اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 0334-5877586

Email:-m.wajiussama@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔01-10-2010

میں کون ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ محمد وجیہہ السماء


میں آپکو اپنی آپ بیتی سنانا چا ہتا ہوں ۔مجھے 1947ءسے قبل برصضیر کہا جا تا تھا جہاں پر مسلمانوںکو جانوروں سے برتر زندگی میسر تھی بس ان کی زندگی سانس لینا تھا اور انگریزوں او رہندﺅوں کے ظلم کا شکار ہونا ان کی زند گی تھی ہر روز ایک نیا ءظلم ان کا استقبال کرتا۔ کوئی بھی اس کام سے بچتا نہیں تھا اور ہندﺅوں ، انگریز ان باتوںکو انجوائے کرتے جب مسلمان تڑپتے۔ وہ ان سے ہر وہ کام لیتے جو ان کی توہین کر سکتا تھا۔کیونکہ اس علاقے میں مسلمانوں نے پہلے بہت عرصہ حکومت کی تھی او ر انگریز اس بات کو جانتے تھے کہ کچھ بھی ہو جائے مسلمانوں میں حکومت کے خلاف بغاوت ختم نہیں کرسکتے اور مسلمان اپنی کھوئی ہو ئی حکومت واپس لیں گے اور یہ ا ن کے لئے ممکن بھی ہے بس اس وقت ا ن کو کو ئی لیڈرمیسر نہیں تھا۔ جو ان کو کوئی پلیٹ فارم دے اور ان کے مفادات مطالبات حکومت کے سامنے پیش کرے۔ انگریزوں نے ہندﺅوںکو تو ”جیسے تیسے “ساتھ لگا لیا تھا۔ ہندﺅوں کو انھوں نے ایک طرف ملازمتیں دیںتو دوسری طرف انکو جاگیریں دیں تا کہ وہ دل سے انگریزوں کا ساتھ دیں اور یہ علاقہ مسلمانوں پر تنگ کر دیا جائے مگر مسلمانوںمیں حب الوطنی کوٹ کوٹ کربھری تھی۔اور ان میں موجود وہ لوگ ان مظالم کو دیکھ کر کڑتے تھے انھوں نے ایک الگ ملک کو سوچنا شروع کر دیا۔ کیونکہ انگریزوں کی آمد سے قبل مسلمان اس علاقے کے ”بادشاہ “ تھے ہندﺅوں ان کے غلام ۔ مگر انگریزوں کے آتے ہی وہ بھی مسلمانو ں پر ظلم کر نے میں ہر اول دستہ رہے۔ اس کے بعد تو شاید مسلمان پر زمین دن بدن تنگ سے تنگ ہو تی گئی،۔اور مسلمان اپنے مذہب کے مطابق زند گی نہیں گزار سکتے تھے۔چاہے وہ عید کا تہوار ہو۔یا نماز کا وقت۔ گھر میں نا محفوظ تھے نا باہر۔ اور نا ہی ا ن کی مال و جان محفوظ تھی نا ہی عزت و ناموس۔مسلما ن اس گھٹن زدہ ماحول سے فرار ہو نا چاہتے تھے وہ ہر روز کے ظلم وستم سے تنگ آ چکے تھے وہ بغاوت کر رہے تھے ۔ کیونکہ ان کا استحلال ہر بات پہ ہو تا تھا۔ انہیں نے باقاعدہ طو ر پر اس بارے میں کہ آزادی حاصل کی جائے ۔ وہ سرگرم عمل رہے ۔ مگر ان کو کو ئی پلیٹ فارم میسر نا ہو نے کی وجہ سے کو ئی ان کی با ت سننا پسند نہیں کر تا تھا جو بھی آیا اس نے مسلمانوں پہ نئے طریقے سے اپنی دہشت برسائی۔ کانگریس جو خود کو تمام مذاہب کی نمائیدہ جماعت کہتی تھی صرف ہندﺅوںکی جماعت تھی ۔ باقی کسی مذہب کی اسے کو ئی پرواہ نہیں تھی ۔ آخر کار 19 ویں صدی میں اس قوم کو وہ لیڈر مل گئے جس کی ان کو بہت دیر سے تلاش تھی جو حقیقی طور پر ایک الگ ملک کا سوچتے تھے جو مسلمانوں کی دل کی آواز پرغور کرتے تھے اور ان میں کئی ایک نام تھے ۔ جنکو دنیا اس وقت قائداعظم، علامہ اقبال، سرسید،طفر علی خان،رحمت علی خان،اور اس وقت کے لوگ تھے جنکے نام نہیں لکھ سکا۔انہوں نے اپنے لوگوں کی آواز ہر جگہ بلند کی۔ کسی نے پاکستان کا خواب دیکھا تو کسی نے تعبیر، کسی نے نام سوچا تو کسی نے جگہ بیان کی کہ جہاں مسلمان زیادہ ہیں ان کو اکٹھا کر کے ایک الگ ریاست بنا دی جس کو پاکستا ن کا نام دے دیا جائے۔ اس نعرے کے بلند ہوتے ہی جو ظلم وبربریت کا کا بازار کھلا ۔ اس پر جتنی قربانیا ں دی گئی ۔ جتنی عزتین پا مال ہوئیں اس جدوجہد کا 7 سال بعد ثمر مل گیا اور پاکستان اقوام عالم کے نقشے پر وجود میں آ گیا۔میں اب 63سال کا ہو چکا ہوں مگر ابھی تک بہت سے لوگ مجھے ایک ایک کمزور پودا سمجھتے ہیں مگر میں ایک تناور اور مضبوط درخت ہوں اور جو لوگ مجھے ایک کمزور پودا سمجھتے ہیں ان کے لئے چین کی مثال ہی کافی ہے کہ وہ میرے بعد آزاد ہوا مگر اس نے اور اس کی عوام نے دنوں میں ترقی کر کے ثابت کر دیا کہ کمزور پودا بھی جلد ہی” پھل“ دے سکتا ہے اگر اس پر توجہ دی جائے
میں نے ان 63 سالوں میں بہت کچھ دیکھا ۔ میں ایٹمی قوت بھی بنا اور امریکہ کا غلام بھی۔ میں ذہنی طور پر حکمرانوںکی پالسیوںکی وجہ سے آزاد نہیں ہو سکا۔ پتا نہیں وہ امریکہ کو کیا سمجھتے ہیں یا وقت کا خدا سمجھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے میں چل رہا ہوں ۔ حالانکہ مجھے اﷲ اور رسول کے نام پر حاصل کیا گیا ہے ۔ اور اسلام کے مطابق زندگی گزارے کے لئے حاصل کیا ہے۔ مگر اب یہاں روایات بدل گئی ہیں ۔ کو ئی قانون بھی اسلام کے مطابق نہیں بنا گیا ۔ہر کسی نے اپنے فائدے والے قانون بنائے ۔ امیر امیر سے امیر اور غریب غریب سے غریب تر ہوتا گیا، ملک کے لوگوں کو بنیادی سہلولتیں میسر نہیں۔ کسی کو پانی میسر نہی تو کسی کو نوکری نہیں ملتی۔ کسی کو ڈاکٹر تو کسی کو تن ڈھانپنے کے لئے جگہ نہیں ملتی۔ ہر حکمران نے اپنے دور حکومت میں عیا شی کی ۔ ملک کو اپنے آباﺅ ججداد کی جاگیر سمجھا۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved