اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 0334-5877586

Email:-m.wajiussama@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔06-12-2010

مجھے ٹھیکہ چا ہیئے
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ محمد وجیہہ السماء

بیس پچیس برس پہلے کی بات ہے جب پاکستان کے لوگ اچھے روزگار کے سلسلہ میں یورپ جایا کر تے تھے جن میں جرمن کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی ہوا کچھ یوں کہ پاکستانی لوگوں نے جیسے ممکن ہوسکا سیاسی پناہ حاصل کی اور پھر وہیں روزگارحاصل کر لیا ان پاکستانیوں میں کچھ ایسے افراد بھی شامل تھے جو ان دنوں سخت سردی ہونے کی وجہ سے کام کے سلسلے میں جرمن سے بھی آگے کسی ملک جانا چا ہتے تھے لیکن بارڈرکراس کرنے سے پہلے ہی گرفتار ہو گئے جنہیں ہٹلر کے زمانے میں بنا ئے گئے گھوڑوں کے اصطبل میں قید کیا گیا اس اصطبل کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں بیک وقت اسی 80))سے زائد چار پائیاں تھیں اور ہر چار پا ئی کے درمیان تین فٹ کا فاصلہ تھا۔ خیر جب پاکستانیو ں کی گرفتاری عمل میں آ ئی تو انہیں پاکستان واپس بھیجنے کے احکامات جا ری کئے گئے تو ان لوگوں کو ائیر پورٹ پر بذریعہ بس وغیرہ پر روانہ کیا گیا تو سارجنٹ سے کسی نے پوچھا کہ آپ ہمیں بذریعہ ٹرین یا بذریعہ ہوائی جہاز میں روانہ کیوں نہیں کیا تو سار جنٹ نے کہا کہ شاید اس لئے کہ آپ جرمن ملک کو دیکھ لیں کہ ا س نے کتنی اور کیسے ترقی کی ہے خیر جب ائیر پورٹ قریب آ یا تو اس وقت تک تمام پاکستانیوں نے مل کر ایک خطیر رقم کی سارجنٹ کو آفر کی کہ ہمیں واپس پاکستان بھیجنے کی بجا ئے کسی اور ملک یا کم از کم جرمن میں ہی رہنے دے ۔سارجنٹ نے رشوت لینے سے قبل ان تمام افراد کو اپنی جیب سے ایک ڈائری نکال کر دی اور کہا اسے غور سے پڑھو۔جب وہ لوگ ڈائری وصول کر کے پڑھنے لگے تو صفحے ادھر ادھر کر کے سا رجنٹ سے کہنے لگے کہ اس میں تو کچھ نہیں لکھا ہوا سا رجنٹ نے انہیں دوبارہ غور سے پڑھنے کےلئے کہا تو وہ لوگ دوبارہ ڈائری دیکھنے کے بعد بولے کہ اس میں تو کچھ نہیں لکھا ہوا تو سار جنٹ بولا کہ جس طرح اس ڈائری کا ایک بھی صفحہ سیاہ نہیں ہے اسی طرح جو میں نے وردی پہن رکھی ہے اس پر بھی غلط کام کا یا رشوت کاایک دھبہ نہیں ہے۔یہ سننا تھا کہ سب کے پاﺅں تلے سے زمین نکل گئی اور تمام افراد نے شرمندہ ہو کر رشوت کے لئے اکٹھی کی گئی رقم واپس اپنی اپنی جیبوں میں ڈال لی اور چپ چاپ ائیر پورٹ سے اپنے ملک واپس آ گئے ان میں سے آ ج بھی بعض لوگوں کو سار جنٹ والی بات حرف بہ حرف اسی طرح یاد ہے جیسے یہ سالوں کا نہیں بلکہ چند لمحے پہلے کی بات ہو۔
لیکن جب ہم اپنے سیاستدانوں (عوامی خدمتگاروں و ”جمہوری ٹھیکیداروں“)کی طرف دیکھتے ہیںتو ان اور ان کے قریب رہنے والوں کی نظریں ہر وقت قومی خزانے کی طر ف اٹھی رہتی ہیں کہ کہا ں سے کو ئی تر قیاتی کاموں کے لئے فنڈز نکل سکتے ہیں ۔ اس کے لئے سب سے پہلے سیاست دانوں سے رابطہ کیا جا تا ہے کہ جنا ب! ہمیں بھی ایک عدد چھوٹا موٹا ٹھیکہ دے دیجئے / دلا دیجئے۔ ”بھوکے مر رہے ہیں“ اور سیاستدان ان کی طرف دیکھنے کی بجا ئے اپنے آئندہ آ نے والے الیکشن کی طرف دیکھ رہے ہو تے ہیں اور وہ ان لوگوں کو ٹھیکہ دلا دیتے ہیں ۔اور پھر ا س ٹھیکے میں کیا ہو تا ہے یا کیا ہو گا یہ بات سب ہی مجھ سے بہت بہتر جا نتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ایک سڑک کے بنا نے کی مثال لے لیں ۔جس میں اکھاڑی ہو ئی پرانی اینٹیں دوبارہ لگا دی جا تی ہیں، ریت جس میں برائے نام سیمنٹ ،باریک پین بجری کی بجا ئے ایک انچ والی بجری کے (ڈی پی سی) اور چا ر انچ موٹی ٹائل کےبجائے سوادو انچ والی ٹف ٹا ئل جس پر سے ہر وقت چھوٹی بڑی گاڑیاں گزرنی ہو تی ہیں۔لگا دی جا تی ہیں
یہی نہیں بلکہ ایس ڈی او،اوورسیز، ٹی ایم او، ڈی ڈی او آ ر ، اس کے علاوہ بھی جتنے افسران بالا ان کی خا موشی ، سیا ستدانوں ”چھوڑویار اسے بھی بال و بچوں کی روزی کمانے دو“، یہ سب باتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن عوامی حلقے آج بھی کسی مسیحا کی تلاش میں ہیں کہ وہ آ ئے اور صرف دیکھ بھال پر خرچ ہو نے والے فنڈز کی بجا ئے نئی تعمیرات پر زور دے آ ج بھی ملک پاکستان کے ایسے پرائمری سکولز ہیں جو سو سال بعد بھی پرائمری ہی ہیں اس میں موجود کمروں کی تعداد آ ج بھی اتنی ہی ہے جو سو سال پہلے تھی اور ان سب فنڈز کو ضا ئع ہو نے کی بجا ئے چیف جسٹس سپریم کور ٹ آف پاکستان جناب افتخار محمد چو ہدری سوموٹو ایکشن لے کر ان تما م ٹھیکیداروں کے کوا ئف چیک کروائیں جس طرح جعلی ڈگری ہو لڈز کی اسناد چیک کی گئیں کیو نکہ آ ج بھی انجینئرنگ کے ڈگری ہو لڈز دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور انڈر میٹرک ملک پاکستان کے ”ٹھیکیدار“بنے ہو ئے ہیں ان کی ڈگری ہی نہیں بلکہ ان کے اثا ثہ جات بھی چیک کئے جا ئیں جو نا جا ئز کما ئی سے لاکھو ں نہیں بلکہ کروڑوںکے ہو چکے ہیں ۔ چیف جسٹس صاحب قومی اسمبلی کو بھی سفارشات بھیجیں کہ ٹھیکیدار بننے کے لئے کم از کم بی اے کی ڈگری اور انجینئر نگ کی ڈگری ہو نا لا زمی قرار دی جا ئے ۔کیو نکہ اگر ہماری قومی و صوبا ئی اسمبلیوں میں پڑ ھے لکھے افراد کے لئے قا نون سا زی کی جا ئے تو ہمارا ملک سالوں کا سفر مہینوں میں طے کر نے کے قا بل ہو سکتا ہے وگرنہ قوی و صوبا ئی اسمبلیوں نے تو پہلے ہی الیکشن لڑ نے کے لئے بی اے کی شرط ختم کر دی ہے
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved