اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-

Telephone:-       

 

 

 

تاریخ اشاعت11-05-2010

اسلام میں گداگری کی ممانعت

کالم۔۔۔  علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال


عن عبد اللّٰہ ابن عمر ان رسول اللہ ﷺ قال وھو علی منبر و ذکر الصدقہ والتعفف والمسئلة الید العلیا خیر من الید السفلیٰ فا لید العلیا ھی المنفقة والسفلیٰ ھی السائلة۔(بخاری جلد اول صفحہ 192،مسلم جلد اول صفحہ 332)
ترجمہ:” حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے منبر شریف پر تشریف فرما ہو کر ارشاد فرمایا صدقہ اور مانگنے سے بچنے کے متعلق اور مانگتے کی برائی ذکر فرمائی کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اُوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے ،اور نیچے والا ہاتھ سوال کرنے والا ہے۔“
صدقہ:زکوٰة تو فرض ہے اور وہ بھی صدقہ ہے لیکن وہ تو صرف صاحب نصاب پر لازم ہوتی ہے ،اس کے علاوہ صدقات نافلہ ہوتے ہیں جو کہ صاحب نصاب اور نصاب سے کم مالیت والے بھی کر سکتے ہیں ،بلکہ بعض صدقات فقراءاور مساکین بھی کر سکتے ہیں ،جیسا کہ تسبیحات و تکبیرات بھی صدقہ کا حکم رکھتی ہیں ،بلکہ کسی سے ہنستے چہرے کے ساتھ ملنا بھی صدقہ ہوتا ہے اور یہ صدقات موجب اجرو ثواب اور بلیات و آفات کے ٹلنے کا سبب ہوتے ہیں ۔جیسا کہ روایت میں ہے :علیکم بالصدقة فان اللہ تعالیٰ لید را ¿باالصدقة سبعین بابا من البلاءابسرھا الجزام والبرص ۔”اپنے او پر صدقہ لازم کرو ،بے شک اللہ تعالیٰ صدقہ کی برکت سے ستر دروازے بلاﺅں کے دفع فرماتا ہے ،ان میںسے معمولی اور آسان دروازہ جذام (کوڑھ) برص (سفید داغ) ہے۔(کشف الغمہ)
حضرت امیر المومنین علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بادر وابالصدقة فان البلاءلا یتخطا ھا۔صدقہ کرنے میں جلدی کرو۔بے شک بلائیں اس سے تجاوز نہیں کرتیں (یعنی ٹل جاتی ہیں۔)(مشکوٰة 167)
ان مبارک حدیثوں سے ثابت ہوا کہ مصائب و بلیات اور آفات کا واحد علاج صدقہ ہے اور صدقہ کی برکت سے مصیبت ٹل جاتی ہے اور مشکل آسان ہو جاتی ہے ۔صدقات گناہوں کا کفارہ ہوجاتے ہیں ،لیکن جس طرح ہر عمل میں اخلاص شرط ہے ۔اسی طرح صدقات بھی وہ ہی نفع بخش اور فائدہ مند ہوتے ہیں ،جس میں اخلاص اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی طلب ہو اور اُن کو احسان جتلانے اور تکلیف پہنچانے کی وجہ سے ضائع نہ کر لیا ہو، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے ۔لا تبطلو صدقاتکم بالمن والاذیٰ۔اپنے صدقات احسان جتلانے اور تکلیف پہنچانے کے ساتھ باطل نہ کرو۔“
جس پر صدقہ کرے اُس کا احسان جانے کہ اُس نے صدقہ قبول کر لیا ،اس پر احسان جتلانے اور اُس کو حقیر جاننے اُس کو تکلیف و اذیت پہنچانے سے صدقہ کا اجرو ثواب ضائع ہو جاتا ہے۔
سوال کرنے کی مذمت:بغیر حاجت شدیدہ اور سخت مجبوری کے سوال کرنا اور لوگوں سے مانگنا سخت مکروہ اور ناپسندیدہ امر موجب ذلت و رسوائی ہے بلکہ چاہےے اپنے ہاتھ سے محنت و مشقت کر کے گزارہ کرے اور صبر و قناعت کرے۔بلکہ اس طرح وقت گزارنا مانگنے کی ذلت سے ہزار درجہ بہتر ہے ،جیسا کہ بخاری اور مسلم شریف میں ہے :عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ ان رسول اللّٰہ ﷺ قال والذی نفسی بیدہ لان یا ¿خذ احدکم حبلہ فیحتطب علی ظہرہ خیر لہ من ان یاتی رجلا فیسالہ اعطاہ و منعہ ۔”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ،تم میں سے کوئی شخص رسی کپڑے اور اپنی پیٹھ پر لکڑی کا گٹھا لا د کر لائے اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی شخص کے پاس آئے اور اس سے سوال کرے ،وہ اسے دے یا نہ دے۔“ (بخاری و مسلم)
معلوم ہوا کہ محنت و مزدوری کر کے کمانا اور کھانا ،لوگوں سے مانگنے سے بچنا ،بہت بہتر ہے ۔کیونکہ اس طرح نفس ذلیل و خوار ہوتا ہے اور اس کا وقارمجروح ہوتا ہے دربدر پھرنا اور گدا گری کرنا اور گلیوں میں گھوم کر مانگنا اور طرح طرح کے حیلوں ،بہانوں سے مانگنا اور جھوٹ بولنا، کبھی ماں باپ کی بیماری ظاہر کرنا اور کبھی بے گھر ہونے کا بہانہ بنانا اور مال جمع کرنا اور گدا گری کو پیشہ بنا لینا بہت ہی معیوب امر اور ذلت و رسوائی کا باعث اور آخرت میں تباہی و بربادی کا سبب ہے ۔حدیث میں ہے سید دو عالم ﷺ نے فرمایا ۔جو لوگوں سے اپنا مال بڑھانے کے لئے سوال کرتا ہے وہ اپنے لئے (جہنم کے )انگاروں کا سوال کر رہا ہے ۔(اب اُس کی مرضی) خواہ کم سوال کرے یا زیادہ۔
اسی طرح ایک حدیث میں اس طرح ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں میں گھومتا رہتا ہے ۔ لقمہ یاد و لقمے ایک کھجور یا دو کجھورلے کر چلا جاتا ہے ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا :یا رسول اللہ ﷺ مسکین کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جو اس کی ضروریات سے اُس کو مستغنیٰ کر دے اور نہ اس کے آثار سے مسکینی وفقر کا پتہ چلے تاکہ اس پر صدقہ کیا جائے اور نہ وہ لوگوں سے سوال کرتا ہے ۔(بخاری و مسلم)
معلوم ہوا مسکین ،فقیر وہ نہیں ہے جو مروجہ گدا گری کرتا ہے اور دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے ۔ہاں ایسا مسکین ہو جس کی نشاندہی حدیث میں کی گئی ہے جس کو اُس کے حالات کا پتہ لگ جائے ۔وہ اس کی مدد کرے اور اس پر صدقہ کرے اور لوگوں سے تعاون کرائے ،تو وہ بہت بہتر ہے اور ایسے حاجت مند پر صدقہ کرنے کا بہت اجر و ثواب ہے بغیر ضرورت اور حاجت کے مانگنا قیامت میں ذلت و رسوائی کا سبب ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” انسان سوال کرتا رہے گا ،حتیٰ کہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہو گا۔
ان احادیث و روایات سے ظاہر ہوا لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا اور مانگنا ،اور گدا گری کو پیشہ بنانا دنیوی و اُخروی ذلت و رسوائی کا سبب ہو گا اور مالداری کےلئے سوال کرنا ایسا ہے جیسے آگ کے انگاروں کا سوال کرنا اور مانگنے والا کل قیامت کے دن تمام مخلوق کے سامنے ایسا ذلیل و رسوا ہو گا کہ اس کے چہرہ پر گوشت کا ٹکڑا نہ ہو گا۔اس مذکورہ حدیث میں بھی یہی ہے کہ آپ نے صدقہ کرنے پر ابھارا اور مانگنے کی برائی بیان فرمائی اور ارشاد فرمایا : ”اُونچا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے ۔“اللہ تعالیٰ اپنے راہ میں خرچ کرنے کی توفیق بحشے ۔آمین!
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team