اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-1-514-970-3200 

Email:-jawwab@gmail.com
 

تاریخ اشاعت:۔04-03-2011

توہینِ رسالت قوانین پر بحث شدید تر

عنبر شمسی

پروفیسر خورشید شہباز بھٹی کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں
تقریباً تیرہ سال پہلے، ایک کیتھولک پادری نےساہیوال کی سیشنز عدالت میں خود کشی کر لی۔خود کشی کرنے والے ریورنڈ جان جوسف تھے، جو اسی فیصل آباد سے تعلق رکھتے تھے جو کہ شہباز بھٹی کا بھی آبائی شہر ہے۔
ریورنڈ جان جوسف کا یہ عمل ایک احتجاج تھا جو انہوں نے اپنے ڈایئوسیز کے ایک مسیحی کو ناموسِ رسالت قانون کے تحت سزائے موت سنائے جانے پر کیا تھا۔ خود کو مٹانے کا یہ عمل اب کس کو یاد ہے۔
آج کے پاکستان میں ناموسِ رسالت کے قوانین ایسا موضوع ہے جس کے خلاف احتجاج یا اس پر محض بحث، چاہے وہ اس کے اصول پر ہو یا عمل درآمد پر، تشدد کو دعوت دینا ہے۔ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر اور اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی نے یہ کوشش کی، اور ان کو قتل کر دیا گیا۔ ان اموات کی وجہ سے یہ باب اب بظاہر بند ہوچکا ہے۔

مسیحی اور حقوقِ انسانی کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کے لیے اصل مسئلہ ناموسِ رسالت کے قانون میں ترمیم کے تحت سزائے موت شامل کیا جانا ہے۔ اس بارے میں جماعتِ اسلامی کے رہنما اور سینیٹر پروفیسر خورشید احمد کہتے ہیں: ’یہ ضیا نے نہیں بنایا تھا ۔ پارلیمنٹ نے ِاسے 1991 میں منظور کیا تھا۔ لیکن اس معاملے میں ایسا تشدد اور خون خرابہ نہیں تھا اور نہ ہونا چاہیے۔‘

یہ وہ زمانہ تھا جب نواز شریف کی حکومت تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی موجودہ پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز، تشدد کی مذمت تو کرتی ہے لیکن قانون میں ترمیم کے بارے میں چپ ہے۔


پاکستان مسلم لیگ نواز تشدد کی مذمت تو کرتی ہے لیکن توہین رسالت قانون میں ترمیم کے بارے میں چپ ہے۔
پروفیسر خورشید نے بھی شہباز بھٹی کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مذہب اور قانون کے اعتبار سے ان کے قتل کا کوئی جواز نہیں ہے، لیکن وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں: ’اس کو محض ناموسِ رسالت کے قانون کے بنیاد پر نہ کہا جائے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ پاکستانی طالبان کون لوگ ہیں، کون لوگ ان کو پیسے دے رہے ہیں، کس کس کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اس لیے ہمیں صحیح تحقیق بھی کرنی چاہیئے اور بلا وجہ اس کو ان قوانین پر نہیں ڈالنا چاہیے۔‘

دوسری طرف حقوق انسانی کے کارکن آئی اے رحمان ہیں۔ وہ بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس معاملے پر پہلے اتنا تشدد دیکھنے میں نہیں آیا۔ آخر اس سے پہلے بھی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور فوجی آمر پرویز مشرف نے حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والے مقامی اور بین الاقوامی اداروں اور مسیحی برادری کے مستقل اصرار کے بعد اس قانون میں ترمیم لانے کی کوشش کی۔

لیکن آئی اے رحمان رحمان کہتے ہیں کہ حالیہ تشدد کے پس منظر میں پہلے معاملات مذہی تھے اور اب یہ مسئلہ سیاسی ہو گیا ہے۔ ’ہمارے ملک کے انتہاپسند عناصر ریاست پر قبضہ کرنے کے لیے اسے استعمال کر ہے ہیں اور وہ لوگوں میں اپنے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔‘

دونوں کے نظریے فرق تو ہیں، لیکن اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ معاشرے میں عدم برداشت اور تشدد کے بڑھتے ہوئے رحجان کی وجہ سے یہ قانون تشدد میں اضافے کا ایک اور جواز بن چکا ہے۔

آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ اب دیکھیں کتنے لوگ انتہا پسندی کی وجہ سے مارے جا چکے ہیں۔ وہ سب ناموسِ رسالت کی بنا پر نہیں مارے گئے، وہ اس لیے مارے گئے کیونکہ وہ ان کے ریاست پر قبضے کے پیش رفت میں رکاوٹ تھے۔


مسیحی کارکنوں کے لیے اصل مسئلہ ناموسِ رسالت کے قانون میں ترمیم کے تحت سزائے موت شامل کیا جانا ہے
پروفیسر خورشید اس رائے سے انکار کرتے ہیں۔ ’یہ غلط ہے۔ اس کی ایک اور وجہ شدت پسندوں کی عدالت میں سزا دلوانے میں، تفتیشی اداروں اور خفیہ اداروں کی ناکامی ہے۔ یہ پورے سکیورٹی نظام کی ناکامی ہے۔ پچھلے دس سالوں میں کسی کیس کا واضح طور پر حل نہیں ملا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ جب تک ان لوگوں کو احساس نہیں ہو گا کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا ملتی ہے، اور یہ رکاوٹ نہیں بن رہا ۔تو یہ جو حالات ہیں، ان میں حکومت کی کارکردگی اور ناکامی کا بہت بڑا دخل ہے۔

دوسری جانب آئی اے رحمان کہتے ہیں کہ تشدد کا پہلو اب زیادہ ہو رہا ہے کیونکہ مذہبی انتہا پسندوں کے پاس پہلے بندوقیں نہیں تھیں۔

لیکن انتہا پسندی کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟

رحمان صاحب کے مطابق، ایک وزیر مارا گیا ہے اور ایک گورنر لیکن بہت سے لوگ اس کی مذمت نہیں کرر ہے۔ ’ان کے دلوں میں خاص نرم گوشہ ہے ان انتہا پسندوں کے لیے جو یہ کارروائی کرتے ہیں۔ یہ وہ جماعتیں ہیں جو اپنے آپ کو سیاسی جماعتیں کہتی ہیں لیکن درحقیقت مذہبی جماعتیں ہیں۔‘

کیا اس کا حل ڈھونڈنے کے لیے دیر ہو چکی ہے؟ کیا پاکستان تشدد کی راہ پر مستقل طور پر چل پڑا ہے؟ آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ اس مسئلہ کا حل سیاسی جماعتوں کے پاس ہی ہے اگر وہ مل بیٹھ کر ڈھونڈیں۔

‘کسی بھی چیز کے لیے دیر نہیں ہوتی۔اگر ہاتھ چھوڑ کر بیٹھ جائیں تو کل بھی دیر تھی، اگر ہاتھ نہ چھوڑیں تو آنے والا کل بھی دیر نہیں ہو گی۔‘

چاہے تشدد اور انتہا پسندی کی راہ سے مڑنے کے لیے سیاسی حل نکالا جائے یا سکیورٹی نظام کی اصلاحات کی جائے، جب تک پاکستان میں کلیدی کردار رکھنے والی قوتوں میں اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہوتا، یہ ممکن نہیں ہوگا۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved