اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-1-514-970-3200 

Email:-jawwab@gmail.com
 

 
 

تاریخ اشاعت:۔07-09-2010

آزاد کشمیرمنزل کہاں راستہ کہاں
تحریر------ اطہر مسعو د وانی

یوم تاسیس حکومت آزاد کشمیر کے حوالے سے خصوصی مضمون
 
24اکتوبر2010ءکو حکومت آزاد جموں و کشمیر اپنا 63 واں یوم تاسیس منارہی ہے، لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف ریاست جموں و کشمیر کے عوام اپنی تاریخ کے اس تاریخی اور انقلاب آفریں دن کو حسب روایت پورے جوش و جذبے اور عزت و احترام سے مناتے رہے ہیں۔ آج سے ٹھیک 63 سال قبل (۴۲اکتوبر ۷۴۹۱ء) کو کشمیری عوام نے اپنی معلوم تاریخ (چھ ہزار سال ) میں پہلی بار اپنے حکمرانوں سے بغاوت کرکے ایک عوامی حکومت قائم کی تھی جس کی نشاندہی اس سے ایک سال دو ماہ اور 27 دن قبل جموں و کشمیر کے عوام کی قومی پارلیمان (جس نے جنوری1947ئ) کو پرجا سبھا (قانون ساز اسمبلی) میں جموں و کشمیر کے مسلمانوں کیلئے مختص21 نشستوں میں 16نشستیں حاصل کی تھی) آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے 27 جولائی 1946ءکو میر واعظ منزل (سرینگر) میں رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس خان مرحوم کی صدارت میں ”قراداد آزادکشمیر“ کی تاریخی اور انقلابی قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی آزادانہ رائے سے ایک ذمہ دار حکومت قائم کی جائے اور اسی بالغ رائے دہی کے تحت منتخب قانون ساز اسمبلی میں ریاست جموں و کشمیر کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی نہ کہ ریاست جموں و کشمیر کا ڈوگرہ حکمران (مہاراجہ ہری سنگھ) ۔اس تاریخی اور انقلابی قرارداد کے ذریعے جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی اس نمائندہ تنظیم مسلم کانفرنس نے ۷۲اکتوبر ۷۴۹۱ءکو بھارتی حکومت اور ڈوگرہ شاہی کے نام نہاد اور جعلی الحاق کو قبل از وقت ہی بے نقاب کردیا تھا۔ مسلم کانفرنس نے جس تحریک کا آغاز کیا آزادکشمیر کا قیام اس کا محض ایک سنگ میل ہے اس تحریک کی آخری منزل ریاست کو بھارتی تسلط سے آزاد کراکے اس کا پاکستان سے الحاق ہے۔ آزادکشمیر کا ابتدائی خاکہ مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کے ایک اجلاس میں قرار داد کی صورت میں پیش کیا گیا یہ قرارداد 5 جون 1946ءکو سری نگر میں منظور کی گئی۔ 27 جولائی 1946ءکو جماعت کے ایک خصوصی کنونشن میں قرارداد آزادکشمیر کے نام سے ایک تاریخ ساز قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ اگر حکومت کشمیر نے مسلم کانفرنس کے مطالبات کے برعکس کوئی اقدام کیئے تو مسلم کانفرنس انہیں قبول نہیں کرے گی مسلم عوام مسلم کانفرنس کی قیادت میں پوری طاقت کے ساتھ قیام آزادکشمیر کیلئے جدوجہد کریں گے۔ 2425 اکتوبر1946ءکو مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس منعقدہ سری نگر میں قرارداد آزادکشمیر پر عملدرآمد کیلئے راست اقدام کا فیصلہ کیا گیا ۔ حکومت نے سالانہ اجلاس پر پابندی لگادی چناچہ تبدیل شدہ صورت حال کے تحت ایک پروگرام کے مطابق24اکتوبر1946ءکو مسلم پارک سرینگر میں چوہدری غلام عباس خان کی صدارت میں سالانہ اجلاس ہوا حکومت پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے چوہدری صاحب نے کارکنوں سے اپیل کی کہ وہ ان کی متوقع گرفتاری پر پرامن رہتے ہوئے جماعت کے پروگرام کے مطابق کام کریں ۔ چوہدری صاحب اور ان کے چند ساتھی اسی شب گرفتار کرلئے گئے۔ جنوری ۷۴۹۱ءمیں کشمیر اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو مسلم کانفرنس نے21میں سے16 نشستیں حاصل کرلیں جون 1947 میں جماعت نے پونچھ کے علاقہ میں عدم ادائیگی مالیہ اور ٹیکس کی مہم شروع کی ۔ جولائی1947ءمیں یہ تحریک شدت اختیار کرگئی اور اس درمیان 19جولائی کو سرینگر میں مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل نے الحاق پاکستان کی تاریخی قرارداد منظور کی۔30اگست کو مسلم کانفرنس کی طرف سے وزیراعظم کشمیر کو ایک یاداشت پیش کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر فورا پاکستان میں شمولیت کا اعلان کرے، جدید آئین کیلئے آئین ساز اسمبلی قائم کی جائے۔ یاداشت میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ کشمیر حکومت پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں اپنے نمائندے بھیجے شہری آزادی بحال کرتے ہوئے چوہدری غلام عباس اور ان کے رفقاءکو رہا کرے۔ اس دوران پونچھ میں پاکستان کے حق میں بالخصوص اور باقی علاقوں میں بالعموم مظاہرے اور جلسے شروع ہوئے۔ 26اگست کو باغ میں ڈوگرہ فوج نے ایک جلسہ عام پر گولی چلادی اور سینکڑوں کارکن حراست میں لے لئے گئے۔۵ستمبر کو ریاست بھر میں یوم پونچھ منایا گیا۔ ان واقعات کے بارے میں جو سرکاری بیان جاری ہوا اس میں کہا گیا تھا کہ
”آغاز اگست میں پونچھ جاگیر کی باغ تحصیل اور سدھنوتی تحصیل کے شمالی حصوں میں بعض اشخاص کی طرف سے سول نافرمانی اور عدم ادائیگی محصولات شورش بپا ہوئی۔ ۴۲اگست کو مشتعل ہجوم نے ہندباڑہ کے مقام پر تحصیل ہیڈ کوارٹر کو لوٹا۔ معلوم ہوا کہ مجمع میں دریائے جہلم کے مغربی کناروں کے غنڈوں کے دستے بھی شامل ہیں۔ تھوڑی سی فوج پونچھ سے براہ راست راولاکوٹ بھیجی گئی اور تصادم ہوا باغ کو نجات ولا کہ فوجی دستوں نے نواحی دیہات کا دورہ کیا اور چار بڑے بڑے لشکروں کو مغلوب و منتشر کیا اور دریائے جہلم کی تمام گھاٹیوں پر قبضہ کرلیا آج 10ستمبر کو پوری جاگیر میں سکون قائم ہوچکا ہے اور علاقے کی شہری حکومت کے نظم و نسق کو بحال کرنے کی تدابیر جاری ہیں“۔
اب تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیں روزنامہ سٹیسمین کلکتہ نے چار فروری 1948ءکے شمارے میں رچرڈ سالنڈ کی یہ رپورٹ شائع کی
”پونچھ کوہستانی علاقہ ہے پچھلی جنگ عظیم میں ۰۶ ہزار فوجی اس علاقے نے فراہم کیئے انہوں نے بیان کیا کہ جب ہم جنگ سے واپس آئے تو راجہ پونچھ ایک مقدمہ کے باعث جاگیر سے محروم ہوچکے ہیں اور مہاراجا جموں و کشمیر نے تمام ظالمانہ ٹیکس ہم پر عائد کئیے جاچکے ہیں چولہا ٹیکس، کھڑکی ٹیکس، بیل، بھینس، بھیڑ، بکری حتی کہ بیوی پر ٹیکس۔ ڈوگرہ فوج پونچھ میں ٹیکسوں کی جبری وصول کیلئے مسلط کردی گئی۔ تقسیم ہند کا وقت قریب آیا تو کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کیلئے پونچھ میں جلسے اور مظاہرے ہو ئے جس پر مہاراجہ کا غیض و غضب ٹوٹ پڑا ۔جب 27 اگست کو نیلہ بٹ میں اس قسم کا ایک واقعہ ہوا تو ایک نوجوان سردار محمد عبدالقیوم خان نے اپنے چند دوستوں کے ہمراہ علم بغاوت بلند کردیا“۔
23 اکتوبر کو مسلم کانفرنس کے اجلاس میں ریاست میں ایک متوازی حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ چار اکتوبر کو ایک فرضی نام انور کی طرف سے ہری سنگھ کو تار بھیجا گیا جس میں انہیں اطلاع دی گئی تھی کہ وہ معزول کردیئے گئے ہیں اور ریاست میں متوازی حکومت قائم کردی گئی ہے۔ 24اکتوبر کومسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کے ایک رکن سردار محمدابراہیم خان کی صدارت میں باقاعدہ حکومت آزاد جموں و کشمیر حکومت کے نام سے قائم کی گئی نئی حکومت کے قیام کا اعلان 27اکتوبر1947ءکو پاکستان ٹائمز لاہور میں شائع ہوا۔ جس کا متن حسب ذیل ہے۔
”ہنگامی حکومت کو عوام نے کچھ ہفتہ قبل ناقابل برداشت ڈوگرہ مظالم کے خاتمہ اور عوام کے آزادانہ اقتدار کے حصول کیلئے بنایا تھا اب ریاست کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ کرلیا ہے اور بقیہ حصہ ڈوگرہ مظالم کے تسلط سے آزاد کرانے کی امید کئے ہوئے ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر حکومت کی تشکیل نو عمل میں لائی گئی اور صدر دفاتر کو پلندری منتقل کرکے مسٹر ابراہیم بیرسٹر حکومت کا عارضی صدر مقرر کیا گیا ہے۔ نئی حکومت ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کو متحدہ آواز کی ترجمان ہے کہ عوام کو ظالم اور غاصب ڈوگرہ خاندان سے نجات دلائی جاسکے۔ آزادی کی یہ تحریک جس نے اس عبوری حکومت کو جنم دیا ہے، 1919ءسے جاری ہے۔ اس تحریک میں جموں و کشمیر کے ہزاروں لوگوں نے جیل کاٹی اور جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔بہرحال عوام کی متفقہ آواز کی جیت ہوئی ہے اور حکمران کی متعدد فوج ہار گئی ہے۔ حکمران اپنے وزیراعظم کے ساتھ کشمیر سے بھاگ چلاہے اور شاید عنقریب جموں سے بھی بھا گ نکلے گا۔ عارضی حکومت جو ریاست کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے ایک فرقہ وارانہ حکومت نہیں ہے۔ اس حکومت کی عارضی کابینہ میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی شریک ہوں گے۔ حکومت کا مقصد سردست ریاست میں نظم و نسق کی بحالی ہے کہ عوام اپنی رائے سے ایک جمہوری آئین ساز اسمبلی اور ایک نمائندہ حکومت چن لیں۔ ہمسایہ مملکت ہائے پاکستان اور ہندوستان کیلئے بہترین جذبات دوستی اور خیرسگالی رکھتی ہے اور امید کرتی ہے کہ ہر دو مملکتیں کشمیری عوام کو فطری آرزو سے آزادی کے ساتھ پوری پوری ہمدردی کریں گے۔ عارضی حکومت ریاست کی جغرافیائی سا لمیت اور سیاسی انفرادیت برقرار رکھنے کی متمنی ہے۔ پاکستان ہندوستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کا سوال یہاں کے عوام کی آزادانہ رائے شماری سے طے کیا جائے گا۔ غیر ملکی مبصرین ومشاہدین کو دعوت دی جائے گی وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ عوام کی آزادانہ رائے ہے یہ مسئلہ بخیر و خوبی طے ہوگیا“۔
چند روز بعد آزادکشمیر حکومت کا صدر مقام تراڑ کھل منتقل کیا گیا۔ پہلی کابینہ میں صدر سردار محمد ابراہیم خان، نائب صد کرنل سید احمد علی شاہ اور وزا چوہدری محمد عبداللہ خان ، خواجہ غلام دین وانی ، سید نذیر حسین شاہ اور خواجہ ثناءاللہ شمیم شامل تھے۔24اکتوبر کو ہی آزاد فوج نے قبائلی مجاہدین کی مدد سے مظفرآباد شہر پر قبضہ کرلیا۔30اکتوبر کو مجاہدین نے بارہ مولہ پر قبضہ کرلیا اور 27اکتوبر کو سرینگر سے تین میل دور شالہ ٹینگ پہنچ گئے صرف ایک ہفتہ کی یلغار نے ڈوگرہ آرمی کو مفلوج کردیا اور اس کے چیف آف سٹاف برگیڈئیر راجندرسنگھ میدان میں کام آگئے۔
یاد رہے کہ اس وقت بھارت نے کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش نہیں کیا تھا بھارتی حکومت کے دعوی کے مطابق جب ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے 26اکتوبر1947ءکو بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کیئے (حالانکہ26اکتوبر1947ءکو مہاراجہ ہری سنگھ سرینگر اور جموں کے درمیان سفر کررہے تھے اور دستخط کرانے والے وی پی مینن (سیکرٹری امور داخلہ حکومت بھارت) دہلی میں موجود تھے بھارت کے ساتھ الحاق کی یہ جعلی دستاویز 27 اکتوبر1947ءکو بنائی گئی جبکہ اس سے قبل ہی صبح چھ بجے بھارتی فوج کی ایک بٹالین 850 نفری سرینگر کے ائیرپورٹ پر اتر گئی تھی۔
27اکتوبر1947ءکو آزاد افواج اور ان کے اتحادی قبائلی مجاہدین سرینگر شہر کی چونگی (شالہ ٹینگ) سے فرار ہو کر اپنے آبائی شہر جموں پہنچ چکا تھا۔ جبکہ ریاست جموں و کشمیر کا بیشتر علاقہ (جس میں وادی کشمیر کا نصف علاقہ شامل تھا) حکومت آزادکشمیر کے عملی کنٹرول میں آچکا تھا۔ ریاست جموں و کشمیر کے مغربی علاقے (پونچھ) میں اگست1947ءمیں کشمیری عوام نے مسلم کانفرنس کے پروگرام اور تحریک کے مطابق ڈوگرہ شاہی سے بغاوت کی تھی او22 اکتوبر1947ءکو قبائلی مجاہد مظفرآباد شہر میں داخل ہوچکے تھے۔ اکتوبر‘ نومبر دسمبر1947ءمیں آزاد اور قبائلی مجاہدین اور ڈوگرہ آرمی اور بھارتی افواج کے درمیان منادر سے زوجیلا (کرگل) تک جنگ جاری تھی تو بھارتی حکومت نے گورنر جنرل پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی متنازعہ جموں و کشمیر میں باہر کی تمام فوجیں اور رضاکاروں کو بیک وقت نکال کر جموں و کشمیر کے عوام کی رائے سے الحاق کا معاملہ طے کرنے کی پیش کش مسترد کرکے یہ تنازعہ دسمبر ۷۴۹۱ءکے آخری روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پہنچایا۔ سلامتی کونسل نے دونوںطرف کا موقف سن کر اپریل 1948ءمیں اس سلسلہ میں اپنی پہلی قرارداد منظور کی جس میں طے پایا کہ متنازعہ ریاست جموں و کشمیر میں جنگ بند کرکے یہاں استصواب رائے کے ذریعے کشمیری عوام کو یہ فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا اپنی ریاست کا الحاق پاکستان سے کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں حریف ملکوں بھارت اور پاکستان نے سلامتی کونسل کا یہ فیصلہ قبول کیا اس کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس واضح اور واشگاف فیصلے کے سلسلہ میں درجنوں قراردادیں پاس کیں۔ تاہم آج تک ریاست کے بیشتر علاقے پر قابض بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان پر عمل نہ ہوا اور کشمیری عوام اپنے حق خوداختیاری سے آج تک محروم ہیں۔ جموں و کشمیر کے عوام نے پچھلے63 سال سے بھارتی فوجی تسلط کے خلاف اپنی جدوجہد مسلسل اور مختلف جمہوری طریقوں سے جاری رکھی ۔ بھارت کشمیریوں کی ہر پر امن آواز کو اپنی ریاستی طاقت کے وحشیانہ استعمال سے دبانے کی کوشش کرتا رہا ہے ۔
24اکتوبر1947ءکو کشمیری عوام نے ڈوگرہ شاہی کے خلاف بغاوت کرکے اپنی جو عوامی حکومت قائم کی تھی وہ آج بھی مظفرآباد میں قائم ہے۔ ساڑھے تیرہ ہزار کلومیٹر (تقریبا5 ہزار مربع میل) رقبے اور30لاکھ آبادی کے علاقے کی حکومت میں 80 ہزار سے زائد سرکاری ملازمین ہیں۔ یہاں عوام کے ووٹوں سے قائم ایک قانون ساز اسمبلی ،آزاد جموں و کشمیر کونسل اور ایک منتخب حکومت ہے۔لیکن اب عملی طور پر آزاد کشمیر کی حکومت اور آزاد خطہ تحریکی امور سے لاتعلق ہو کر مقامی سطح کے امور کے حوالے سے مفاداتی سیاست میںمحدود ہے۔ آزاد کشمیر کی حکومتیں گلگت بلتستان کے انتظام کے بعد مسئلہ کشمیر کو بھی وزارت خارجہ کے سپرد کر کے، خود کواس بنیادی ذمہ داری سے بری الذمہ کرتے ہوئے قبیلے اور علاقے کے نام پر مفاداتی سیاست میں مشغول ہو گئی ہیں۔ آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں، حکومتوں نے کشمیر کاز کی وجہ سے آزاد کشمیر کو حاصل ایک ریاست کی طرح کے ” سیٹ اپ“ کی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے قبیلے اور علاقے کی مفاداتی سیاست کو فروغ دیا،قبیلے اور علاقے کے نام پر مفادات کی دوڑ تیز ہو گئی جس سے آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں شخصی گروپوں میں ڈھل چکی ہیں۔
گروپوں کی مفاداتی سیاست نے آزاد کشمیر کے چند لاکھ عوام کو درجنوں گروپوں میں تقسیم کر دیا ہے اور آزاد کشمیر ریاستی تشخص پر مبنی تحریکی نمائندہ حکومت کے بجائے میونسپل کمیٹی کے ادنی درجے پر محسوس ہوتی ہے۔اختیارات کے لئے کردارکا مظاہرہ ضروری ہوتا ہے۔یہ صورتحال نمایا ں ہے کہ آزاد کشمیر اپنے روائیتی کردار اور وقار سے بتدریج محروم ہوتا چلا گیا ہے۔ آزاد کشمیر حکومت کے پہلے نگران اعلی چودھری غلام عباس(مرحوم) آزاد کشمیر میں انتخابی سیاست کے سخت مخا لف تھے۔ان کا کہنا تھا کہ انتخابی سیاست سے آزاد کشمیر اپنے اصل مقصد سے ہٹ جائے گا۔آزاد کشمیر کے سینئر ترین بزرگ رہنما سردار محمد عبدالقیوم خان نے بھی آزاد کشمیر کے سیاستدانوں ،عوام سے کئی بار کہا کہ وہ ”نالی ٹوٹی“ کی سیاست میں مشغول نہ ہوں اس سے عزت بھی جاتی رہے گی۔
یہ امر واضح ر ہے کہ حکومت آزاد جموں و کشمیر صرف آزاد علاقے کی ہی نمائندہ اور ترجمان نہیں ہے۔ نظریاتی‘ فکری اور سیاسی طور پر یہ حکومت تمام ریاست جموں و کشمیر84 ہزار مربع میل اور ڈیڑھ کروڑ کشمیری عوام کی نمائندہ او رترجمان ہے۔ اس حوالے سے حکومت آزادکشمیر چند ہزار مربع میل اور چند لاکھ لوگوں کے مسائل اور معاملات کو حل کرنے کیلئے ہی نہیں ہے بلکہ اس کا اصل اور بنیادی کام ریاست جموں و کشمیر کے مقبوضہ علاقے کو بھارتی فوجی تسلط سے آزاد کرانا اور جموں و کشمیر کے عوام کو ان کا تسلیم شدہ حق خودارادیت دلانا ہے۔لیکن اگر ان بنیادی امور کو پس پشت ڈال دیا جائے تو آزاد کشمیر میں ریاستی حکو مت کے ”سیٹ اپ“ کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا اور اس صورت آزاد کشمیر کو آبادی اور رقبے کے مطابق ہی حیثیت مل سکتی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد نے بھارت کو پریشان کرتے ہوئے اقوام عالم کی توجہ بھی حاصل کی ہے جبکہ دوسری طرف آزاد کشمیر میں حصول اقتداربرائے مفادات کی جنگ جاری ہے جس سے آزاد کشمیر کے قدرتی آفات اور بدترین کرپشن سے مصیبت زدہ عوام کی مشکلات اور مصائب بڑہتے جا رہے ہیں۔


اطہر مسعود وانی
0333-5176429
atharwani@gmail.com
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved