اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 اردو پاور کے لیے اپنی تحریر     اس ای میل ایڈریس پر روانہ کریں

Email:-ceditor@inbox.com.......... Email:-Jawwab@gmail.com

 
 
 
تاریخ اشاعت:2010-02-16

مرد بھی خواتین کی طرح سوچتے ہیں

اگر آپ مرد ہیں تو ضروری نہیں کہ آپ کا دماغ بھی مردوں جیسا ہو یا اگر آپ خاتون ہیں تو بھی یہ ضروری نہیں کہ آپ کی سوچ نسوانی ہو۔ جی ہاں برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے محققین کے سروے میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا کا ہر پانچواں مرد خاتون کی طرح سوچتا ہے جبکہ ہر دسویں خاتون کا دماغ مردوں جیسا ہوتا ہے۔ ان سائنسدانوں کے مطابق مردوں میں نسوانی دماغ کی موجودگی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وہ فیشن کی جانب مائل ہوگا اور اپنی معشوقہ کے بارے میں اپنے پیار کا برملا اظہار کرنے سے بھی نہیں ہچکچائے گا۔ دوسری جانب اگر کوئی خاتون علم ریاضیات میں دلچسپی اور تجزیاتی ذہنیت رکھتی ہے تو یہ اس بات کی پہچان ہے کہ اس کا دماغ مردوں جیسا ہے۔ اس تحقیق میں ماہرین نے پایا کہ مردوں کا دماغ تجزیاتی رحجان کا حامل تھا جبکہ عورتوں کا دماغ تخلیقی کاموں کے وقت زیادہ متحرک ہوتا ہے۔ چونکہ انسانی دماغ اس کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے ماہرین کہتے ہیں کہ اس تازہ تحقیق سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری شخصیت کا فیصلہ پیدائش سے پہلے ہو چکا ہوتا ہے۔ کیمبرج یونیورسیٹی کے پروفیسر سائمن بیرون کوہین نے کہا ان کے اس انکشاف سے سکول اساتذہ کو بے حد مدد ملے گی کیوں کہ انہیں اب یہ پتہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم فراہم کرتے وقت مختلف پیمانے استعمال کرنا ان بچوں کے حق میں زیادہ بہتر ہوگا۔ مختلف پیمانے اس لئے کہ ان کے دماغ اور سوچنے کا انداز نمایاں طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
دلکش خاتون کے روپ میں خطرناک کمپیوٹر وائرس
 انٹرنیٹ کی سکیورٹی پر نظر رکھنے والے ماہرین نےاکیلےانٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کو خبردار کیا ہے کہ فیمبٹ نامی وائرس ان کے کمپیوٹر کو خراب کر سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فیمبٹ نامی وائرس خود کو خاتون ظاہر کرتا ہے اور فوری طور پر پیغام کے ذریعے بات چیت کرنا چاہتا ہے اور اس دوران صارف کے کمپیوٹر کو خراب کر سکتا ہے۔ سکیورٹی ماہرین کے مطابق صارفین کو اس بات پر راضی کیا جاتا ہے کہ وہ ذاتی معلومات ظاہر کریں جس کے ذریعے انہیں دھوکا دیا جا سکے۔ یہ وائرس پہلی بار سنہ 2007 میں سامنے آیا تھا مگر اس کے بعد اسے زیادہ نہیں دیکھا گیا۔ پی سی ٹولز کے رچرڈ کلوک کے مطابق فیمبٹ نامی وائرس اس بار پہلے سے بھی زیادہ دلکش روپ اختیار کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق یہ وائرس بات چیت کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات کو بدل سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ وائرس انٹرنیٹ صارفین کو ایک ایسی ویب سائٹ پر کلک کرنے کا کہتا ہے جس کے ذریعے وہ صارفین کے کریڈٹ کارڈ کی تفصیلات حاصل کر سکتا ہے۔ سنہ 2007 میں ایک روسی کمپنی سائیبر لور نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ایک ایسا سافٹ ویئر تیار کر لیا ہے جو خود کو مخالف جنس کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔ دوسری جانب ایسی کوئی اطلاع نہیں جس سے ثابت ہو سکے کہ سائیبر لور سافٹ ویئر انٹر نیٹ پر جرم میں ملوث ہو۔
یورپ میں پتھر دور کے انسان آدم خور تھے، ماہرین
 آثار قدیمہ کے ماہرین کو جنوب مغربی جرمنی میں دریافت ہونے والی سات ہزار سال قدیم انسانی باقیات سے آدم خوری کے شواہد ملے ہیں۔ ماہرین کی یہ رپورٹ آثار قدیمہ کے جرنل اینٹیکیوٹی رپورٹس میں جاری ہوئی ہے۔ ماہرین کے مطابق ان کی دریافت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یورپ میں پتھر کے دور کے آغاز میں آدم خور موجود تھے۔ جرمنی کے ایک گاؤں ہرایکسیم سے دریافت ہونے والی پانچ سو انسانی کی باقیات کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ آدم خوری کا نشانہ بنے ہوں۔ ماہرین کے مطابق انسانی جسموں کو جان بوجھ کر کاٹا گیا تھا جبکہ ان باقیات میں بچے بھی شامل تھے۔ ماہرین کے ٹیم کے سربراہ برؤنو بولیسٹن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انسانی باقیات سے حاصل ہونے والے شواہد کے مطابق ہڈیوں کو جان بوجھ کر توڑا اور کاٹا گیا ہے جو آدم خوری کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ’جانوروں کی ہڈیوں سے حاصل ہونے والے نمونے کے مطابق انھیں روسٹ ( بھونا) کیا گیا تھا جب کہ انھیں انسانی ہڈیوں سے بھی بلکل ایسے ہی نمونے حاصل ہوئے ہیں۔‘ لیکن ڈاکٹر برؤنو نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس بات کو ثابت کرنا بہت مشکل ہے کہ انسانی ہڈیوں کو جان بوجھ کر روسٹ کیا گیا تھا۔ دوسری جانب کچھ ماہرین نے آدم خوری کے مفروضے کو رد کرتے ہوئے رائے دی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت انسانی جسم سے گوشت الگ کرنا دفنانے کی ایک رسم ہو۔ اس جگہ کی پہلے سنہ 1996 میں کھدائی کی گئی اور بعد میں سنہ 2005 اور 2008 میں مزید باقیات دریافت کی گئیں۔
 

 

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team