اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-                                                            iqbal-janjua@gmail.com    

Telephone:-       

 

 

 

تاریخ اشاعت19-03-2010

حضرت فاطمة الزہراء

 

رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اکلوتی بیٹی ، پر عظمت بیٹی ، معصومہ بیٹی جس کی رضا خدا کی رضا، جس کی ناراضگی خدا کی ناراضگی، باپ کا میوہ ٴدل، جس کے متعلق حضور کا فرمان ۔ فاطمہ ہی ام ابیہا ۔ بغقہ منی میرا ٹکڑا۔مھجة قلبی۔ دل کا ٹکڑا ۔ جس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے اپنی مسند پر بٹھاتے تھے۔ حضرت مریم علیہا السلام کی عظمت و طہارة قرآن میں مذکور ۔ جناب فاطمہ زہراء کی عظمت کا ذکر قرآن مجید کر رہا ہے، سیدہ زاہراء سلام علیہا کو قرآن نے مصطفی (فاطر۔۳۲) مرتضیٰ (جن،۲۷) مجتبیٰ (آل عمر ان :۱۷۰) اور پھر اذہاب رجس اور یطرکم تطہیرا سے نوازا گیا(احزاب :۳۳)۔ فاطمہ زہرا ، ان کے شوہر اوران کی اولاد کی محبت اجرر سالت قرار پائی۔ (شوریٰ ۲۳) نصاریٰ نجران کے مقابل میں مباہلہ میں شرکت۔ اَلْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلَاتَکُنْ مِّنْ الْمُمْتَرِینَ فَمَنْ حَاجَّکَ فِیْہِ مِنْ م بَعْدِمَا جَائَکَ مِّنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُم ْوَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَةَ اللہ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ (آل عمران ۶۱) زہرا ،حسین و زینب کبری کی ماں جنہوں نے جان و چادر دیکر اسلام کو زندہٴ و جاوید بنا دیا۔ فدک کی مالک فاطمہ ، دربار میں خطبہ دینے والی فاطمہ ، پانی جس کا حق مہر فاطمہ ، جس کی تزویج پہلے عرش عُلیٰ پر پھر زمین پرہوئی ۔ فاطمہ ، بس فاطمہ ۔ فاطمہ ،فاطمہ ہی ہے، فاطمہ و اولاد فاطمہ اللہ کے محبو ب۔ جان کا نذرانہ پیش کرنے والے۔ جنہوں نے بچے دئیے ، بھتیجے دئیے، بھانجے دئیے، بھائی دئیے، اصحاب و انصار دئیے ، جان کا نذرانہ پیش کیا۔ چادر دی، ہتکڑیاں و طوق پہنے جن کے ہاتھ پس پشت باندھے گئے۔ سیدانیوں کو درباروں ، بازاروں میں پھرایا گیا۔ سب کچھ برداشت ، سب کچھ قبول۔کیوں؟ اسلام بچ جائے۔ انسانیت کی عظمت محفوظ رہے۔ انسانیت کی محافظ ، فاطمہ بنت فاطمہ ، اولاد فاطمہ ۔ زینب (عورت) کی عظمت کہ حسین کے کارنامہ کو بازاروں ، درباروں میں خطبہ دے کے واضح و آشکار کیا۔ جب بھی عورت کی عظمت میں تذبذب ، شک ہو تو زینب ، رباب ، ام لیلیٰ ، کلثوم ، سکینہ کے کارنامے دیکھ لیا کرو۔ گردن جھک جائے گی۔ مرد قوام علی النساء۔ لیکن فاطمہ فاطمہ ہے۔ زینب زینب ہے۔ ان کی برابری کیسے ہو؟ عورت بیٹی ، زوجہ ، والدہ بیٹی اللہ کی طرف سے رحمت اوربیٹا نعمت ہے ۔نعمت سے رحمت کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے رحمت ہی سے نظام چل رہاہے ۔ باران رحمت انسانی زندگی کے لیے عظیم تحفہ ہے بہرحال قرآن رحمت رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )رحمت ، رحمت جباریت و قہاریت سے زیادہ وسیع ہے اور بیٹی بھی رحمت۔ جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے : إِذْ قَالَتِ امْرَأةُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ فَلَمَّا وَضَعَتْہَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ وَضَعْتُہَا أُنْثٰی وَاللہ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالْأُنْثٰی وَإِنِّیْ مَّیْتُہَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیْذُہَا بِکَ وَذُرِّیَّتَہَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَّأَنْبَتَہَا نَبَاتًا حَسَنًا وَّکَفَّلَہَا زَکَرِیَّا کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْہَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَہَا رِزْقًا قَالَ یَامَرْیَمُ أَنّٰی لَکِ ہَذَا قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللہ إِنَّ اللہ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ "(اور وہ وقت یاد کرو) جب عمران کی عورت نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے شکم میں ہے اسے تیری نذر کرتی ہوں وہ اورباتوں سے آزاد ہوگاتو میری طرف سے قبول فرما بے شک تو بڑا سننے والا۔ جاننے والا ہے ۔ پھر جب اسے جن چکی تو کہنے لگی، مالک۔ میں نے تو بیٹی جنی ہے ۔ اللہ کے بارے میں بہتر جانتا ہے کہ جو اس (مادر مریم )نے جنا ۔ اور بیٹا اس بیٹی جیسا نہیں ہو سکتا اور میں نے اس (بیٹی)کا نام مریم رکھا ہے اور میں اسے اور اسکی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں چنانچہ اسکے رب نے اسکی نذر (لڑکی) کو بوجہ احسن قبول کیا اوار اس کی بہترین نشوونما کا اہتمام کیااور زکریا کو اس کا سر پر ست بنادیا جب زکریا اس کے حجرہ عبادت میں آتے تو اسکے پاس طعام موجود پاتے پوچھا اے مریم یہ (کھانا) تمہارے پاس کہاں سے آتاہے ۔ وہ کہتی اللہ کے ہاں سے ۔ بے شک خدا جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتاہے ۔" )سورہ آل عمران آیت نمبر ۳۵۔۳۶۔۳۷۔( عام طور پر نذر لڑکوں کی ہوتی ہے ادر مریم بھی پریشان ہوئی لیکن اللہ نے اس کی نذر کو بوجہ احسن قبول فرمایا ارشا د ہو ایس الذکر کالانثی یعنی لڑکا ،لڑکی جیسا نہیں ہو سکتا معلوم ہوا کہ بیٹی کی اہمیت اس کا م میں بھی (جس کی نذر کی تھی)بیٹے سے کم نہیں ہے کہ جسے بوجہ احسن قبول فرمایا گیا ۔ پھر جب زکریاجیسے نبی ہی کھانا و طعام ملاحظہ فرماتے ہیں تواللہ کی طرف سے ان نعمات کی آمد پر شکر بجالاتے ۔ بیٹی کی عظمت کی دلیل بیٹی کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ خدا نے رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو بیٹی ہی دی ۔ صرف ایک بیٹی ۔ لیکن وہ اس عظمت کی مالک کہ جب تشریف لاتیں تورسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بنفس نفیس تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے ۔ جب ارشاد رب العزب ہوا: وآتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّہ۔ "قریبی رشتہ داروں کو انکا حق دیا کرو۔" (بنی اسرائیل:۲۶) تب رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے جناب فاطمہ الزہرا کو فدک دے دیا ۔ الدر المنثور جلد ۴ ص ۳۲۰ روایت حضرت ابن عباس ۔ اسی طرح ارشاد رب العزت ہے: قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی "کہہ دیجیے کہ میں اس تبلیغ پر کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اپنے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے۔" ( سورہٴ شوریٰ: ۲۳ ) اس آیت میں بھی قربت کا محور جناب سیدہ ہیں۔ مزید ارشاد رب العزت ہے: إِنَّمَا یُرِیْدُ اللہ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا۔ "اے اہل بیت اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ ہر طرح کی ناپاکی کو آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسا پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔ "( سورہ ٴاحزاب: ۳۳ ) آیت تطہیر کا محور بھی جناب سیدہ دختر رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہیں چنانچہ وقت تعارف کہا گیا ہے ہم فاطمة وابوھا وبعلھا وبنوھا یعنی مرکز تعارف بیٹی ہی بن رہی ہے ۔ عورت( بیٹی) کا مقام سیدہ زینب بنت علی کیوں نہ ایک اور بیٹی کاذکر بھی کر دیا جائے جس نے باپ کے زانو پر بیٹھے ہوئے پوچھا تھابابا آپ کو ہم سے محبت ہے ۔ حضرت نے فرمایا تھا جی ہاں عرض کی یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ سے محبت بھی ہو اور بیٹی سے محبت بھی ہو پھر خود کہا ہاں ۔ اللہ سے محبت۔ بیٹی اوراولاد پر شفقت ہے ۔ کیا کہنا عظمتِ ثانی زہرا ء ۔ کیا شان ہے دختر مرتضی کی جس نے اپنے خطبات سے اسلام کو زندہ وپائندہ بنادیا ۔ حق کوروز روشن کی طرح پوری دنیا کے سامنے واضح کیا کہ حسین ۔باغی نہیں نواسہ ٴرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہے بہرحال تم بیٹی یعنی عورت کو کم درجہ کی مخلوق نہ سمجھو مرد کے کام کی تکمیل عورت ہی کرتی ہے عورت و مرد کا کوئی فرق نہیں ہے۔ معیار ِتفاضل صرف تقویٰ اور ارتباط بہ خداہے۔ عورت …زوجہ شادی اورتزویج فطرت کی تکمیل ہے ۔ حدیث میں ہے کہ شادی کے بغیر مرد کادین آدھاہے تزویج سے اسکے دین کی تکمیل ہو گی ۔ بعض روایات میں غیر شادی شدہ مرد کو بد ترین کہا گیاہے ارشاد ہوتا ہے ۔ شرا ء کم عزابکم تم میں سے بد ترین افراد غیر شادی شدہ ہیں۔(تفسیر مجمع البیان ) شادی ہی سے اجتماعیت کا تصور پید ا ہوتا ہے اس وقت انسان خود سے ہٹ کر سوچنے کاسلسلہ شروع کرتا ہے ۔قرآن مجید نے دعاکی تلقین کی ہے اے انسان یہ دعا طلب کیاکر : رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْیُنٍ "پرودگار ہماری ازواج او رہماری اولا دسے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرما ۔" (سورہ فرقان : ۷۴) ارشاد رب العزت ہے: وَأَنْکِحُوْا الْأَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ إِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَاءَ یُغْنِہِمُ اللہ مِنْ فَضْلِہ وَاللہ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ "تم میں سے جو لوگ بے نکاح ہوں ۔ اور تمہارے غلاموں کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کردو اگروہ نادار ہو ں تواللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر د ے گا او راللہ بڑا وسعت والا علم والا ہے۔" (سورہ نور:۳۲) انسانیت کی بقا کے لیے سلسلہ تناسل کا جاری رہنا ضروری ہے سلسلہ تناسل کے لیے عورت اسکا لازمی جز وہے ۔انسانیت کی بقا ء مرد و عورت دونو ں کی مرہون منت ہے مرد کی طرح عورت بھی اہمیت رکھتی ہے۔عورت کاوجود لازمی او رضروری ہے۔ اس لیے حکم دیاگیاکہ بے نکاح لوگوں کے نکاح کرو یعنی ایسے اسباب مہیا کرو کہ ان کی شادی ہو سکے نکاح کے اسباب وسائل مہیا کرو تا کہ صالح مرد او ر صالحہ عورتوں کے ملاپ سے انسانیت کی بقاء ہو ۔ بہرحال اسلام نے بہترین توازن پیدا کیا اورایسا نظام دیا جس میں ان دونوں کی عزت ،عظمت اور اہمیت ظاہرر ہے۔ خطبہ طلب زوجہ بھی (شادی کرنے کی خواہش کا اظہار)مرد کی طرف سے ہے برات مرد کی طرف سے ہے لیکن برأت کے آنے سے نکاح کا صیغہ عورت کی طرف سے ہوگا ۔گویا عورت برات کا استقبال کررہی ہے ۔ ایجاب عورت کی طرف سے ہو رہا ہے۔ اب اس عزت واحترام کے ساتھ عورت کاورود مرد کے گھرمیں ہوتا ہے تاکہ عورت (زوجہ ) کی اہمیت واضح ہو جائے ۔ مرد سمجھے کہ کسی نے اپنے جگر کا ٹکڑا اس کے پاس امانت کے طور پر رکھوایا ہے ۔ اسی لیے تو اس لڑکی کا باپ یہ کہہ رہا ہوتاہے کہ میری امانت آپ کے حوالے ہے ۔
 

اجتماعی نظام

تحریر:مولانا عبدالغفار حسن عمرپوری  

ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب سفر میں تین آدمی ہوں تو ان میں سے ایک کو امیر بنا لیا جائے۔ تشریح: اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ جب سفر جیسی عارضی حالت میں بھی

جماعتی نظام قائم کرنے کی تاکید کی گئی ہے تو حضر کی صورت میں بدرجہ اولیٰ جماعتی نظام اور و امارات کی تشکیل واجب ہو جاتی ہے اسی کی تائید ایک دوسرے روایت سے ہوتی ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ اگر کسی جنگل فلاة میں تین آدمی ہوں تو ان میں سے ایک کو امیر بنا لیا جائے۔

التزام جماعت

373۔ ابوالدردائؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی جنگل یا بستی میں تین آدمی رہتے ہوں اور پھر وہ (اجتماعی طور پر) نماز کا اہتمام نہ کریں تو لازماً ان پر شیطان مسلط ہو کر رہے گا۔ (سنو!) جماعت سے وابستہ رہو ورنہ تمہارا حشر وہی ہو گا جو ریوڑ سے رہنے والی بھیڑ کا ہوتا ہے

بھیڑیا اسے ہڑپ کر جاتا ہے۔ تشریح: باطل اور فسق و فجور کی طاقتیں متحد اور ان کے باقاعدہ منظم جتھے قائم ہیں، ان کا زور توڑنے کیلئے ضروری ہے کہ اہل حق اور اصحاب تقویٰ بھی منظم اور متحد ہوں۔ اس لیے کتاب و سنت میں جماعتی زندگی اختیار کرنے کی بار بار تاکید آئی ہے۔ بلکہ تقویٰ کی بنیادوں پر قائم ”الجماعہ“ سے خروج کو ارتداد کا ہم معنی قرار دیا ہے۔

اجتماعی نظام کی اہمیت

374۔ ”حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” مسلمانو! ہر نیک یا بد امیر کی رہنمائی میں خواہ وہ کبائر کا ارتکاب کرتا ہو، تم پر جہاد فرض ہے۔ ہر نیک یا بد مسلمان کے پیچھے خواہ وہ کبائر کا مرتکب ہو، نماز ادا کر لینا واجب ہے، ہر نیک یا بد کی نماز جنازہ ادا کرنا، خواہ وہ کبائر میں مبتلا ہو، ضروری ہے“۔ تشریح: اس روایت سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔

(2)۔ امام نیک ہو یا فاسق وفاجر ہر ایک کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب کہ امام یا امیر پہلے سے بنا ہوا ہے یا زور وقت سے مسلط ہو گیا ہے، ویسے عام حالات میں جب کہ مسلمانوں کو اپنا امیر یا امام منتخب کرنے کا موقع ملے، تو انہیں اپنے میں سے اخلاق و تقویٰ کے لحاظ سے بہتر آدمی چلنا چاہیے جیسا کہ حدیث میں ہے۔

(3) کوئی مسلمان کتنا ہی بدعمل ہو اس کی نماز جنازہ ادا کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ ہاں اگر کوئی شخص بری طرح بدنام ہو یا اس نے ایسا کام کیا ہو جس سے حقوق العباد پر زد پڑتی ہوتو عوام کی تنبیہ اور سبق و عبرت کے لیے معاشرے کے ایسے افراد جو علم و تقویٰ کے لحاظ سے نمایاں ہیں اس کی نماز جنازہ سے الگ رہ سکتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آپ نے خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔ اسی طرح مقروض کا جنازہ آپ نے خود نہیں پڑھایا بلکہ لوگوں سے فرمایا، (اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھ لو)۔ واضح رہے کہ بائیکاٹ اور قطع تعلق کی پالیسی وہیں چل سکتی ہے جہاں صحیح معنیٰ میں معاشرہ اسلامی بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے۔

نظام کی پابندی

375۔ ” بشیرؓ سے روایت ہے کہ ہم نے آنحضور سے سوال کیا کہ صدقہ وصول کرنے والے ہم پر زیادتی کرتے ہیں۔ کیا اپنے مالوں میں سے ان کی زیادتی کے مطابق چھپا سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔“ تشریح: اس حدیث سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ سمع و طاعت اور نظام کی پابندی کا اسلام میں کیا مقام ہے۔ اسلامی حکومت کے کارندے اگر زکوٰة صدقات وصول کرتے ہوئے ظلم بھی کریں تب بھی ان کے جواب میں کوئی غلط قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔

اطاعت کے حدود

376۔ ” حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان پر سمع و طاعت (سننا اور ماننا) واجب ہے۔ خواہ اسے (اپنے امیر کا حکم) پسند ہو یا ناپسند، یہ اسی وقت تک ہے جب تک کہ خدا کا نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے، لیکن اگر خدا کی نافرمانی کا حکم دے تو پھر نہ سننا ہے اور نہ ماننا۔“ حدود اللہ کے خلاف کوئی معاہدہ اور اقرار جائز نہیں ہے ”عمر بن عوف سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں کے درمیان صلح کے عہد و پیمان جائز ہیں۔ وہاں ایسی صلح جائز نہیں جو حرام کو حلال، یا حلال کو حرام بنا دے۔ مسلمان اپنے طے کردہ شرائط کے پابند ہوں گے، الاپہ کہ کوئی ایسی شرط ہو جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال میں تبدیل کر دے۔“ تشریح: مسلمانوں کے تمام معاشی، سیاسی معاملات، معاشرتی تعلقات، بین الاقوامی معاہدات اور ملکی قانون سازی کی حدود اسی حدیث کی روشنی میں طے ہونی چاہئیں۔ یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ اس قسم کے معاملات میں کتاب و سنت سے ہر جوئی مسئلہ کی تائید کیلئے سند تلاش کی جائے۔ بلکہ صرف اتنا دیکھ لینا کافی ہے کہ ہمارا کوئی قدم کسی واضح نص کے خلاف تو نہیں اٹھ رہا ہے۔ وہاں عبادات کے معاملہ میں ضرورت ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی جزئی کا ثبوت کتاب و سنت سے فراہم کیاجائے، ورنہ اندیشہ ہے کہ کہیں عبادت کی آڑ میں بدعات نہ رواج پا جائیں۔
 

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team