اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

   اردو پاور کے لیے اپنی تحریر     اس ای میل ایڈریس پر روانہ کریں    

Email:-ceditor@inbox.com

Email:-Jawwab@gmail.com

 

 

 

 

الطبری
 
الطبری نام
N/A تاریخ پیداءش
815 تاریخ وفات
 
الطبری ایران کے مشہور صوبے طبرستان میں پیدا ہوا۔ یہ صوبہ بح قزوین کے جنوب میں واقع ہے۔

وہ زیادہ عرصہ اپنے آبائی علاقے میں نہیں رہا بلکہ اس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ بغداد میں گزارا۔ اس کی کنیت ابو حفص تھی۔ اس کے والد نے قدیم ایرانی نام فرخان اپنا لیا تھا۔ فرخان اس ایرانی فضلاءمیں سے ایک تھا، جو پہلویوں کی سائنسی تصانیف کو ربی میں ترجمہ کرنے کے لیے اولین عباسی خلفاءکے دربار سے منسلک ہو گئے تھے۔ وہ سب سے پہلے درباری منجموںکے ایک گروہ کے ساتھ منظر عام پر آئا اس گروہ میں اس کے علاوہ نوبخت ماشائاللہ اور الفزاری جیسے نامور افراد شامل تھے۔ عباسی خلیفہ المصور نے ان لوگوں کو حکم دیا تھا کہ وہ بغداد کی بنیاد رکھنے کے لیے کسی مبارک گھڑی کا انتخاب کر کے بتائیں۔ ان سب نے متفقہ طور پر30 جولائی کا انتخاب کیا۔ الطبری سے متعلق آخری تاریخ شوال جون تا 31جولائی 762ملتی ہے، جب اس نے بطلیموس کی کتاب الاربعہ (tatrabiblos) کا ترجمہ کیا تھا۔

ایک ماخذ کے مطابق الطبری نے تین سال بعد یعنی 815میں مامونالرشید کے عہد میں وفات پائی۔ ان تاریخوں کی روشنی میں ابو معشر کے اس قول کی تردید ہوتی ہے کہ الطبری کو مامون الرشید کے وزیر الفضل ابن سہل (متوفی818)نے بغداد بلایا اور اسی نے المامون سے اس کا تعارف کرایا تھا۔ ابو معشر کے اس قول کو اس کے شاگرد شاذان نے اپنی تصنیف � مذاکرات�میںنقل کیا ہے اور صاعدالاندلسی اور ابنالقفطی نے اپنی اپنی تصنیفات میں اس کی تائید کی ہے۔ ابو معشر کا یہ کہنا کسی حس تک معتبر سمجھا جاتا ہے کہ الطبری یحیی بن خالد ابن برمک (متوفی807) کے قریبی لوگوں میں سے تھا۔الطبری کے خانگی حالات کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں کہ اس کا ایک بیٹا تھا جس کا نام ابوبکر محمد تھا۔ اس نے بھی علم نجوم اور فلکیات پر بہت کچھ لکھا تھا بد قسمتی سے معروف تذکرہنویس ابنم الندیم نے اپنی تصنیف �الفہرست� میں ان دونوں باپ بیٹے کی تصانیف کو گڈمڈ کر دیا ہے۔ ذیل میں عمر ابن الفرخان کی تصانیف کی ایسی فہست دی جا رہی ہے جو نسبتاًقابل اعتماد ماخذسے حاصل کی گئی ہے۔
1۔ بطلیموس کی �کتاب الاربعہ� کی �تفسیر� یہ کتاب 15جون سے13 جولائی812ءتک کے دوران یعنی ایک ماہ میں مکمل ہوئی۔ اس کا مخطوطہ اپسالا کی یونیورسٹی لائبریری میں محفوظ ہے۔ اس کتاب کے تعارف سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر ابن الفرخان نے غالباًپہلوی ترجمے سے اس کو اپنی زبان میں نقل کیا ہے،لیکن ابنالندیم کی جتحقیق کے مطابق عمر نے ابو یحیی الطریق کے ترجمے سے مدد لی ہے۔ ابو یحیی نے یہ ترجمہ اصل یونانی کتاب سے کیا تھا۔ قرین قیاس یہ بات ہے کہ عمر نے ال بطریق کی درخواست پر پہلوی ترجمے کی مدد سے یہ کتاب لکھی ہو گی۔

2۔ سیدون(Sidon ) کے ڈ رو تھئیس(Dorotheus) کی فلکیاتی تصنیفات کی ایک �تفسیر� یہ کتاب پانچویں صدی کے اوائل کی پہلوی تقاریظ کی بنیاد پر لکھی گئی تھی۔ اس کتاب کے دو قلمی نسخے محفوظ ہیں�ایک ترکیہ میں اور دوسرابرلن میں۔

3۔ مختصر مسائل القیصرانی�میں قیصری استفسارات کا خلاصہ دیا گیا ہے۔ ا؛س کے138باب ہیں اور اس کے بہت سے قلمی نسخے محفوظ ہیں ۔ اگرچہ اس کتاب میں قیصرانی کا نام غیر معروف رہتا ہے اور اس میں ابو یوسف یعقوب ابن علی القیصرانی کی � جامع الکتاب� سے کچھ نہیں لیا گیا۔ ابو یوسف یعقوب نویں صدی عیسوی کے آخر ی دور میں جرجان اور استر آباد کے درباروں سے منسلک رہا۔ہو سکتا ہے کہ یہ کتاب وہی ہو جو �کتابالاختیارات �کے عنوان سے اسکندریہ میں موجود ہے۔

4۔ �کتاب فیلموالید� یہ طالع بینی (genethlialogy) پر ایک مختصر کتابچہ ہے جو عربی میں لکھا گیا ہے اور اس کا واحد علمی نسخہ ترکیہ کے ایک کتب خانے میں موجود ہے۔ یہ غالباًلاطینی میں پائی جانے والی ایک کتاب سے (مشتمل بر تین حصے) با لکل ملتی جلتی ہے۔

5۔ �کتاب العلل � کے بارے میں واحد ماخذالبیرونی کی شمسی مساوات سے متعلق کتاب ہے جو�رسائل البیرونی� کے پہلے حصے کے طور پر طبع ہوئی (مطبوعہ حیدر آباد دکن 1948) اس کتاب میں وہ تخمینی طریقے بتاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ البیرونی نے اپنا ایک پورارسالہ �عمر کی فلکیات� کی ناموزونیت کو ظاہر کرنے کے لیے مختص کر دیا ہے۔ یہ بات وہ اپنی �کتابیات� میں بتاتا ہے۔
 

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team