اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

 

تاریخ اشاعت:۔19-03-2010

قلب کا ٹیلی ویژن

انسانی قلب کو ٹیلی ویژن سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ قلب کا شیشہ صاف ہو تو اس میں نہ صرف اس دنیا میں دوردراز جگہ پر ہونیوالے واقعات نظر آ جاتے ہیں بلکہ عالم پرزخ کی شخصیتوں کی صورتیں بھی سامنے آ جاتی ہیں اور ان کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ جناب رسولؐ پاک کا ارشاد گرامی ہے کہ نیک کام کرنے سے قلب پر ایک سفید نقطہ اور برا کام کرنے سے سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے۔ چنانچہ جو شخص مسلسل نیک کام کرتا چلا جاتا ہے‘ اس کا سارا قلب منور ہو جاتا ہے اور جو برائی میں آگے بڑھتا جاتا ہے‘ اس کا سارا قلب سیاہ ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ قلب کا شیشہ بالکل سیاہ ہو جائے‘ تو اس میں کچھ نظر نہیں آ سکتا۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ متقین کو شیطان کا وسوسہ مس بھی کر جائے‘ تو وہ فوراً خبردار ہو جاتے ہیں اور انہیں نظر آ جاتا ہے کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے اور جو دوسرے ہیں انہیں شیاطین اوندھے مونہہ برائی میں گھسیٹتے پھرتے ہیں‘ مگر انہیں کچھ پتہ نہیں چلتا اس لئے کہ انکے قلوب تاریک اور سیاہ ہو چکے ہیں۔
سورہ النور میں جہاں روشن قلوب والوں کی مثال بیان فرمائی کہ انکے اندر نور علی نور کا سماں بندھ جاتا ہے‘ وہاں تاریک قلوب والوں کی مثال بھی دی کہ جیسے کوئی بحرعمیق کے اندر ہو۔ اس پر ایک موج ہو۔ اسکے اوپر دوسری موج‘ باہر آسمان پر تاریک بادل چھائے ہوں۔ گویا وہ ظلمات در ظلمات میں پڑا ہے۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ بحرعمیق دیا ہے ایک موج جنسیت کی جبلّت ہے۔ دوسری لالچ کی‘ سمان تاریک بادل اسکے غلط افکار اور باطل نظریات ہیں۔ وہ شخص تہہ در تہہ اندھیروں میں پڑا ہے۔ یعنی اسکے قلب پر سیاہیوں کے کئی ’’کوٹ‘‘ ہو چکے ہیں۔ جس شخص کے ٹیلی ویژن کا شیشہ اس قدر سیاہ ہو چکا ہو‘ اسکے اندر کیا نظر آئیگا۔ قلوب کی سیاہی چہروں پر بھی نظر آ جاتی ہے‘ مگر ہر ایک کو نظر نہیں آتی۔ غالباً یہی وہ لوگ ہیں‘ جن کے بارہ میں قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ قیامت کے روز انکے چہرے یوں ہوں گے‘ جیسے ان پر شب تاریک کے ٹکڑے اڑھا دئیے گئے ہیں۔ قرآن پاک کیمطابق قلوب زندہ بھی ہیں اور مردہ بھی۔
زندہ قلب اس ٹیلی ویژن کی طرح ہے جو صحیح کام کر رہا ہے۔ مردہ قلوب بے کار ٹیلی ویژن کی مانند ہیں۔ زندہ قلوب کا تعلق ہر وقت حق تعالیٰ کے کل کائناتی ٹیلی ویژن سنٹر سے قائم ہے اور انہیں وہاں سے ہردم ہدایت اور محبت کے پروگرام موصول ہوتے رہتے ہیں …؎
نشاط روح بن کر عشق کا پیغام آتا ہے
مگر دل جن کے زندہ ہیں‘ انہی کے نام آتا ہے
طلب جس کی ہے‘ جس کا راستہ ہے‘ جس کی منزل ہے
وہ بہر دستگیری ہر قدم‘ ہر گام آتا ہے
قلب کی زندگی اللہ تعالیٰ کی محبت سے وابستہ ہے اور قلب کا تعلق حق تعالیٰ سے بذریعہ ذکر قائم ہوتا اور قائم رہتا ہے۔ بقول حضرت سلطان باہوؒ
جو دم غافل ‘ سو دم کافر