اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
ایڈیٹر کی ڈاک
ڈاکٹرز کارنر
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 

12-05-2011

سائنس کی دنیا میں دعا کی اہمیت
بیماری ہی نہیں کسی اور مشکل میں بھی اہل ایمان‘ مہربان اور رحیم و کریم اللہ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں۔ یہ پکار دل کی گہرائیوں سے آپ ہی آپ نکلتی ہے اور پھر یہ مشکلات میں چارہ گر دوست‘ بیماری میں درد مند ماہر طبیب اور درد سے کراہتے انسانوں کیلئے مہربان نرس کی توجہ بن جاتی ہے
بیماری ہو یا کوئی اور ابتلا‘ ایک غیبی طاقت انسان کو بڑی شفقت اور قوت کے ساتھ امید کے راستے پر چلاتی ہے۔ یہیں سے ہر مشکل کے حل کی تلاش‘ سلامتی اور بقا کی جدوجہد اور مرض کے علاج کی تدبیر سلجھائی دیتی ہے۔ گویا اللہ پر بھروسے اور سہارے کے بغیر نہ تو کوئی معالج‘ معالج رہتا ہے اور نہ کوئی چارہ گر چارہ گر۔ علاج اور شفاءکیلئے اللہ تعالیٰ پر بھروسے اور اس کی اعانت کی اس قدر ضرورت ہوتی ہے جتنی کے دوا اور مادی تدابیر کی۔ دعا اور اللہ پر کامل بھروسہ معالج کیلئے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا مریض کیلئے۔
ماہرین نفسیات و بشریات اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے مدد طلبی میں بڑی گہری قوتیں پنہاں ہیں۔ ان سے نہ صرف سہارا‘ امید اور رفاقت کا احساس ملتا ہے بلکہ امراض کا حیرت انگیز تدارک اور مرض کی صورت میں معجزانہ شفاءبھی حاصل ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ دوا پر باقاعدگی سے عمل کے ساتھ ساتھ دعا کا ورد بھی بہت کارآمد اور ضروری ہے۔
بیماری ہی نہیں کسی اور مشکل میں بھی اہل ایمان‘ مہربان اور رحیم و کریم اللہ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں۔ یہ پکار دل کی گہرائیوں سے آپ ہی آپ نکلتی ہے اور پھر یہ مشکلات میں چارہ گر دوست‘ بیماری میں درد مند ماہر طبیب اور درد سے کراہتے انسانوں کیلئے مہربان نرس کی توجہ بن جاتی ہے۔ شاید وہ دن اب بالکل گزر چکے ہیں کہ جب مادہ پرست اقوام کے لوگ مصیبت اور بیماری میں بھی اللہ پر اعتقاد اور اس سے دعا کو فضول اور بے بنیاد تصور کرتے تھے۔ اب ساری دنیا میں طب اور معالجاتی سائنس اور اللہ کا رشتہ پھر سے استوار ہوگیا ہے۔ اسے سب سے گہرا افہام اور عقلی استدلال اسلام کے دور عروج میں مسلمان اطباءاور علمائے سائنس نے عطا کیا تھا۔
گویا حقیقت پسندی کا تقاضا یہی ہے کہ تشخیص اور علاج کے ساتھ ساتھ دعا اور اعتقاد کی قوت سے پورا کام لیا جائے۔ ہاورڈ میڈیکل سکول امریکہ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر بربرٹ منسن نے حال ہی میں لندن میں‘ صحت میں نئی سمت‘ کے موضوع پر ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ عبادت اور دعا سے امراض قلب اور حملہ قلب روکا جاسکتا ہے‘ بلند فشار خون میں ڈرامائی کمی ہوسکتی ہے اور درد اور سرطان کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر بنسن جو قلب کے مریضوں کو عبادت اور دعا کے علاوہ سکون اور سستانے کے طریقے دس سال تک بتاتے رہے ہیں ذکر‘ ورد اور وظائف مذہبی کی نفسیاتی اور شفائی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ یہ ہر مذہب کے لوگوں کیلئے ان کے اپنے اپنے عقیدے کے مطابق قابل عمل ہوسکتے ہیں۔
پروفیسر بنسن کا کہنا ہے کہ اس عمل سے جو سونے سے قبل رات کو خاموشی اور سکون کامل کے عالم میں تقریباً بیس منٹ تک کیا جائے دماغی تنائو ‘ کھنچائو اور دبائو میں ایک کیمیاوی ردعمل کے تحت زبردست کمی آتی ہے۔ اعصاب کو حیرت انگیز سکون ملتا ہے اور ہارمون کے نظام کی اصلاح ہوجاتی ہے ہر رات یہ عمل کرنے سے برسوں کی اعصابی پیچیدگی اور دبائو کا تدارک ہوسکتا ہے۔ پروفیسر بنسن نے اس عمل کے تجربات بلند فشار خون اور امراض قلب کے مریضوں پر کیے اور حیرت انگیز مفید نتائج ریکارڈ کیے۔ درد سر اور سرطان کے مریضوں پر بھی اس عمل کے نہایت مفید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
عقیدہ دعا کا یہ مطلب نہیں کہ صحت کے متفقہ اصولوں سے غفلت برت کر کوئی شخص صحت مند رہنے کی تمنا کرے۔ ان اصولوں پر عمل جسم کا فطری تقاضا ہے اور ان سے غفلت برتنا احکام الٰہی سے غفلت برتنے کے مترادف ہے۔ قانون فطرت پر عملدرآمد صحت مندی کی لازمی شرط ہے البتہ معالج اور مریض دونوں کو کوشش اور کاوش کے ساتھ ساتھ اللہ سے مدد پانے کی توقع ہمیشہ رکھنی چاہیے۔ مریض کیلئے ضروری ہے کہ وہ دعا کے ساتھ ساتھ معالج کی ہدایات پر پورے خلوص سے عمل کرے اور ضروری پرہیز بھی کرے۔ بیماری ہو تو اسے مختصر کم یا اسے ختم کرنے کی پوری کوشش کی جائے۔ علاج اور صحت کے محاذ پر پورے یقین اور پامردی کی ضرورت ہوتی ہے۔ علاج کے ساتھ ساتھ اس گہرے یقین اور اعتماد کیلئے جو صحت کی راہ استوار کرتا ہے خدا پر عقیدے اور دعا کی ضرورت ہوتی ہے۔ صحت یاب ہونے پر خدا کے شکر کے ساتھ ساتھ صحت کے قیام اور استحکام کے تمام طبی اور سائنسی اصولوں پر عمل سے بھی زیادہ ضروری ہوجاتا ہے۔
اکثر لوگ امراض کے حملے کو دعوت دیتے ہیں اور صحت کی نعمت گنواتے ہیں۔ ان کیلئے دوا اور دعا دونوں بے کار ہیں۔
 
 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved