اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-1-514-970-3200 

Email:-jawwab@gmail.com
 

 
 

تاریخ اشاعت:۔29-06-2010

پاکستان: زیر التوا مقدموں کی تعداد 13 لاکھ تک پہنچ گئی
 
پاکستان میں سستا اور فوری انصاف دلانے کے بلنگ بانگ دعوی ماضی کی بہت سے حکومتیں کرتی رہی ہیں۔ لیکن اس ضمن میں کسی بھی جہموری یا فوجی آمریت میں کوئی ٹھوس کام نہیں کیا گیا۔ دو سال قبل عدلیہ کی آزادی کی تاریخی جدوجہد کے بعد معرض وجود میں آنے والی آزاد عدلیہ سے عدالتوں میں برس ہا برس تک دھکے کھانے والے لوگوں نے بہت سی امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔ دو سال گزرنے کے باوجود سستے اور فوری انصاف کا حصول ایک خواب ہی معلوم ہوتا ہے۔پاکستان میں آزاد عدلیہ کی بحالی کے باوجود پاکستانی عدالتوں میں زیرِ التوا مقدموں کی تعداد تیرہ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ایک اندازے کے مطابق ملک بھر کی ضلعی عدالتوں میں روزانہ دو سے تین ہزار نئے مقدمات آتے ہیں جبکہ ان عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات پر فیصلوں کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔پاکستان کی اعلی عدالتوں، سپریم کورٹ، چار ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ میں زیر التوامقدموں کی تعداد ایک لاکھ پچاسی ہزار سے زیادہ ہے اور ان میں بعض مقدمے ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے زیر التوا ہیں۔حالیہ برسوں میں اعلی عدالتوں میں ججوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے لیکن سپریم کورٹ کے علاوہ کسی بھی ہائی کورٹ میں اب بھی ججوں کی تعداد قانون کے تحت متعین کی گئی ججوں کی تعداد سے کم ہے۔سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدموں کی تعداد سترہ ہزار چار سو سے زیادہ ہے۔ سپریم کورٹ میں دو ایڈہاک ججوں سمیت اٹھارہ جج ہیں۔سپریم کورٹ کے رجسٹرار ڈاکٹر فقیر حسین کا کہنا ہے کہ نئی جوڈیشیل پالیسی پالیسی کے تحت عدالتوں کو پرانے مقدمات کو ایک سال کی مدت میں نمٹانے کا جو ٹارگٹ دیاگیا تھا وہ شاید مقررہ مدت تک مکمل نہ ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان ہائی کورٹ اور اس کی ماتحت عدالتوں نے اپنا کام وقت سے پہلے مکمل کر لیا ہے جبکہ تینوں صوبوں کی ہائی کورٹس اور اس کی ماتحت عدالتوں نے اسی سے نوے فیصد کام مکمل کر لیا ہے۔سپریم کورٹ کے رجسٹرار کا کہنا تھا کہ ان عدالتوں کو مقدمات کا بیک لاگ ختم کرنے کے لیے مزید دو سے تین ماہ کاعرصہ لگ سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسی جوڈیشل پالیسی کے تحت صوبہ پنجاب میں مزید دو سو جج تعینات کیے گئے ہیں جبکہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں نوے نئے ججوں کو تعینات کیاگیا ہے۔ اس طرح صوبہ سندھ میں بھی نئے ججوں کی بھرتیوں کا عمل جاری ہے جبکہ بلوچستان میں نئے جج تعینات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

پنجاب

پاکستان میں سب سے زیادہ زیرِ التوا مقدمے صوبہ پنجاب میں ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں زیرِ التوا مقدموں کی تعداد ایک لاکھ پندرہ ہزار سے زیادہ ہے جبکہ ماتحت عدالتوں میں نو لاکھ پچاس ہزار سے زائد مقدمے زیر التو ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں اسوقت فعال ججوں کی تعداد چالیس کے قریب ہے جبکہ قانون کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد پچاس سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔

پشاور

پشاور ہائی کورٹ میں اٹھارہ جج صاحبان تعینات ہیں جن میں سے ایک جج کو توہین عدالت کا نوٹس ملنے کی وجہ سے وہ کسی مقدمے کی سماعت نہیں کرسکتے جبکہ سندھ ہائی کورٹ میں ستائیس جج تعینات ہیں۔

سندھ

سندھ ہائی کورٹ میں زیرِ التو مقدموں کی تعداد تیس سے زیادہ ہے جبکہ ماتحت عدلیہ میں ایک لاکھ سے زیادہ مقدمے زیرِ التوا ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ میں صرف پچیس جج موجود ہے۔ قانون کے مطابق سندھ ہائی کورٹ چالیس جج ہونے چاہیں۔بلوچستان ہائی کورٹ میں سب سے کم مقدمات زیر سماعت ہیں۔ بلوچستان ہائی کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہے۔ جبکہ بلوچستان کے اٹھارہ اضلاع کی ماتحت عدالتوں میں چھ ہزار کے قریب مقدمے زیر التوا ہے۔

بلوچستان

بلوچستان کی ہائی کورٹ میں اس وقت چیف جسٹس سمیت پانچ جج صاحبان کام کرہے ہیں جبکہ وہاں پر ابھی تک ججوں کی چھ آسامیاں خالی ہیں۔ہائی کورٹ کی رولنگ کے مطابق ایک سول جج کے پاس دوہزار کے قریب مقدمات سماعت کے لیے ہونے چاہئیں جبکہ عملا ایک سول جج کے پاس آٹھ ہزار سے زائد مقدمات زیر سماعت ہوتے ہیں۔ملک کے بڑے شہروں کی ضلعی عدالتوں میں چھ سے لیکر دس سول جج صاحبان تعینات کییگئے ہیں لیکن مقدمات ہیں کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ دیوانی عدالتوں میں پیش ہونے والے ایک شخص چارلس فرنینڈو نے اپنے مقدمے کا احوال بیان کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے ان کے بہنوئی کو تین سال پہلے شبہے میں گرفتار کر لیا تھا۔گزشتہ تین سال سے پیشیاں بگھت رہے ہیں جبکہ اصل ملزمان بیرون ملک فرار ہوچکے ہیں۔چارلس کا کہنا تھا کہ وہ ہر پیشی پر عدالت میں حاضر ہوتے ہیں اور نئی تاریخ لیکر واپس چلے جاتے ہیں۔خاتون وکیل عظمی عبید کا کہنا ہے کہ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ججوں کی کمی کے علاوہ ججوں کا عام درخواستوں پر لمبی لمبی تاریخیں بھی دینا ہے جس کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دیوانی مقدمات کے فیصلے میں پانچ سے دس سال کا عرصہ لگنا معمول کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ جوڈیشل پالیسی پر عملدرآمد کے لیے ان ماتحت عدالتوں پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی ہونا چاہیے
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved