اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-1-514-970-3200 

Email:-jawwab@gmail.com
 

تاریخ اشاعت:۔21-02-2011

برطانوی ہم جنس پرست نکاح کے خواہاں
 
برطانیہ میں رہنے والے مسلمان ہم جنس پرستوں نے بھی دنیا کے دیگر ملکوں میں رہنے والے ہم جنسوں کی طرح برابری کے حقوق کے لیے جاری جدوجہد میں شمولیت اختیار کر لی ہے اور اسلامی روایات کے مطابق نکاح کی خواہش ظاہر کی ہے۔

بی بی سی فائیو لائیو نے خواتین ایک ایسے ہی ہم جنس جوڑے سے ان کے نکاح کے بارے میں بات چیت کی ہے اور ان سے دریافت کیا ہے کہ وہ اپنی جنسی شناخت اور اپنے مذہب اسلام کے بارے میں کیسے توازن رکھ پائے ہیں؟

’ہمارے ملاقات کوئی تین سال پہلے رمضان کے مہینے میں ایک افطار پارٹی پر ہوئی تھی۔ میرے خیال میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد سال کے اس مہینے کو بہت روحانی خیال کرتی ہے اور میرے خیال میں یہی وجہ ہے کہ ہم دونوں میں ایک رشتہ قائم ہو گیا کیونکہ ہم نے اپنے مذہب کے بارے میں تبادلہ خیال کیا‘۔

’بعد میں یہ سلسلہ آگے بڑھا اور ہم ڈیٹ پر گئے‘۔

اسرٰی تین سال پہلے اپنی پارٹنر سارہ سے پہلی ملاقات کو یاد کر رہی تھیں۔ یہ ہم جنس مسلمان جوڑا ایسے برطانوی مسلمان ہم جنس جوڑوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے نکاح کے ذریعے اپنے رشتے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔

میرا خیال تھا کہ مجھے اس رشتے کو جس حد تک ممکن ہو پاک صاف رکھنا چاہیے۔یہ ہم جنس پرست ہونے کے ناطے شاید عجیب لگے لیکن میں نے محسوس کیا کہ ہمیں اسے جہاں تک ممکن ہو سکے ایک باعزت طریقے سے سرانجام دینا چاہیے۔

سارہ

اسرٰی اس وقت کو بہت اشتیاق سے یاد کرتی ہیں جب سارہ نے ان سے شادی کی پیش کش کی تھی۔ ’ایک گھنٹے پر محیط پہلی باقاعدہ ملاقات کے بعد سارہ نے بغیر کسی حیل و حجت کے مجھے شادی کی پیشکش کر ڈالی‘۔

اس موقع پر سارہ بھی گفتگو میں شامل ہو گئیں۔ ’مجھے تو ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ ملاقات چار گھنٹے تک جاری رہی ہو۔ اس دوران ہم نے رات کا کھانا کھایا، کافی پی اور چہل قدمی کی۔ میں نے ایسا کوئی منصوبہ نہیں بنایا تھا لیکن مجھے ایسا لگا جیسے ہمارے مابین یہ اسی طرح ہونا تھا۔ میرا خیال تھا کہ مجھے اس رشتے کو جس حد تک ممکن ہو پاک صاف رکھنا چاہیے‘۔

’یہ ہم جنس پرست ہونے کے ناطے شاید عجیب لگے لیکن میں نے محسوس کیا کہ ہمیں اسے جہاں تک ممکن ہو سکے ایک باعزت طریقے سے سرانجام دینا چاہیے‘۔

روایتی اسلامی طریقہ
اسرٰی اور سارہ نے اسلامی روایات کے مطابق نکاح کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ نکاح عام طور پر مرد اور عورت کے شادی میں بندھن میں بندھنے کے لیے مخصوص ہے، تاہم اسرٰی اور سارہ اس بات سے آگاہ تھیں کہ ان سے پہلے بھی مسلمان ہم جنس پرست اس راستے کو اختیار کر چکے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے اس بارے میں مزید تحقیق کی ٹھانی۔

’چند سہیلیوں نے ہمیں بتایا کہ تمہیں جس مقصد کے لیے کسی سرکاری امام کی ضرورت نہیں ہے اور تمہیں کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو قرآن کا کافی علم رکھنا ہو۔ خوش قسمتی سے ہمیں ایک سہیلی ایسی تھی جس کے پاس قرآن کا کافی علم تھا اور اس نے نکاح پڑھانے کی حامی بھر لی۔ وہ خود بھی ہم جنس تھی اور اس نے کہا کہ نکاح اس کے گھر پر بھی ہو سکتا ہے‘۔

میں ایک مسلمان خاندان میں نہیں پیدا ہوئی تھی اور میں نے صرف پانچ سال پہلے ہی اسلام قبول کیا تھا اس لیے میرا خاندان میرے ہم جنسیت کو قبول کر رہا ہے۔ لیکن کئی بار ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ میں کب اسلام کو خیر باد کہتی ہوں۔

سارہ

ان کی پہلی ملاقات اور شادی کی پیشکش کے تین ماہ بعد دونوں کا نکاح ہوا۔ اس موقع پر اسرٰی نے ایک سفید شلوار قمیض پہنی جبکہ سارہ نے ایک گلابی لباس زیب تن کیا۔ ’میں تو چمڑے کا لباس پہننا چاہتی تھی لیکن اسرٰی نے منع کر دیا۔‘

’ہم نے کیمڈن مارکیٹ سے انگوٹھیاں خریدیں اور ایک نکاح نامہ تیار کیا۔ ہم نے مرد عورت والی شادی کا ایک نکاح فارم انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کیا اور اس کا علیحدہ علیحدہ مطالعہ کیا تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جا سکے کہ آیا اس میں کسی چیز کو تبدیل کرنے کی ضرورت تو نہیں‘۔

’مجھے یاد ہے میں نے اس میں اپنے کتے کا ذکر کیا تھا کہ اگر ہمارے درمیان علیحدگی ہو جائے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اسرٰی کتے کو چوری کر کے لے جائے‘۔ اس مرحلے پر اسرٰی نے آنکھیں گھمائیں اور گویا ہوئی۔ ’ہم نے پانچ پاؤنڈ کا حق مہر طے کیا تھا۔ یہ ایک علامتی چیز تھی اور ہمارے پاس ابھی تک وہ پانچ پانچ پاؤنڈ کے نوٹ موجود ہیں‘۔

ان کے نکاح میں چھ سہیلیوں نے شرکت کی تھی جو ان کے نکاح کی گواہ بھی تھیں۔ ’اور ایک بلی نے بھی‘، سارہ نے لقمہ دیا۔ اس مختصر سی تقریب کی کارروائی عربی میں ہوئی جس میں اضافی دعائیں بھی پڑھی گئیں۔ شادی کی یہ تقریب کسی بھی روایتی مرد عورت کی شادی کی تقریب سے مختلف نہیں تھی۔

ایک دفعہ گے پریڈ کا موقع تھا جب مارچ میں شریک ایک شخص نے پیچھے مڑ کر انتہائی غیر شائستہ لہجے میں کہا کہ ہمیں نہیں پتا تھا کہ خود کش بمباروں کو بھی مارچ میں شرکت کی اجازت ہے اور میرے لیے مارچ میں شریک ایک شخص کی طرف سے یہ کہنا انتہائی تکلیف دہ امر تھا۔

اسرٰی

اسلام میں ہم جنس پرستی سختی سے منع ہے اور کیونکہ یہ نکاح دو ہم جنس پرستوں کے درمیان ہو رہا تھا اس لیے یہ خود اسرٰی کے والدین سمیت مسلمانوں کی اکثریت کے لیے انتہائی قابلِ نفرت چیز تھی۔

اسرٰی کا کہنا ہے کہ ان کے لیے اپنے خاندان کو یہ بتانا کہ وہ ایک ہم جنس پرست خاتون ہیں بہت ہی مشکل ہے۔ ’انہیں معلوم ہے کہ میں مذہبی ہوں لیکن اس حد تک جانا کہ انہیں بتا سکوں کہ میں ہم جنس پرست ہوں بہت مشکل ہے‘۔

’مجھے یاد ہے کہ میں نے خود سے کہا تھا کہ یہ واحد موقع ہے کہ میں شادی کر سکتی ہوں کیونکہ میری فیملی یہاں نہیں تھی۔ میرے دماغ پر ہر وقت یہ بات آ رہی تھی کہ میں اسلامی طریقے سے نکاح کر رہی ہوں اور یہ کہ میں اسلامی روایت کو جس حد تک جا سکتی ہوں برقرار رکھ رہی ہوں‘۔

تاہم سارہ کے اپنے خاندان سے تعلقات قطعی طور پر مختلف ہیں۔ ’کیونکہ میں ایک مسلمان خاندان میں نہیں پیدا ہوئی تھی اور میں نے صرف پانچ سال پہلے ہی اسلام قبول کیا تھا اس لیے میرا خاندان میرے ہم جنسیت کو قبول کر رہا ہے۔ لیکن کئی بار ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ میں کب اسلام کو خیر باد کہتی ہوں‘۔

سارہ اور اسرٰی کو معلوم ہے کہ ان کی شادی غیر روایتی ہے اور یہ کہ دو ہم جنس پرستوں کے مابین نکاح کو مسلمان علماء کی اکثریت مسترد کر دے گی، لیکن سارہ کا کہنا ہے کہ اس سے کسی کو سروکار نہیں ہونا چاہیے۔

انہیں (اہلِ خانہ کو) معلوم ہے کہ میں مذہبی ہوں لیکن اس حد تک جانا کہ انہیں بتا سکوں کہ میں ہم جنس پرست ہوں بہت مشکل ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے خود سے کہا تھا کہ یہ واحد موقع ہے کہ میں شادی کر سکتی ہوں کیونکہ میری فیملی یہاں نہیں تھی۔ میرے دماغ پر ہر وقت یہ بات آ رہی تھی کہ میں اسلامی طریقے سے نکاح کر رہی ہوں اور یہ کہ میں اسلامی روایت کو جس حد تک جا سکتی ہوں برقرار رکھ رہی ہوں۔

اسرٰی

’یہ میرے اور میرے خدا کے درمیان معاملہ ہے اور جب ہم نے شادی کی تو یہ ایک آئیڈیل صورتِ حال نہیں تھی لیکن ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی‘۔

ایسا نہیں ہے کہ مسلم معاشرے میں سارہ اور اسرٰی جیسے ہم جنس جوڑوں کو غم و غصے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ سارہ کا کہنا ہے کہ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم جنسوں میں بھی اسلام سے نفرت کا ایک جذبہ پایا جاتا ہے اور اسی وجہ سے بعض اوقات وہ فکر مند ہو جاتی ہیں۔

اسرٰی نے خاص طور ایک ناخوشگوار واقعے کا ذکر کیا۔’ایک دفعہ گے پریڈ کا موقع تھا جب مارچ میں شریک ایک شخص نے پیچھے مڑ کر انتہائی غیر شائستہ لہجے میں کہا کہ ہمیں نہیں پتا تھا کہ خود کش بمباروں کو بھی مارچ میں شرکت کی اجازت ہے اور میرے لیے مارچ میں شریک ایک شخص کی طرف سے یہ کہنا انتہائی تکلیف دہ امر تھا‘۔

تاہم سارہ کا کہنا ہے کہ یہ صرف مسلمان ہی نہیں ہیں جنہیں ہم جنس کمیونٹی مسترد کر رہی ہے۔ ’میرے خیال میں اس کمیونٹی کے سیکولر عناصر میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ ہم جنس بھی ہوں کو کسی چیز پر ایمان بھی رکھیں سوائے خود اپنے آپ کے یا مادیت کے‘۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved