اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
ایڈیٹر کی ڈاک
ڈاکٹرز کارنر
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
 
اس نے چھپ کر شراب کی چسکی لگائی
ابو محجن طائف کے قبیلہ ثقیف کا نامور،بہادر اور بلند پایہ شاعر تھا۔ غزوہ طائف میں وہ اسلامی لشکر کے مقابلے میں بہادری سے لڑا۔ بعد میں اسلام قبول کر لیا اور اس پر پکا رہا مگر شراب اس کی کمزوری تھی۔ وہ اس سے پوری طرح پیچھا نہ چھڑا سکا۔
ابو عبیدہ ثقفی رضی اللہ عنہ جنہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عراق کی طرف جانے والے لشکر کا سالار اعظم مقرر کیا تھا،اس کے چچا زاد بھائی تھے۔ خیبر کی لڑائی میں انہوں نے اسے گھوڑ سوار دستے کا کمانڈر مقرر کیا تھا۔ اس جنگ میں بھی اس نے اپنی بہادری کے جوہر دکھائے تھے۔ یہ ان بہادروں میں سے تھا جنہوں نے اس ایرانی ہاتھی کو مار بھگایا جس کے پائوں تلے ابو عبید رضی اللہ عنہ کچلے گئے تھے۔ جنگ قادسیہ میں یہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل تھا۔ وہاں اس نے چھپ کر چسکی لگا لی۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو پتہ چل گیا۔ انہوں نے اسے اس محل کے قید خانے میں ڈال دیا جس کے بالا خانے سے وہ چارپائی پر لیٹے جنگ لڑا رہے تھے۔ دوسرے دن کی جنگ زوروں پر تھی۔ نعروں کی گونج اور ہتھیاروں کے ٹکرانے سے اٹھنے والا شور، بہادروں کے دلوں کو گرما رہاتھا، مگر ابو محجن قید کی کوٹھڑی میں بے تابی سے تلملا رہا تھا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی نئی بیوی سلمیٰ جو مثنیٰ شہید کی بیوہ تھیں، ادھر سے گزریں، تو ابو محجن نے ان سے استدعا کہ کہ وہ قید خانے کا دروازہ کھول دے، مگر اس نے انکار کر دیا۔ ابو محجن کی زبان پر برجستہ چند اشعار آگئے جن کا ترجمہ یوں ہے۔
”اس سے بڑھ کر غم کیا ہو گا کہ سوار نیزے بازیاں کر رہے ہیں اور میں یہاں زنجیروں میں جکڑا پڑا ہوں۔ کھڑا ہونا چاہتا ہوں تو زنجیریں اٹھنے نہیں دیتیں پکارتا ہوں تو کوئی دروازہ کھولنے والا نہیں۔میں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا ہے،اور میں اس عہد سے پھروں گا نہیں کہ میرے لئے میخانوں کے دروازے کھول دیے جائیں۔ تو بھی میں کبھی ان کا رخ نہیں کروں گا۔“سلمیٰ کا دل پسیج گیا۔ اس نے قید کا دروازہ کھول دیا۔ ابو محجن قلعے کے پچھلے دروازے سے نکلا اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے گھوڑے بلقاءپر سوار ہو کر نیزہ لہراتا میدان جنگ میں پہنچ گیا۔وہ جوش و مسرت سے سرشار کبھی لشکر کے ایک طرف نکل جاتا، کبھی دوسری طرف، کبھی ادھر سے دشمن پر جھپٹتا، کبھی ادھر سے ۔کئی ایرانیوں کو موت کی نیند سلایا۔ بڑے بڑے سورما اس کی بہادری پر عش عش کر اٹھے۔ مگر کوئی اسے پہچان نہ سکا کیونکہ رات کا وقت تھا، اگرچہ چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔حضرت سعد رضی اللہ عنہ بھی حیران تھے،دل ہی دل میں کہتے: ”گھوڑا میرا ہے اور انداز ابو محجن کا۔ مگر وہ تو قید ہے۔“لڑائی آدھی رات تک جاری رہی۔ معرکہ آرائی ختم ہوئی تو ابو محجن نے واپس آکر گھوڑا تھان پر کھڑا کیا اور خود اپنی قید کوٹھڑی میں پہنچ گیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے ابومحجن کو رہا کر دیا اور فرمایا:”ایسا بہادر قید نہیں رہ سکتا۔“”ابو محجن نے فی البدیہ چند اشعار کہے۔ترجمہ:کیا تم نے بنو ثقیف کو کبھی عزت کے بغیر دیکھا ہے؟ میں ان کا بہترین شمشیرزن ہوں۔ اگر تم نہیں جانتے تو ان سے پوچھ لو،جو جانتے ہیں؟ قادسیہ کی رات انہیں معلوم نہ تھا۔ کہ میں قید سے نکل کر میدان کا رزار میں آچکا ہوں۔“
 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved