اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-1-514-970-3200 

Email:-jawwab@gmail.com
 

 
 

تاریخ اشاعت:۔17-07-2010

”بریلوی، دیوبندی تاریخ اور اختلافات ©“
مضمون :::::::::::::::: ریاض سہیل
دیو بند اور رائے بریلی دونوں مسالک کی بنیاد ہندوستان میں پڑی
برصغیر میں بریلوی اور دیوبند مسالک میں اختلافات کا سلسلہ تو کئی دہائی پرانا ہے مگر ان میں شدت پاکستان کے قیام کے بعد دیکھی گئی ہے۔دونوں مسالک کی بنیاد ہندوستان میں پڑی یعنی دیو بند اور رائے بریلی میں۔تاریخی مطالعہ کے مطابق بریلوی مسلک کے لوگوں نے انگریز حکومت کے خلاف جہاد سے انکار کیا اورآج بھی اس کو جاری رکھا ہوا ہے۔نامور تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کاکہنا ہے کہ 1857ءکی جنگ آزادی کے 10سال بعد دیو بند مدرسہ کاقیام عمل میں آیا،جس کایہ مقصد تھا کہ چونکہ اب مغلوں کی حکومت نہیں رہی لہٰذایہاں مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے ایک پلیٹ فارم بنایا جائے اور اپنی علیحدہ شناخت کوبرقرار رکھا جائے۔یہ احیائے اسلام کے حامی لوگ تھے۔جن کا خیال تھا کہ اسلام میں کافی رسومات داخل ہو گئی ہیں۔جنہیں نکال کرخالص اسلامی رسومات اور تعلیمات پر عمل کیا جائے۔دیو بند کےاس نظریے نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔اور نہ صرف ہندوستان بلکہ دیگر مسلم ممالک سے بھی یہاں طالب علم آنے لگے تھے۔ڈاکٹر مبارک علی بتاتے ہیں کہ بریلوی فرقہ بہت بعد میں سامنے آیا۔احمد رضا خان بریلوی جو رائے بریلی سے تعلق رکھتے تھے۔انہوں نے 1920ءکے قریب یہ مکتبہ ¿ فکر قائم کیا،جن کا یہ مو ¿قف تھا کہ ہندوستان میں رہتے ہوئے بہت ساری رسومات چونکہ مسلمانوں نے اختیار کر لی ہیں لہٰذا اب انہیں نکالنا نہیں چایئے۔ان رسومات میں مزاروں کی زیارت،منتیں ماننا،نذرو نیاز،فاتحہ ¿ خوانی اورموسیقی شامل تھیں۔جنہیں دیوبندی نہیں مانتے تھے۔بقول ڈاکٹر مبارک علی کے اس وقت دیو بندمسلک کے لوگوں کا تعلق دیہات اور نچلے طبقے سے تھا۔جبکہ بریلوی مسلک کے لوگ شہروں اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔برصغیر کی تاریخ اور مذہبی علماءکے سیاسی کردار کے بارے میں کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ دیو بندی اور بریلوی ایک دوسرے سے ضرور شدید اختلافات رکھتے تھے۔مگر انگریزوں کے دور ِ حکومت میں قتل و غارت یا اس بنیاد پرایک دوسرے کو جان سے مارنے کاکوئی تصورنہیں تھا۔یہ شدت پسندی پاکستان بننے کے کئی سال بعد آئی ہے۔جس میں اب اضافہ ہوتا جا رہاہے۔ ورنہ انگریزوں کے دور میں یہ ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے بھی دیتے ہیں۔ایک دوسری مساجد میں نہیں جاتے یا ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے۔ڈاکٹر مبارک علی کا خیال ہے کہ علاقائی پس منظر بھی اس بارے میں اہمیت رکھتا ہے،ان کے مطابق پاکستان میں خیبر پختون خواہ میں کافی لوگ دیو بند مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔یہاں کے لوگ مدرسوں میں پڑھنے جایا کرتے تھے اس کے بعد انہوں نے اسی طرز کے مدرسے یہاں بھی تعمیر کئے۔یہ پہاڑی اور خشک علاقہ ہے ان کی زندگی میں رنگینی زیادہ نہیںاس لئے انہیں دیو بند نظریہ فکر زیادہ پسند آیا۔اس کے برعکس بریلوی مسلک میں زندگی کے آثار ہیں۔وہ نعت خوانی بھی کرتے ہیںہر تہوار پر خصوصی کھانا پکاتے ہیںاور عرس منایا جاتا ہے۔دیو بندیوں میں کلچر ل پہلو بالکل بھی نہیں اور نہ کوئی رنگینی ہے۔اس وجہ سے بریلویوں میںذہنی لحاظ سے زیادہ وسعت ہے جبکہ دیو بند زیادہ تنگ نظر ہیں۔ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق تحریک ِ جہاد جو تحریکِ محمدیہ بھی کہلاتی ہے کے بانی سیّد احمد شہیدؒ جب حج کرنے سعودی عرب گئے تھے تو وہاں وہ بھی وہابی تحریک سے متاثر ہوئے۔انہوں نے سرحد میں اسلامی حکومت قائم کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔وہ بھی وہابی نقطہ ¿ نظر کے حامی تھے اور کسی بھی رسم کو نہیں مانتے تھے۔ ان کا علاقے میں کافی اثر ورسوخ تھااور لوگ ان سے متاثر تھے۔دیگر کئی دانشوروں اور منصنفوں کی طرح ڈاکٹر مبارک علی کی بھی رائے ہے کہ سعودی عرب کا دیو بند مسلک کے فروغ میں اہم کردار رہا ہے۔بقول ان کے70 19ءکی دہائی میں جب سعودی عرب میں تیل کی پیداوار کے بعد دولت کی ریل پیل ہوئی تو وہابی اسلام پاکستان میں شدت کے ساتھ آیا ہے۔بریلوی کو باہر سے کوئی سرپرستی نہیں ملی۔اس کے برعکس دیوبندیوں اور وہابیوں کو سعودی سرپرستی ملی۔ان کے مدرسوں اور علماءکے پاس پیسہ اور اس کے ساتھ ان کی اہلحدیث تحریک کی بہت زیادہ سر پرستی ہوئی جس سے دیوبندی مالی اور سیاسی لحاظ سے زیادہ طاقتور بن کر ابھرے۔اس کے مقابلے میں بریلوی تحریک سرپرستی نہ ملنے کی وجہ سے طاقتور نہیں ہو سکی۔ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق افغان جہاد کی بھی دیو بندیوں نے حمایت کی اور حصہ لیا مگر بریلویوں نے اس کی حمایت نہیں کی۔جب متحدہ ہندوستان میں یہ مسئلہ اٹھا تھاکہ ہندوستان کو دارالحرب کہنا چاہئے یا دارالا سلام تو بریلوی اس بات کے حامی تھے کہ چونکہ یہاں انہیں مذہبی ہے لہٰذا ہندوستان دارالحرب نہیں ہے۔اس لئے نہ تو یہاں سے ہجرت کرنا چاہئے اور نہ ہی انگریز وں کے خلاف جہاد کرنا چاہئے۔ موجودہ وقت بھی بریلوی کسی جہادی تحریک میں شامل نہیں۔
٭٭٭

مراسلہ: ساجد جنجوعہ برطانیہ
(بشکریہ: نوائے وقت لندن)
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved