر زپورے پا کستان میں لا کھوں کی تعداد میں ہیںاور یہ امید کی جا تی ہے کہ شاید یہ لوگ ایم بی بی ایس ڈاکٹر حضرات سے بھی زیا دہ ہو نگے ۔ اس بات کا اندازہ مقا می ر وزنامے کی ایک رپورٹ دیکھ کر لگا یا جا سکتا ہے کہ انکی تعدا د پاکستان میں کتنی ہو گی۔ یہ ر پورٹ تھوڑا عر صہ پہلے شائع ہو ئی تھی ۔ روزنامہ ”نسبت“ کے مطا بق صرف تحصیل کھا ریاں میں 8ہزار ڈنگر ڈاکٹرا پنی اپنی ذمہ داریاں پوری دیانت داری سے انجام دے رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی آمدن میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیںاور ان کی تعداد دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ تو ایک تحصیل کی بات تھی ضلع کی کیا صورت حال ہو گی ؟؟؟اس کے ساتھ ساتھ پو رے ملک میں ان کا کیا حساب ہو گا۔ اور یہ پورے پاکستان میں کیا کیا گل کھلا ر ہے ہیں۔ ان کی وجہ سے پورے پا کستان میں کو ن کو ن سی بیماریاں عام ہو رہی ہیںیہ ڈنگر ڈاکٹر تو وہ ہیں جو سرنجیں ۔ بار بار استعما ل کر تے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ madician expairy date بھی استعمال کر تے ہیں
س کے ساتھ ساتھ ان ڈ نگر ڈاکٹرو ں کی ماہانہ /سالانہ م منتھلیاں بھی محکمہ صھت کے ساتھ مقرر ہو تی ہیں جو کو ئی زیادہ خدمت کر تا ہے اسے اتنی محبت اور شفقت نصیب ہو تی ہے۔ قیمت کے حساب سے ان کو ”بخش“ دیا جا تا ہے اور کو ئی زیادہ خدمت کر ے تو اسے کسی بھی ہنگامی حالت میں فون بھی کیا جا تا ہے
ان ڈنگر ڈاکٹروں کو بڑھا نے میںایک طرف ہمارا محکمہ صحت دن رات مصروف ہے تو دوسری طرف نام نہا د میڈ یکل کالجزز کو کہ حکومتی سر پر ستی میں چلتے ہیںاور چند” ٹکوں “ کودیکھ کر حکومت ا ن کی فرمابنزار ہو جا تی ہے وہ قصور وارہیںاورا ن نام نہاد میڈیکل کالجزز میں 3000 سے 5000 روپے لگا نے پر گھر بیٹھے ہو میو پیتھک۔ کی ڈگری مل جا تی ہے اور اس کے لئے زیادہ ذلیل بھی نہیں ہو نا پڑ تا۔ یہ کام لاہور میں بہت زور وشور سے سے جاری ہے جس میں یہ ڈگر ی عام میں رہی ہیں
اس کے ساتھ ساتھ ان ڈنگر ڈاکٹروں کو کام کر نے کا موقع دینے والے ہمارے ایم بی بی ایس حضرات بھی ہیں جو ہر مجبور و مظلوم کو بھی اپنی فیس کی سولی پر چڑھا تے ہیں ۔ ان کا فرمان ہو تا ہے پہلے” فیس بعد میں چیک اپ“ ۔ چا ہے ان کے نخروں کی وجہ سے مر یض ان کے سامنے ایڑ یاں رگڑ رگڑ کر مر جا ئے انہیں صرف اپنی فیس سے غر ض ہو تی ہے ”انسان کی قیمت انہیں اپنی فیس سے کم لگتی ہے” اور اس وجہ سے ڈنگر ڈاکٹرز حضرات اپنی دوکانداری چمکائے ہو ئے ہیں
اس کے ساتھ ساتھ ہمارے محکمہ صحت کی کرم نوازی ہے کہ ہمارے ملک میں expairyوالی ادویات انہی ڈاکٹروں کی وجہ سے بھی لوگوں کے پیٹ میں جا رہی ہیں ( انہیں ضائع کر نا بھی تو پیسہ ضائع کر نے کے برابر ہے)
یہ سب ہو تے ہو ئے بھی اب عوام یہ سوال کر تے ہیں ۔کہ اب عوام کس مسیحا کا منہ دیکھیں یا حکومت کو کو سیں یا پھر ڈنگر ڈاکٹروں کے زیر تسلط ہی رہیں؟؟؟ اور ایم بی بی ایس حضرات کے نخروں کی وجہ سے ان ڈنگر ڈاکٹروںکے سامنے ایڑیاں رگڑ رگڑ کرمر جا ئیں؟؟؟
عوام کی نظریں اب بھی اپنے ملک کے بڑوں کی طرف ہےںاور پنجاب کے وزیراعلی جو صحت کی طرف توجہ دیئے ہو ئے ہیں یہ کام ان کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے کہ ایم بی بی ایس کے نخروں کو ختم کروائیں اور اپنی عوام کو بنا تفریق علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کریں یہ ان کا کا عظیم کارنامہ ہو گا اور جو عوام مسیحا کی تلا ش میں ہیں وہ ان کو دوعائیں دیں گے
اس کے ساتھ ساتھ ہماری حکومت اگر اپنی عوام سے اتنا ہی پیار کر تی ہے تو یہ قانون پاس کر ے کہ ہر ایم بی بی ایس تقربیاسال کا چوتھا حصہ ایک گا ﺅں میں گزارے گا۔ چا ہے وہ گور نمنٹ میں ملازم ہے یا پھر پرائیوٹ ۔اور اس پر چیک بیلنس کر نے کے لئے گا ﺅں کے ناظموں ، اور وہاں کے لو گوں کی کمیٹیاں بنا ئی جا ئیں ا ن کمیٹیوں پر کو ئی خرچہ بھی نہیں ہو گا اور کام بھی ہو جا ئے گا۔ ورنہ اگر یہ کام بھی محکمہ صحت کو دیا گیا تو لاکھوں گھروں کا چو لہا ٹھنڈا ہو نے سے بچا رہے گا
 

 

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team