اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 0334-5877586

Email:-m.wajiussama@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔07-04-2011

ہم کہا ں کھڑے ہیں؟؟
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد وجیہہ السماء
دنیا میں وہی قومیں عروج حا صل کر تی ہیں جو ترقی کے زینے پار کر تے ہو ئے اپنی عوام اور آنے والی نسل کےلئے کچھ نہ کچھ کر تی ہیں چا ہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم اس با ت سے کو ئی فر ق نہیں پڑتا۔ یوں تو قوموں کی تاریخ مختلف مثالوں سے بھری پڑی ہے لیکن حال ہی میں قوموں کے عروج کا معیار حالیہ آنے والے جا پا نی زلزلے کے بعد دنیا پر ظاہر ہوا اور حقیقت میں جس کا تصور ایک عظیم قوم کے طور پر ہو سکتا ہے اس زلزے نے جہاں ہزاروں لوگوں کو مو ت کی ابدی نیند سلا دیا وہیں ایک منظم، ہنر مند اور اخلا ق یا فتہ قوم کا وہ چھپا ہوا چہرہ بھی دکھا دیا ہے جو کہ آ پس کے مضبو ط تعلقات اور غیر وں کےلئے جھولی کھلی رکھنے کاا ہتما م تھا۔ اس زلز لے میں تمام جاپانیوں نے اپنی خودداری، عظمت اور ترقی کو رکنے نہیںدیا اور نہ ہی دیگر ممالک خاص کر تیسری دنیا کے ممالک کی طرح دوسروں کی طرف دیکھا بلکہ ہر ایک نے اپنے اپنے حصے کا کام بھر پور طریقے سے انجام دے کر یہ ثابت کر دیا کہ 1945ءکے اندوہناک واقعے سے متاثر ہونے والا جاپان جو ایٹم بموں کے نتیجے میں نیست و نابود ہونے کے بعد بھی ڈگمگا نہ سکا وہ 2011ءکے زلزلے اور سونامی کے بعد بھی اسی رفتار سے ترقی کی را ہیں ہموار کر رہا ہے‘ جس طرح چند دن پہلے کر رہا تھا ۔ اس زلزلے میں جس بھا ئی چارے کا ثبوت دیا ہے وہ انگلیوں پر گنی چنی قو موں کا شیوہ ہے اس سونامی میں چھوٹے چھوٹے دکانداروں سے لے کر بڑے بڑے سٹور وں نے اور عام لو گوں نے اپنے اپنے گھروں سے ضروری سامان نکال کر سڑکوں پر رکھ دیا اور سا تھ بکس بنا کر یہ لکھ دیا کہ” اگر کو ئی ان چیزوں کی جتنی قیمت دے سکتا ہے تو بخو شی دےدے اور جس کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ لے جائے “ جاپانی عوام کے اس بے لوث اقدام کے نتیجے میں اس کام سے (امدادسے) 50 لاکھ سے زائد لوگوں کی مدد ہو ئی جو آج واپس اپنے اپنے گھروں کو جاچکے ہیں۔ اسی طرح جا پان کے ہنر مند افراد نے متاثرہ افراد کو مدد پہنچانے اور ڈاکٹروں نے بیماروں کا علاج خود ہی شروع کر دیا۔ اسی طرح وہاں کے مزدور اور انجینئرز نے اپنے ملک کا خود پر قر ض سمجھتے ہوئے پلوں، ٹیلی فون لائنوں اور با قی ضروریات زندگی کو ٹھیک کر نے میں بغیر کسی ذاتی مفاد کے مصروف عمل ہو گئے۔ یہ ہے ایک عظیم قوم کی کہانی جس نے تاریخ کے اوراق پر سنہری حروف میں اپنا نام رقم کر دیا ہے۔ اسی طرح چلی میں ہو نے والے واقعے میں کان کنوں کے صبر اور وہاں کی حکو مت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو احساس ذمہ داری کی بے پایاں مثال سامنے آتی ہے چلی کے وزیر اعظم صاحب خود وہاں اس وقت تک موجود رہے جب تک متاثرہ کان سے تمام کان کنوں کو بحفاظت باہر نہیں نکالا گیا۔ اس سلسلے میں چلی کی حکومت نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا اور تمام مشینری کو ان کان کنوں کی بخیریت واپسی کیلئے استعمال کیا۔ سلام ہو ان تمام قوموں پر جنہوں نے ہوس، لا لچ، کرپشن ، رشوت اور با قی تمام اخلاقی بیما ریوں کو اپنے اپنے ملکوں کی عوام سے دور رکھا اور آ ج بھی وہاں کے لیڈرز کو ان کی عوام ایسے ہی پسند کرتی ہے جیسے پہلے کر تی تھی۔ ابھی ان با توں کی دھول بیٹھنے نہ پا ئی تھی کہ پاکستان میں کا ن کنوں کے کام کر تے ہو ئے کان میں دھما کے کی خبریں آ نے لگیں اس دلخراش واقعے میں 40 سے زائد افراد وفات پاچکے ہیں اور ان کی لا شوں کو بھی باہر نکال لیا گیا ہے‘ مگر حیرانی اس بات پر ہے کہ یہاں بھی بیان بازی شروع کر دی گئی اور بجا ئے وہاں کسی حکومتی عہدیدار کے جا نے کے پوا ئنٹ سکو رننگ پر کام شروع کر دیا ہے جب کہ زندہ قوموں کے صدور و وزیراعظم ان جگہوں پر تب تک رہتے ہیں جب تک تمام لوگ صحیح سلا مت با ہر نہ آ جا ئیں مگر ہمارے ملک میں سکیورٹی کا زیادہ خیال رکھا جا تا ہے اور اس وجہ سے غریب اور محنت کشوں کےلئے صرف ”ووٹوں کے دن“ ”خدمت کے دن “مختص کر دیئے جا تے ہیں۔ اس بات سے یہی سوال ہر کسی کے دل میں آ تا ہے کہ ”ہم کہاں کھڑے ہیں“ کیونکہ ہم میں ایسی کو ئی صفت موجود نہیں جو عظیم قوموں کی ہوتی ہے۔ ہمیں اب بھی اجتماعی طور پر کوشش کرنی ہوگی کہ خود کو بدلا جا ئے کیونکہ ایک مچھلی ہی سارے تالاب کو گندہ کر تی ہے۔ اپنے ملک کے حالات کے پیش نظر ہمیں باہمی تعلقات کو مظبوط اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر پاکستان کو ایک عظیم مملکت خداداد بنانا ہوگا۔ اگر ہم اسلام کے اصولوں کے مطابق اپنی خواہشات کو کنٹرول کرلیں اور دوسروں کو اپنی اشیاءدے کر ان کی کمی پوری کردیں تو امید ہے آئندہ آنے والے کسی بڑے سے بڑے سا نحے میں پاکستان کو کسی بھی ملک کی جانب نہیں دیکھنا پڑے گا۔ بس شرط یہ ہے کہ ہمیں خود کو اسلام کے مطابق ڈھالنا ہوگا اور کفا یت شعاری کی عادت کو حکومتی و عوامی سطح پر اپنانا ہوگا۔٭
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved