پاکستان ٹیلی
کمیونیکیشن اتھارٹی یا پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ اس نے اسلام کے خلاف
مواد شائع کرنے پر مختلف ویب سائٹس پر
موجود قریباً ڈیڑھ درجن لنکس یا یو آر ایلز کو بلاک کر دیا ہے جبکہ
گوگل اور ایم ایس این سمیت چھ سرچ انجنز کی نگرانی کی جا رہی ہے۔
یہ قدم لاہور ہائی کورٹ کے جمعرات کے فیصلے کے بعد اٹھایا گیا جس میں
عدالت نے چھ سرچ انجنز کے علاوہ ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ یو ٹیوب اور
دیگر ویب سائٹس پر موجود کوئی ڈیڑھ درجن لنکس پر یہ کہہ کر پابندی عائد
کرنے کا حکم دیا تھا کہ ان پر ایسا مواد شائع کیا جا رہا ہے جس سے
اسلام کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔
ان سرچ انجنز میں گوگل، یاہو، ایم ایس این، بِنگ
اور ایمیزن شامل ہیں۔
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ہدایت پر مختلف
ویب سائٹس پر موجود سترہ لنکس کو’اسلام کے خلاف مواد‘ شائع کرنے کی
بنیاد پر بلاک کر دیا گیا ہے جبکہ چھ سرچ انجنز کے علاوہ یو ٹیوب کی
بھی نگرانی کی جا رہی ہے
خرم علی مہران، ترجمان پی ٹی اے
اس سے پہلے جمعہ کو ویب سائٹس کی نگرانی کرنے کے لیے وزرات انفارمیشن
ٹیکنالوجی کی کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا جس میں ان ویب سائٹس پر موجود
لنکس کو بلاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں یہ طے پایا کہ
چھ سرچ انجنز اور یوٹیوب کی نگرانی کی جائے اور اگر کوئی قابل اعتراض
مواد شائع ہوتا ہے تو ایسی صورت میں پورا سرچ انجن یا ویب سائٹ بلاک
کرنے کے بجائے صرف اس لنک کو بلاک کیا جائے۔
اس کے علاوہ پی ٹی اے کو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایسی انفارمیشن
کو بلاک کرنے سے گریز کرے جو طلبہ یا محققین کی ضرورت ہو۔
واضح رہے کہ جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ کے بہاولپور بینچ کے جج جسٹس
مظہر اقبال سوھو نے ایک شہری کی درخواست کی سماعت کے دوران چھ سرچ
انجنز کے علاوہ ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ یو ٹیوب اور دیگر ویب سائٹس پر
موجود کوئی ڈیڑھ درجن لنکس پر پابندی لگانے کا حکم دیا تھا۔
درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ان سرچ انجنز اور ویب سائٹس
پر ایسا مواد شائع کیا جا رہا ہے جس سے اسلام کی توہین کا پہلو نکلتا
ہے اور یہ کہ قرآن کے بارے میں حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کیا جا رہا
ہے۔ساتھ ہی عدالت نے پی ٹی اے کے لیگل ڈائریکٹر کو ہدایت کی ہے کہ وہ
اٹھائیس جون کو عدالت کے روبرو پیش ہوں۔
گوگل کی سرچ پاکستانیوں میں بے حد مقبول ہے
واضح رہے کہ اس سے پہلے انیس مئی کو حکومت پاکستان نے لاہور ہائی کورٹ
کے حکم پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر پابندی عائد کی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ نے یہ حکم ایک تنظیم کی درخواست پر دیا تھا جس میں کہا
گیا تھا کہ فیس بک پر پیغمبر اسلام کے خاکے بنانے کا مقابلہ ہو رہا ہے
لہذا اس ویب سائٹ پر پابندی لگائی جائے۔
اگلے ہی روز پی ٹی اے نے یوٹیوب کے علاوہ وِکی پیڈیا کے کچھ حصوں کے
ساتھ ساتھ کوئی آٹھ سو یو آر ایلز ( یونیفارم رسورس لوکیٹر) یہ کہہ کر
بلاک کردیں تھیں کہ ان پر بھی وہی مواد شائع کیا جا رہا تھا جس طرح کا
مواد فیس بک پر شائع ہو رہا تھا۔
اکتیس مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے فیس بک پر پابندی ختم کرنے کا حکم دیا
تھا لیکن پاکستان میں بلیک بیری موبائل استعمال کرنے والوں کے لیے اب
بھی فیس بک تک رسائی پر پابندی ہے۔
بشکریہ بی بی
سی اردو |