پاکستان
کی فوجی قیادت کی پہلی آزمائش 1962
میں ہوئی جب
چین نے بھارت سے جنگ کے وقت رات
کو جگا کر صدر ایوب خان کو مطلع کیا
کہ اس وقت پاکستان کے پاس کشمیر حاصل
کرنے کا موقع ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی
کہ "جی حضوریے" ایوب خان کی کانپتی
ٹانگیں اس فیصلہ کن ساعت کا بوجھ
برداشت نہ کرسکیں اور قسمت نے پاکستان
کو جو موقع عطا کیا تھا وہ ہاتھ سے
نکل گیا۔ اس لمحہ کی بزدلی جب چھپانا
ممکن نہ رہا تو غالباَ ایوب کی تحریک
پر اسوقت کے پرنسپل سٹاف افسروں نے
کشمیر پر قبضہ کے لئے منصوبہ بندی کا
آغاز کیا۔ رن آف کچھ کی جھڑپ کے دوران
پاکستان کی خوش قسمتی کہ اس کی فوج کے
چند پیشہ ور افسر اس وقت درست جگہ پر
متعین تھے سو اس جھڑپ میں کامیابی نے
صدر ایوب کی کمزور ٹانگوں کو تھوڑی
قوت دی اور اپنی ناپید خوداعتمادی کو
توانا کرنے کے لئے انہوں نے یہ مفروضہ
گھڑا کہ "ہندو بزدل قوم ہیں اور لڑائی
نہیں لڑ سکتے"۔
اس مفروضہ اور "اسلامی اخوت" کی بنیاد
پر "آپریشن جبرالٹر" کے خدوخال مرتب
کئے گئے۔ خیال یہ تھا کہ قریباَ چالیس
ہزار پاکستانی "مجاہدین" اور کمانڈوز
مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوں گے اور
کشمیری مسلمانوں کی مکمل حمایت کے
ساتھ بھارتی افواج کا ناک میںدم کر
دیں گے اور کیونکہ "ہندو لڑ نہیں سکتا"
اس لئے بھارت مجبور ہوجائے گا کہ اس
مسئلہ کے حل کے لئے مذاکرات کی میز پر
آئے اور کشمیر پاکستان کے حوالے کردے
(کچھ سُنا سُنا سا محسوس ہوتا ہے نا
یہ سب؟ اس پر بعد میں بات کریں گے
انشاء اللہ)
اگست
سن انیس سو پینسٹھ میںیہ آپریشن شروع
ہوا لیکن چار اضلاع کے سوا باقی تمام
مقبوضہ کشمیر میں ہمارے کشمیری
بھائیوں نے پاکستانی فوجیوںکی مخبری
کر کے سینکڑوں (ہزاروں نہیں، لاکھوں
نہیں سینکڑوں) روپے کمائے۔ نتیجتاَ
بھارتی فوج نے سیز فائر لائن کے پار
زبردست حملہ کیا اور حاجی پیر پاس کی
اہم چوکی پاکستان سے چھین لی۔ آپریشن
جبرالٹر نہ صرف ناکام ہو چکا تھا بلکہ
بھارت پاکستان کے اندر (معمولی ہی سہی)
پیش قدمی کرنے میں بھی کامیاب ہو چُکا
تھا۔ اس موقعہ پر پاکستان کی فوج نے
اپنے جیتے ہونے کا ثبوت پیش کیا اور
آپریشن گرینڈ سلام شروع کیا۔ اس
آپریشن کا مقصد یہ تھا کہ اکھنور کو
بقیہ بھارت سے کاٹ کر کشمیر میں اس کی
فوج کا رابطہ باقی ملک سے کاٹ دیا
جائے۔ اس مقصد کے لئے پوری رازداری کے
ساتھ ٹینک اور توپیںملحقہ علاقے میں
پہنچائی گئیں اور پہلی ستمبر انیس سو
پینسٹھ کو آپریشن گرینڈ سلام کا آغاز
ہوا۔
بھارت
کی طرف سے اس علاقہ کے دفاع کی ذمہ
داری ابتدائی طور پر 191 بریگیڈ کی
تھی جس کے زیر کمان چار انفنٹری (پیادہ)
بٹالین تھیں۔ آپریشن جبرالٹر کے بعد
ایک رسالہ (ٹینک) سکواڈرن (14 ٹینک)
بھی اس بریگیڈ کے زیر کمان دے دیا گیا
تھا۔ بھارتی منصوبہ سازوں کے خیال میں
پاکستانی حملہ کا زیادہ امکان
نوشہرہ۔جھنگر محور پر تھا اور اسی وجہ
سے "چھمب – جوڑیاں"محور پر ان کا
دفاع زیادہ مضبوط نہ تھا۔ آپریشن
جبرالٹر کے بعد بھارتی منصوبہ سازوں
نے چھمب جوڑیاں سیکٹر کی حفاظت کی ذمہ
داری کے لئے ایک ڈویژن تعینات کرنے کا
فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لئے
بھارتیوں نے ایک نیا ڈویژن "دس ڈویژن"
کھڑا کیا جو گرینڈ سلام کے آغاز کے
وقت بنگلور میں اپنی تشکیل کے مراحل
سے گزر رہا تھا۔ دس ڈویژن کو پندرہ
ستمبر تک 191 بریگیڈ اور 80 بریگیڈ کی
کمان سنبھالنی تھی۔ اٹھائیس اگست تک
ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر اکھنور پہنچ چکا
تھا لیکن یکم ستمبر تک اس نے اپنا
مواصلاتی جال نہیں بچھایا تھا اور اس
کی موجودی علامتی تھی۔ اس ڈویژن کے
پاس صرف چودہ ٹینک تھے جو پھیلا کر
ٹروپس (تین ٹینک) کی صورت میں تعینات
کئے گئے تھے اور ان کے مابین کافی
فاصلہ تھا۔ یہ ٹینک بھی
AMX 13 قبیل کے ہلکے ٹینک تھے.
اس کے
مقابلے میں پاکستان کی طرف سے گرینڈ
سلام کی ذمہ داری بارہ ڈویژن کی تھی
جس کا ہیڈ کوارٹر مری میں ہے اور اس
کی کمان میجر جرنل اختر حسین ملک کے
ہاتھ تھی۔ اس ڈویژن کی بنیادی ذمہ
داری کشمیر کے محاذ پر پاکستانی
سرحدوں کا دفاع تھی اور اس کے مقابل
تین بھارتی ڈویژن اور دو خودمختار
Independant
بریگیڈ
تعینات تھے۔ آپریشن گرینڈ سلام کے لئے
اختر حسین ملک کو دو ٹینک رجمنٹ، ایک
خودمختار آرٹلری بریگیڈ جو چار کور کا
حصہ تھا، ایک اور آرٹلری بریگیڈ جو
سات ڈویژن کا حصہ تھا، 10 انفینٹری
بریگیڈ جو سات ڈویژن کا حصہ تھا، ایک
بریگیڈ آزاد کشمیر رائفلز کا اور 102
بریگیڈ جو ان کے اپنے ڈویژن کا حصہ
تھا، دیئے گئے۔ اٹھائیس اگست کی شام
تک اختر حسین ملک کھاریاں پہنچ چکے
تھے جہاںسے انہوں نے گرینڈ سلام کی
قیادت کرنا تھی۔ پاکستان کا منصوبہ یہ
تھا کہ دو انفنٹری بریگیڈ سے جن میں
سے ہر ایک کو ایک ٹینک رجمنٹ کی مدد
حاصل ہوگی، پہلے چھمب پر قبضہ کیا
جائے اور اس کے بعد اکھنور پر قبضہ
کیا جائے۔ چھمب پر قبضہ کے لئے آزاد
کشمیر رائفلز کے بریگیڈ کو ذمہ داری
سونپی گئی اور اکھنور پر قبضہ کی ذمہ
داری دس بریگیڈ کو دی گئی۔ اکھنور پر
قبضہ کے بعد 102 بریگیڈ نے آگے بڑھ کر
اکھنور – جھنگر محور پر پاکستانی 25
بریگیڈ سے ملاپ کرنا تھا اور آخری
مرحلہ کے طور پر راجوری پر قبضہ کرنا
تھا جسے 1948 میں ایک بھارتی ٹینک
سکواڈرن نے پاکستان سے چھین لیا تھا۔
عمومی
طور پر جب جنگوں کی تاریخ لکھی جاتی
ہے تو اپنی تعداد کو گھٹا کر اور دشمن
کی تعداد کو بڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔
پاکستان اور بھارت میں یہ بیماری کچھ
زیادہ ہے شائد۔ اوپر بیان کئے گئے
اعداد و شمار سے آپکو کچھ اندازہ تو
ہوگیا ہوگا لیکن چھمب جوڑیاں سیکٹر
میں دونوں فوجوں کی تعداد کا موازنہ
کچھ ایسا تھا۔
|
|
بھارت
|
پیادہ فوج
|
8.25 بٹالین
|
4 بٹالین
|
رسالہ
|
6 سکواڈرن
|
1 سکواڈرن
|
توپخانہ
|
18 بیٹریاں
|
3.5 بیٹریاں
|
یہاں
یہ امر قابل ذکر ہے کہ مجموعی طور پر
پاکستان کی عددی طاقت بہرحال بھارت سے
بہت کم تھی لیکن اس آپریشن کے لئے جس
جگہ کا انتخاب کیا گیا وہ بہت موزوں
تھا اور اس حملہ کے لئے انتہائی
رازداری کے ساتھ ٹینک اور دوسرا اسلحہ
ملک کے دوسرے حصوں سے اس سیکٹر میں
پہنچایا گیا تھا تاکہ دشمن پر فیصلہ
کن عددی برتری حاصل کی جاسکے۔ ٹینکوں
کے معاملہ میں بالخصوص پاکستان کو
فیصلہ کن عددی اور معیاری برتری حاصل
تھی کہ بھارتی ٹینکوں کے مقابلے میں
پاکستان کے پاس امریکی ساختہ
پیٹن ٹینک تھے جن کی مار اور
کارکردگی بھارتی ٹینکوں سے بہت بہتر
تھی۔ گویا تدبیراتی لحاظ سے یہ ایک
انتہائی شاندار منصوبہ تھا جس میں
بھرپور قوت کے ساتھ دشمن کے دفاعی
حصار کے کمزور حصہ پر حملہ کرکے اسے
گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا تھا۔
یکم
ستمبر کی صبح ساڑھے تین بجے پاکستانی
توپخانہ نے انتہائی شدید بمباری سے
گرینڈ سلام کا آغاز کیا۔ روایت طور پر
توپوں کی تنصیب اس طرح کی جاتی ہے کہ
سب سے آگے فیلڈ گنز، پھر میڈیم گنز
اور سب سے پیچھے ہیوی گنز لگائی جاتی
ہیں۔ اس طرح بھاری اور درمیانہ
توپخانہ کی حفاظت بھی بہتر ہوتی ہے
اور فائر کو ایک جگہ پر مرتکز کرنا
بھی ممکن ہوتا ہے۔ گرینڈ سلام کے لئے
آرٹلری کے انچارج بریگیڈیئر امجد نے
یہ ترتیب بدل کر درمیانہ اور بھاری
توپخانہ فلیڈ گنز سے آگے متعین کردیا
تاکہ آپریشن کے دوران توپخانہ کا فائر
بوقت ضرورت ہر جگہ مہیا ہو سکے اور
بڑی توپوں کو منتقل کرنے میں وقت ضائع
نہ ہو۔ فوجی تکنیک کے لحاظ سے یہ ایک
"ماسٹر پیس" تھا۔ ڈیڑھ گھنٹہ کی
ظالمانہ بمباری کے بعد یکم ستمبر کی
صبح پانچ بجے پاکستانی پیادہ فوج اور
ٹینکوں نے باقاعدہ حملہ کا آغاز کیا۔
پاکستانی ٹینک رجمنٹس جنہیں سکواڈرنز
میں بانٹ دیا گیا تھا، کا آغاز اچھا
نہ تھا اور گیارہ کیویلری کو بھارتی
بیس لانسرز کے چھ ٹینکوں نے جنوب کی
طرف سے روکا اور شمال کی طرف سے پیش
قدمی کرتی ہوئی تیرہ لانسرز کو بھارتی
بیس لانسرز کے ایک ٹروپ (تین ٹینک)
اور ٹینک شکن توپوںکے انتہائی
خوبصورت دفاع نے پیش قدمی سے باز رکھا۔
اس دن کی پہلی حماقت پاکستانی 102
بریگیڈ کے کمانڈر کی طرف سے ہوئی جب
اس نے جنرل اختر ملک کی واضح ہدایات
کے برعکس ایک معمولی اہمیت کے قصبہ
برجیال پر قبضہ کرنے میں پورا دن لگا
دیا جبکہ جرنل ملک کی واضح ہدایات
تھیں کہ اس قصبہ کے پہلو سے نکل جایا
جائے۔ تین بجے دوپہر کو آدھے 102
بریگیڈ اور تیرہ لانسرز کے ایک
سکواڈرن نے برجیال پر قبضہ مکمل کر
لیا۔ 102 بریگیڈ کے کمانڈر کے اس
ایڈونچر کا نقصان یہ ہوا کہ پاکستانی
افواج طے کردہ منصوبہ کے مطابق یکم
ستمبر کو دریائے توی کے پار نہیں جا
سکیں۔ 102 بریگیڈ کے اپنی طاقت کو
بکھیرنے کا نقصان یہ ہوا کہ توپخانہ
کو بھی مختلف مقامات پر بکھرا ہوا
فائر دینا پڑا اور اس کی تمام تر قوت
ایک مقام پر مرتکز کرکے دشمن کی صفوں
میں شگاف نہیں ڈالا جا سکا۔ پاکستانی
102 بریگیڈ کمانڈر کی حماقت کے باوجود
اس روز شام تک بھارتی 191 بریگیڈ اپنی
آخری سانسوںپر تھا اور اس کی اکلوتی
فیلڈ رجمنٹ 161 فیلڈ رجمنٹ اپنی توپیں
چھوڑ کر پسپا ہوچُکی تھی اور یکم
ستمبر کی شام تک تیرہ لانسرز دریائے
توی کے کنارے پہنچ چکی تھی لیکن اس نے
اسے عبور کرنے کی کوشش نہ کی۔
ادھر
بھارتی دس ڈویژن نے 191 بریگیڈ کو حکم
دیا کہ وہ اپنی موجودہ پوزیشن چھوڑ کر
اکھنور کا دفاع مضبوط بنائیں اور
اکھنور کے دفاع پر مامور 41 پہاڑی
بریگیڈ کو حکم دیا گیا کہ وہ جلد از
جلد جوڑیاں-تروٹی محور پر جگہ سنبھال
لیں۔ دو ستمبر 1965 کی صبح آٹھ بجے تک
چھمب بھی پاکستانی افواج کے قبضہ میں
آچکا تھا۔ اور پھر وہ ہوا جس کا ماتم
آج بھی کیا جاتا ہے۔ گیارہ بجے صبح
کمانڈ ان چیف جنرل موسٰی نے آپریشن کی
کمانڈ جنرل اختر حسین ملک سے لے کر
ایوب خان کے چہیتے جنرل یحیی خان کو
سونپ دی تاکہ اکھنور کی فتح کا سہرا
ایک "ناپسندیدہ" افسر کی بجائے ایک "چہیتےافسر"
کے سر پر سجے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ
کی اس "جنگی" چال نے دشمن کو بھی
حیران کر دیا اور بھارتی فوجی مورخ
لکھتا ہے کہ "اس مشکل کے وقت ایک عجیب
بات ہوئی۔ دشمن ہماری مدد کو آیا اور
ہمیں چوبیس گھنٹے دے دئے اپنے دفاع کو
مضبوط بنانے کے لئے"۔ جنرل یحییٰ نے
کمانڈ سنبھالنے کے بعد آرام سے اپنے
ماتحتوں کا اجلاس اڑھائی بجے دوپہر
طلب کیا اور رات کو دریائے توی پار
کرنے کے احکامات دئے۔ بھارتی 191
بریگیڈ پچھلی رات ہی وہ علاقہ خالی
کر چکا تھا سو رات ساڑھے نو بجے تک دس
بریگیڈ اور تیرہ لانسرز نے دریا کے
دوسرے کنارے پر قبضہ کرلیا یعنی پورے
ایک دن سے بھی بعد۔ تین ستمبر کی صبح
یحیی خان نے دس بریگیڈ کو اس روز رات
تک جوڑیاں پر قبضہ کرنے کا حکم دیا۔
اس وقت تک بھارتی 41 پہاڑی بریگیڈ
مناسب انداز سے مورچہ زن ہو چُکا تھا
اور دفاع کے لئے تیار تھا۔ اس وقت بھی
بھارتی تیاری اس قدر نہیں تھی کہ وہ
ایک مرتکز پاکستانی حملے کو روک سکے
لیکن بھارتی جگہ کے عوض وقت خرید رہے
تھے تاکہ وہ ایک متبادل محاذ کھول کر
پاکستانی دباؤ کو کم کر سکیں۔
اسی
اثنا میں بھارت نے بیس لانسرز کے دو
سکواڈرن کے سوا باقی تمام یونٹ کو
پٹھانکوٹ سے منتقل کرکے 41 بریگیڈ کی
زیر کمان دے دیا۔ پاکستانی 10 بریگیڈ
نے دو اطراف سے حملہ کا آغاز کیا۔
دوبٹالین پیادہ فوج اور ایک ٹینک
سکواڈرن نے چھمب – اکھنور محور پر
شمالی جانب سے حملہ کا آغاز کیا اور
ایک بٹالین پیادہ فوج اور ایک سکواڈرن
ٹینک نے جنوبی جانب سے نواں ہمیرپور
کی طرف سے حملے سے آغاز کیا تاکہ
دریائے توی کے شمالی کنارے کے ساتھ
ساتھ چلتے ہوئے دشمن کو اس کے عقب سے
جالیں۔ ایک بجے دوپہر حملہ شروع ہوا
اور علاقہ میں برساتی نالوں کی کثرت
کی وجہ سے پیش قدمی کی رفتار سُست تھی۔
قریباَ پانچ بجے شام تیرہ لانسرز
بھارتی دفاعی چوکیوں پر حملہ آور ہوئی
جبکہ شام چھ بجے جنوبی حصۃ نواں ہمیر
پور پہنچ گیا۔ اس وقت بھارتی اکھنور
کے دفاع کے لئے اپنا تیسرا بریگیڈ (28
بریگیڈ) بھی میدان میں لے آئے اور اسے
انہوںنے اکھنور سے قریباَ چار میل
مغرب میں تعینات کر دیا۔ چار ستمبر کی
صبح یحیی نے چھ بریگیڈ کو دریائے توی
کے کنارے 102 بریگیڈ کی جگہ لینے
کااور 102 بریگیڈ کو آگے آکر اکھنور
پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ اسی روز
ساڑھے گیارہ بجھے دس بریگیڈ نے بھارتی
41 بریگیڈ پر حملے کا آغاز کیا۔ تیرہ
لانسرز نے بھارتی چوکیوں کے عقب میں
جانے کی بہت کوشش کی لیکن ان کوششوں
کو بھارتی بیس لانسرز کے دو ٹینک
ٹروپس نے زیادہ کامیاب نہیں ہونے دیا
اور دن کی روشنی کے اختتام تک تیرہ
لانسرز معمولی پیش قدمی ہی کرسکی تھی۔
بھارتی منصوبہ سازوں کو اس وقت تک علم
ہو چُکا تھا کہ وہ 41 بریگیڈ کی
موجودہ پوزیشن زیادہ دیر تک برقرار
نہیں رکھ سکیں گے اور چار اور پانچ
ستمبر کی درمیانی رات انہوں نے 41
بریگیڈکو اکھنور واپس بلا کر اس کے
دفاع کی ذمہ داری دے دی۔ پانچ ستمبر
کی صبح 102 بریگیڈ بھی اکھنور کے نواح
میں پہنچ گیا اور تیرہ لانسرز بھارتی
28 بریگیڈ پر حملہ آور ہوئی جو اکھنور
سے صرف چار میل کی دوری پر مورچہ زن
تھا۔ تمام دن کے شدید لڑائی کے بعد
اکھنور پر قبضہ ابھی باقی تھا جب چھ
ستمبر کی صبح نے سب کچھ بدل دیا۔
کشمیر کو بیسویں صدی میں آزاد نہیں
ہونا تھا۔
بشکریہ
:
میجر
جنرل شوکت رضا Pakistan Army War 1965
میجر (ریٹائرڈ)
آغا ہمایوں امین History of Pakistan
Army from 1757 to 1977
|