اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

   اردو پاور کے لیے اپنی تحریر     اس ای میل ایڈریس پر روانہ کریں    

Email:-ceditor@inbox.com

Email:-Jawwab@gmail.com

 

 

 

 

عبد القادر جیلانی
 
عبد القادر جیلانی نام
470 تاریخ پیداءش

 

محی ا لدین لقب اسم گرامی عبدالقادر والد کی طرف سے حسنی والدہ کی طرف سے حسینی نجیب الطرفین ہاشمی سیّدتھے۔
ولادت: ٧٠٧٤ہجری قصبہ گیلان شہر فارس میں پیدا ہوئے ۔عربی میں قاعدہ ہے کہ گاف کے حرف کو جیم سے بدل دیتے ہیں اس لیے گیلان کی مناسبت سے آپ کو گیلانی کی بجائے جیلانی کہا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں آپ کے جدّاعلیٰ کا اسم گرامی جیلان ابو عبد اللہ صو معی تھا۔ اسی رعایت سے آپ جیلانی کہلاتے ہیں ۔ لیکن آپ کے نسب نامہ میں اس نام کے کوئی بزرگ نہیں ملتے۔ اس لیے یہ بیان صحیح نہیں ۔ اصل میں آپ کے نانا کا نام ابو عبداللہ صومعی تھا مگر ان کے نام کے ساتھ بھی جیلان کا لفظ کہیں دیکھنے میں نہیں آتا ۔ پس آپ کو جدّاعلیٰ کی مناسبت سے جیلانی کہنا درست نہیں۔
مولانا جامی نے اپنی کتاب نفخا ت الانس میں طبقات حنابلہ میں علامہ ابوالفرح عبدالرحمان شہاب نے اور ان کی تائید میں اکثر دیگرتذکرہ نگاروں نے آپ کو والد کی طرف سے حسنی لکھا ہے اور نصب نامہ یوں بیان کیا ہے۔ شیخ عبدالقادر بن صالح ،حبکی بن موسیٰ بن یحیٰ ، زاہد بن محمد دائود بن موسیٰ الجون بن عبداللہ المحض بن حسن مثنیٰ بن سیّد امام حسن بن امیر المو منین علی ابن ابی طالب۔
بعض روایات میں آپ کا شجرہ نسب اس طرح بیان کیا ہے۔ شیخ عبدالقادر بن ابو صالح حبکی بن موسیٰ بن یحیٰ زاہد بن محمد دائود بن موسیٰ الثانی بن عبداللہ الثانی بن موسیٰ الجون بن عبداللہ المحض بن حسن مثنیٰ بن سیّدنا امام حسن بن امیر المومنین علی بن ابی طالب۔
اس کے علاوہ بعضوں نے اس طرح بیان کیا ہے۔ شیخ عبدالقادر ابو محمد ابن ابو صالح ابن موسٰی بن عبداللہ حیلی بن یحیٰ زاہد بن محمد دائود بن موسیٰ بن عبداللہ بن موسیٰ بن عبداللہ المحض بن حسن مثنیٰ بن سیدنا امام حسن بن امیر المومنین علی بن ابی طالب،
آپ کے والد محترم جناب ابو صالح نہایت متقی ، عابدوزاہد اور ایک پرہیز گار بزرگ تھے۔ گویا اسم با مسمّیٰ ۔ آپ کے تقوے اور دینداری کا اندازہ کچھ اس واقع سے ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی نہر میں بہتا ہوا ایک سیب آپ کے ہاتھ ا گیا سیب نہایت حوش رنگ تھا طبیعت چاہی چنانچہ کھا لیا ۔ مگر کھاتے ہی معاً خیال آیا کہ معلوم نہیں کہ یہ کس کے باغ کا سیب ہے با غبان کی اجازت کے بغیر کھانا حلال نہیں ہو سکتا چنانچہ اب نہر کے کنارے کنارے سیب کے مالک کی تلاش میں چل کھڑے ہوئے کہ اس سے جا کر معافی مانگیں۔
جو بندہ با بندہ با لا خر ایک باغ میں پہنچ گئے اور وہاں آپ نے اس بات کا صحیح اندازہ لگا لیا کہ یہ سیب اسی باغ کا ہے اس باغ کے مالک جناب عبد اللہ صومعی تھے ۔ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ عرض کر کے خواستگارمعافی ہوئے۔ ولی را ولی می شناسد کے بمصداق جناب صومعی نے دیکھا کہ ایک طرف عنفوان شباب ہے لیکن دوسری طرف تقوی و طہارت کا یہ عالم کہ طبیعت میں جوانی کی شوخی و شرارت مطلق نہیں۔ دل نے کہا یہ ضرور کسی عالی خاندان کا چشم وچراغ ہے۔ جناب سیّد عبداللہ صومعی نے آپ کا حسب و نسب معلوم کیا بعد اطمینان کر لینے کے آپ کو اپنے پاس رکھا بعضوں نے لکھا ہے کہ آپ ان کی خدمت میں دس برس تک مقیم رہے اور باغبانی کرتے رہے۔
ایک روز جناب عبداللہ صومعی نے آپ سے فرمایا کہ آپ کو معافی اس شرط پر دی جا سکتی ہے کہ آپ میری اندھی ، گونگی، اپاہج اور بہری بیٹی کو اپنی بیوی بنانا قبول کر لیں آپ نے منظور کر لیا چنانچہ شادی ہو گئی۔ مجلہ عروسی میں گئے وہاں اپنے گمان و خیال کے برعکس پایا ۔ انہوں نے دیکھا کہ نہایت حسین و جمیل عورت ہے اور اس کے تمام اعضاءصحیح و سالم ہیں۔ سخت پریشانی ہوئی قریب تھا کہ کسی الجھن میںپڑ جاتے کہ آپ کے خسر نامدار نے اسے رفع کر دیا فرمایا ہاں یہی تمہاری بیوی ہے میں نے جو کچھ کہا تھا وہ درست ہے میرا اس سے مطلب ان باتوں سے تھا جو احکام الٰہی کے خلاف ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے میری بیٹی ایسی تربیت یافتہ ہے کہ کبھی شیطان کے بہکاوے بہک نہیں سکتی۔
یہ بی بی جناب فاطمہ ام الخیر تھیں ۔ جن کے آغوش امومت میں جناب سید عبدالقادر جیلانی نے پرورش و تربیت پائی ۔ آپ جناب امام حسین کی اولاد سے تھیں آپ کا شجرہ نسب یوں ہے۔ سیدہ ام الخیر بی بی فاطمہ بنت سید عبید اللہ صومعی بن ابو جمال بن محمد بن محمود بن ابو العطاءعبداللہ بن کمال الدین عیسٰی بن ابو علائو الدین محمد الجواد بن علی الرضا بن موسٰی کاظم بن امام جعفر صادق بن امام باقر بن امام زین العابدین بن سیدنا امام حسین بن امیرالمومنین علی بن ابی طالب۔
تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ ام الخیر بی بی فاطمہ جب ساٹھ برس کی عمر کو پہنچیں تب آپ کے بڑھاپے اور عالم یاس میں آپ کی ولادت ہوئی۔ ظاہر ہے کہ اس عمر میں اولاد کا منہ دیکھنا کسی طرح معجزے سے کم نہیں۔ آپ کے عادات و خصا ئل کے بارے میں لکھا ہے کہ عام بچوں سے با لکل مختلف تھے۔ یعنی عالم طفلی میں بھی دودھ کے لیے کبھی روتے تھے نہ چلاتے تھے کسی نے پلا دیا تو پی لیا ورنہ چپ رہے اور گہوارے میں پڑے ہاتھ پیر چلاتے رہے۔
ابھی ہوش نہ سنبھالنے پائے تھے کہ والد محترم اللہ کو پیارے ہو گئے۔ آپ کے نانا جناب عبد اللہ صومعی حیات تھے۔ اب وہی آپ کے سر پرست بنے نانا کا چونکہ اپنا کوئی فرزند نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے آپ ہی کو فرزند بنا لیا اور تمام تر جائداد آپ کے نام وقف کر دی۔ جب آپ چار پانچ برس کے ہوئے تو بی بی فاطمہ نے آپ کو مکتب میں بٹھا دیا۔ دس بارہ برس کی عمر تک اسی مدرسے میں تعلیم پاتے رہے اسی دوران میں آپ کے نانا کو بھی اللہ تعا لیٰ کی بارگاہ سے بلاوا آ گیا اب لے دے کر صرف آپ کی والدہ محترمہ بی بی فاطمہ ہی تھیں جن کے کندھوں پر تمام گھر کے انتظام کا بار تھا اور ان کی امیدوں کا واحد مرکز آپ تھے۔
بی بی فاطمہ اٹھتر برس کی تھیں کہ آپ نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بغداد جانے کی خواہش پیش کی ۔ ظاہر ہے کہ ایسے عالم میں بی بی فاطمہ کے دل پر کیا گزری ہو گی مگر فرمان نبوی کے پیش نظر کہ تم علم سیکھو خواہ اس کے لیے تمہیں چین جانا پڑے �بی بی نے آپ کو با چشم گریاں اجازت دے دی اور فرمایا تمہارے بابا نے اسی ٠٨ دینار ترکہ میں چھوڑے تھے ان میں سے چالیس دینار تم لے جائو اور چالیس دینار تمہارے بھائی کے لیے رکھ لیتی ہوں ۔ آپ بغداد پہنچ کر سلطان نظام الملک کے مدرسہ عالیہ نظامیہ بغداد میں داخل ہوئے علامہ شیخ ابو سعید اس مدرسہ کے مہتمم تھے آپ نے جناب شیخ سے درس قرآن حکیم حاصل کیا پھر قواعد تجوید، علم تفسیر ، فقہ اور اصول حدیث کی تعلیم پائی ۔ تھوڑے ہی دنوں میں آپ علوم عقلی و نقلی میں ایک مبتحر عالم ہو گئے۔
آپ کے بزرگ استاد جناب شیخ نے تکمیل تعلیم کے بعد آپ سے اسی مدرسہ میںطلباءکو تعلیم دینے پر اصرار کیا الامر فوق الا دب کے پیش نظر آپ نے استاد کے حکم کی تعمیل کی اور اسی مدرسہ نظامیہ بغداد میں طلباءکو تعلیم دینے لگے۔ درس و تدریس کا جو انداز قدرت نے آپ کو عطا کیا تھا وہ آپ کے زمانے کے کسی مدرس یا معلم کو حاصل نہ تھا۔ حاصل کلام یہ کہ آپ ایک تھوڑی ہی مدت میں عالم و عارف کامل کی حیثیت سے شہرت پا گئے۔
آپ کی ذہانت و فطانت کا عالم یہ تھا کہ مشکل سے مشکل اور ادق سے ادق مسئلہ جو بڑے بڑے علماءسے حل نہ ہوتاتھا ایک ثانیہ کی مہلت میں حل کر کے رکھ دیتے تھے۔ مختصریہ کہ علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد آپ نے علوم باطنی کی تحصیل کے لیے استاد علامہ شیخ ابو سعید مبارک بن علی محزومی کے مرید ہوئے۔ محزومی شیخ ابو الحسن علی بن محمد القریشی کے مرید تھے ۔ ابوالحسن شیخ ابوالفرح طرطوسی کے مرید تھے۔ طرطوسی ابو الفضل عبدا لواحد تمیمی کے مرید تھے۔ تمیمی شیخ ابو بکر شبلی کے مرید تھے۔ شبلی شیخ جنید بغدادی کے مرید تھے بغدادی اپنے ماموں شیخ سری سقطی کے مرید تھے سقطی شیخ معروف کرخی کے مرید تھے کرخی شیخ دائود و طائی کے مرید تھے طائی شیخ حبیب عجمی کے مرید تھے عجمی خواجہ حسن بصری کے مرید تھے۔ بصری امیر المومنین علی بن ابی طالب کے مرید و شاگرد تھے۔

آپ سے طریقت کا جو سلسلہ آگے چلا وہ آپ ہی کے نام نامی پر سلسلہ قادریہ سے موسوم ہوا۔ آپ کی بزرگی اور علمی فضیلت و شخصی کمال کے اعتراف کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو گی۔ کہ طریقت کے تمام سلسلوں میں آپ کا فیض جاری ہے ۔ اور بلا استثناءطریقت کے تمام سلسلے کے بزرگوں نے آپ کو اولیائے کبار کی فہرست میں سب سے افضل تسلیم کیا ہے۔
پچیس برس کا سن جوانی کی شوخیوں کا زمانہ ہوتا ہے آپ نے اس عمر میں پہنچ کر بڑ ی بڑی ریاضتیںاور مجاہدے کیے اور نفس کی ہر اس خواہش کا گلا گھونٹ دیا جس سے انسان کے دل میں دنیا سے رغبت پیدا ہوتی ہے اور وہ دنیا ہی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔
جب جناب جیلانی پچاس برس کے ہوئے تو آاپ نے جامع بغداد میں وعظ کہنا شروع کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی بلند آواز عطا فرمائی کہ دور و نزدیک ہر جگہ سے یکساں سنائی دیتی تھی۔ اور یہ بھی آپ کے بیان ترجمان قرآن کا اثر تھا کہ لوگ وعظ سنتے سنتے مبہوت ہو جاتے اور مجمع کا یہ عالم ہوتا کہ جامع مسجد میں تل دھرنے کی جگہ باقی نہ رہتی بڑے بڑے علماءو مشائخ آپ کے وعظ میں شریک ہوتے اور گوش ہوش وا کرتے۔ کہتے ہیں چار سو علماءآپ کے وعظ میں اس لیے شریک ہوتے کہ آپ کے ارشادات قلمبند کریں اور کتنے ہی یہودی اور عیسائی آتے کہ آپ کی زبان ترجمان قرآن سے وعظ سن کر مسلمان ہو جاتے لکھا ہے کہ آپ کے دست حق پرست پر پانچ سو سے زیادہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اسلام قبول کیا۔
اصلاح احوال کا جو اسلوب آپ نے اختیار کیا وہ آپ کے زمانے میں کسی کو میسر نہیں تھا۔ اخلاق سنوارنے اور بگڑے ہوئے لو گوں کے احوال سد ھارنے میں بڑی سے بڑی حکومت بھی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی مگر آپ کی ایک ہی نگا ہ التفات بڑے بڑے سرکشوں، ڈاکوئوں ، رہزنوں اور چوروںپر وہ کام کر گئی۔ ان کے دل و دماغ کو ایسا مسلمان کیا۔ فکرو نظر میں ایسی جلا پیدا کی کہ انہوں نے سیدھی راہ کو چھوڑ کر پھر کبھی گمراہی کا راستہ اختیار نہ کیا اس سلسلے میں ایک ادنیٰ سی مثال آپ کے بچپن کے زمانے کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب آپ مرتبہ ولایت پر پہنچے تب اس وقت آپ کی زبان ترجمان قرآن میں کیا اثر تھا اور آپ کس شان کے بزرگ تھے۔
تذکرہ نگاروںنے لکھا ہے کہ آپ چودہ برس کی عمر میں اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک قافلہ کے ساتھ بغداد کو روانہ ہوئے والدہ محترمہ نے آپ کی گدڑ ی میں چالیس اشرفیاں رکھ کر اس مقصد کے لیے سی دیں کہ حفاظت رہے اور ضرورت کے وقت کام آ سکیں بد قسمتی سے راستے میں ڈاکہ پڑا۔ جو شے جس کے ہاتھ آئی ڈاکوئوں نے اس سے بڑی بے دردی سے چھین لی۔ داکوئوں نے آپ سے پوچھا تمہارے پاس کیا ہے؟ آپ نے کہا چالیس اشرفیاں ڈاکو سمجھے آپنے ہم سے مذاق کیا ہے چنانچہ آپ کو اپنے سردار احمد الفی کے پاس لے گئے اور ماجرا بیان کیا سردار نے بھی آپ سے یہی پوچھا اور آپ نے اسے بھی یہی جواب دیا۔ اس نے کہا اچھا لائو دکھائو تو وہ چالیس اشرفیاں کہاں ہیں۔ آپ نے گدڑی ادھیڑی اور اشرفیاں نکال کے ان کے سامنے رکھ دیں۔
ڈاکو بہت حیران ہوئے۔ سردار نے کہا اے لڑکے تو نے ایسی چھپی ہوئی چیز جو ہزار کوششوں کے باوجود بھی ہمارے ہاتھ نہ آ سکتی تھی کیوں ظاہر کر دی آپ نے جواب دیا میں تعلیم کی غرض سے بغداد جا رہا ہوں یہ اشرفیاں میری والدہ نے سفر کے خرچ کے لیے میری گدڑی میں رکھی تھیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بڑی شدت سے تاکید کی کہ سچ کو کسی صورت میں بھی ہاتھ سے نہ جانے دینا ہمیشہ سچ بولنا ڈا کوئوں کے دل پر آپ کی بات نے کچھ ایسا اثر کیا کہ فوراً ڈکیتی سے توبہ کر کے پارسائی اختیار کر لی۔ یہاں تک کہ یہ لوگ چوروں اور ڈاکوئوں کی صف سے نکل کر اللہ کے دوستوں میں شمار ہوئے۔ احکام شریعت کی پابندی اور اللہ اور اللہ کے رسو ل کی محبت بچپن ہی سے آپکے دل میں جا گزین تھی جب تحویل علم سے فارغ ہو کر آپ اپنے وقت کے سب سے بڑے عارف عظیم المرتبت ولی اللہ ہوئے تو اس وقت بھی آپ کا یہ عالم تھا کہ سلام کرنے میں پہل فرماتے تھے۔
چھوٹوں پر شفقت فرماتے اور بڑوں کی تعظیم کرتے۔ کمزوروں ، ضعیفوں ، غریبوں اور حا جتمندوں کی دستگیری فرماتے ان کی ضرورتیں پوری کرتے۔ لیکن کسی دولتمند یا امیر اور رئیس کو کبھی خاطر میں نہ لاتے اور نہ کبھی اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے۔ غریبوں کے گھر پر اکثر خود چل کر جاتے اور ان کی مزاج پرسی کرتے لیکن کسی دولت مند کے دروازے پر کبھی قدم نہ رکھتے۔ بادشاہ وقت سے لیکر تمام اراکین حکومت تک کبھی کسی کی پرواہ نہ کرتے۔
اگر کسی ضرورت مندو محتاج و بے نوا کے بارے میں کسیحاکم سے کچھ کہناہوتا تو اسے سفارش کے طور پر لجاجت کے ساتھ نہ لکھتے نہ کہتے بلکہ تحکمانہ انداز میں فرمان لکھتے اورحکم دیتے کہ اس کی ضرورت کو پورا کیا جائے اور اس کی بات سنی جائے۔صاحب طبقات نے لکھا ہے کہ آپ نے ٠٢٥ہجری میں وعظ کہنا شروع کیا تمام اراکین حکومت آپ کے وعظ میں شریک ہوتے اور آپ کی تنقید حکومت پر اتنی سخت ہوتی کہ کسی کی مجال نہیں تھی کو آپ کے بیان پرذرا گرفت کر سکے۔ اکثر دس دس اور بیس بیس ہزار کا مجمع ہوتا تھا ۔ مگر کسی میں بھی اتنا حوصلہ نہ پڑتا تھا کہ آپ کے سامنے لب کشائی کر سکے۔ آپ کے وعظ کا ماحصل یہ تھا ۔ کہ اے لوگو اللہ اور اللہ کے رسول کی پیروی کرو اس کے احکام پر صدق دل سے عمل کرو دین میں کوئی نئی بات نہ پیدا کرو خدا کی نافرمانی مت کرو صبر کرو بے صبر نہ بنو ۔ کشائش کا انتظار کرنا چاہیے۔ نا امید نہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر پر سب ایک ہو جائو۔ اور آپس میں نا اتفاقی پیدا نہ کرو ۔ توبہ کر کے گناہوں سے پاک ہو جائو۔ ان سے آلودہ نہ ہو جائو اور اپنے مولا کے دروازے سے نہ ہٹو۔
ایک مرتبہ ا پ نے فرمایا جب میں فرائض کے بعد اچھے کاموں پر غور کرتا ہوں تو محتاجوں اور مہمانوں کو کھانا کھلانے اور عام و خاص کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آنے اور دشواریوں میں ہاتھ بٹانے سے بہتر کسی کام کو نہیںپاتا ۔ اگر دنیا کی تمام دولتوں کے خزانے مجھے مل جائیں تو میں سب کے سب فقیروں اور مسکینوں پر خرچ کر دیتا۔ غریبوں اور ضرورت مندوں کو کھلا دیتا یہ ہیں وہ درحقیقت آپ کے نیک خیالات و عزائم جن کی وجہ سے آپ کو پیر دستگیر غریبوں کا ہاتھ پکڑنے والا اور غوث اعظم کہا جاتا ہے ۔ یعنی وہ آدم میں سے غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنے والا سب سے بڑا انسان آپ کا ہمیشہ یہ معمول رہا کہ آپ اپنے شاگردوں اور مہمانوں کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھاتے۔ غریبوں اور مسکینوں میں بیٹھ کر تو آپ کو بے پناہ مسرت ہوتی۔ آپ فرمایا کرتے کہ امیروں اور دولتمندوں کے ساتھ بیٹھنے کی آرزو تو ہر شخص کرتا ہے لیکن حقیقی سعادت و مسرت انہی کو حاصل ہوتی ہے جن کو مسکینوں اور غریبوں کی ہم نشینی کی آرزو رہتی ہے۔
آپ کا یہ قاعدہ تھا کہ مریدین و معتقدین جو تحفے اور تحائف اور بڑی بڑی رقمیں نذرانے کے طور پر آپ کیخدمت میں پیش کرتے۔ وہ اسی وقت غریبوں میں تقسیم کر دیتے ایک موقع پر آپ خود فرماتے ہیں کہ میرے ہاتھ میں روپیہ پیسہ مال و دولت مطلق نہیںٹھہرتا ۔ اگر صبح میرے پاس ہزار دینار آئیں تو شام تک ان میں سے ایک بھی دینار باقی نہ رہے آپ دوسروں کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر مقدم سمجھتے۔ آپ کے دروازے سے کبھی کوئی سائل خالی نہیں گیا۔ اگر آپ کے پاس کسی وقت رقم نہ ہوتی تو سائل کو اپنے تن کے کپڑے اتار کر دے دیتے مخدوم جہانیا ں گشت کہتے ہیں کہ آپ بعض اوقات سو سو غلام خریدتے اور اسی وقت انہیں آزاد کر دیتے تھے۔
خیر یہ تو شان آپ کے جمال کے پہلو کی تھی۔ اب ذرا شان جلال دیکھیے کہتے ہیں ایک مرتبہ خلیفہ بغداد المقتضی نے ابن مرجم کو جو ظالم کے نام سے مشہور تھا ۔ شہر کا قاضی مقرر کیا۔ اس کے عہدہ قضا پر تقرر سے لوگوں میں سخت بے اطمینانی و تشویش پھیل گئی۔ لوگوں نے آپ کی خدمت میں شکایت کی۔ اس پر آپ نے بر سر منبر خلیفہ بغداد سے مخاطب ہو کر فرمایا�تم نے مسلمانوں پر ایک ایسے شخص کو قاضی مقرر کیا ہے۔ جو سخت ظالم ہے کل جب تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچو گے تو اس وقت اللہ کوکیاجواب دو گے؟ وہ تو اپنے بندوں پر نہایت مہربان اور شفیق ہے۔ � کہتے ہیں خلیفہ آپ کے یہ کلمات سن کر لرزنے لگا اور اس نے فوراًہی ابن مرجم کو قضا کے عہدے سے علیحدہ کر دیا۔
ایک مرتبہ آپ مسجد میں بیٹھے وعظ کہہ رہے تھے کہ اسی دوران میں آپ کو چھینک آئی آپ نے الحمدللہ کہا۔ لوگوں نے اس کے جواب میں یرحمک اللہ و یرحیم کہا تو مسجد لوگوں کی مجمع آواز سے گونج اٹھی ۔ خلیفہ بغداد نے جو اس وقت یہاں موجود تھا حیرت سے پوچھا یہ کیا ہوا؟ اسے جواب ملا کہ سید نا عبدالقادرجیلانی کو چھینک آئی ہے لوگ اس کا جواب دے رہے ہیں اس پر خلیفہ بغداد نے کہا اصل میں حکومت تو یہ ہے۔ دلوں پر حکومت دلوں کو موہ لینے سے قائم ہوتی ہے۔ دل کا موہ لینا ہزار عبادتوں کی ایک عبادت ہے۔
دل بدست آور کہ حج اکبر است۔۔۔۔۔صد ہزار کعبہ یک دل بہتر است
آپ کو ایک زمانہ پیر دستگیر اور غوث الاعظم و محبو ب صمدانی و سبحانی وغیرہ ناموں سے جو یاد کرتا ہے ہر چند اس میں شرک کا پہلو نکلتا ہے۔ تا ہم یہ اسی جذبے کی ایک صورت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس کے دل غریبوں ، مسکینوں اور محتاجوں سے محبت کرنے کے لیے پیدا کیا۔
ایک مرتبہ طالب علمی کے زمانے میں آپ کو سامان خوردونوش کی سخت دشواری پیش آئی ایک پھوٹی کوڑی پلے نہیں تھی مگر بھوک کے مارے سخت برا حال ہو رہا تھا۔ اتنے میں ایک شخص بھناہوا گوشت اور تازہ تازہ روٹیاں لے کر مسجد میں داخل ہوا۔ اس نے ان کا جو یہ حال دیکھا تو نہایت اصرار کر کے کھانے پر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ باتوں باتوں میں اس نے پوچھاکہ آپ کیا کرتے ہیں آپ نے کہا تعلیم پا رہا ہوں اس نے کہا گیلان سے بھی ایک نوجوان عبدالقادر حصول تعلیم کے لیے یہاں آیا ہوا ہے کیا تم اسے جانتے ہو؟ آپ نے کہا ۔ جی ہاں وہ میں ہی ہوں۔ اس جواب پر وہ شخ �ص سخت بے چین اور آبدیدہ ہو کر بولا ۔ بھائی تم میرے مہمان نہیں بلکہ اب میں تمہارا مہمان ہوں تمہاری والدہ نے تمہارے خرچ کے لیے آٹھ دینار دیے تھے کہ تمہیں پہنچا دوں مگرمجھ سے تمہاری امانت میں خیانت ہو گئی۔ آپ نہایت صبرو اطمینان کے ساتھ خاموشی سے اس کی بات سنتے رہے پھر وہ کہنے لگا ہوا یوں کہ میں نے آپ کو بغداد میں بہت ڈھونڈا کئی دن آپ کی تلاش میں لگ گئے اس مدت میں میرا ذاتی خرچ جو میں اپنے ساتھ لایا تھا ختم ہو گیا جب لگا بھوکوں مرنے اور اس کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا تو میںنے آج یہ رقم صرف کر کے کھانا خرید لیا جسے ابھی ابھی ہم دونوں نے مل کر کھایا ہے۔
آپ نے یہ تمام بات سن کر اسے گلے سے لگا لیا۔ اس کے حسن خیال و نیت کی تعریف کی اور اسے تسلی دی اس کے بعد کچھ بچا ہوا کھانا دے کر اسے نہایت محبت کے ساتھ رخصت کیا۔
ٍ آٹھ دینار اور قحط کے ایام پر غور کیجئے ان دنوں اس تھوڑی سی رقم کی کتنی بڑی اہمیت ہو گی۔ لیکن آپ نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے نہایت فراخ دلی کے ساتھ اسے بخش دیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ �قحط کی ہولناکی کے انہی دنوں میں آپ نے بھوکے ننگے فقیروں کی ایک جماعت کو دیکھاکہ شدید فاقہ کشی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں دیکھ کر آپ کی طبیعت میں بے حد ملال پیدا ہوا پروردگار سے دعا کی اور اس نے فوراًقبول کی کہ ان فقیروں کے حال سے متاثر ہو کر تھو ڑی ہیہی دور گئے ہوں گے کہ ایک شخص ملا۔ اور اس نے سونے کا ایک ٹکڑا آپ کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ یہ ٹکڑا آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کے اخراجات کے لیے بھیجا ہے۔ آپ بازار گئے بقدرے ضرورت سونا فروخت کیا اس سے جو دام میسر آئے ان سے سب سے پہلے فقیروں کی فاقہ کشی دور کی۔
آپ کے زمانہ ولایت میں بغداد مذہبی اور سیاسی بد احوالی میں مبتلا تھا۔ مذہب کا حال یہ تھا کہ دین کے نام پر طرح طرح کے فرقے اور گروہ بن چکے تھے۔ اور ان کا عقائد میں ایسی ایسی باتیں داخل ہو چکی تھیں کہ ان کا دین اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ خاص کر اسمٰعیلی فرقے کی باطنی تحریک نے تو خوب ہی اودھم مچا رکھا تھا۔ دوسری طرف خلفائے عباسیہ کا ستارہ اقبال زوال پذیر تھا ۔ ان کی حیثیت خلافت کے تخت پر مذہبی پیشواو �ں سے زیادہ نہیں تھی۔ حالات یہ تھے کہ سلاطین آپس میں لڑ رہے تھے۔ اور ان میں سے جس کی قوت زیادہ ہو جاتی اسی کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا اور بغداد میں اس کے خلاف کسی میں دم مارنے کی مجال نہیں تھی۔
ان احوال کا نتیجہ یہ نکلا کہ دشمنان اسلام نے سر اٹھایا اور میدان کارزارگرم کیا تمام عیسائیوں نے متحد ہو کر عالم اسلام پر یلغار کر دی۔ تاریخ اسلام یہ لڑائی پہلی جنگ صلیبی کے نام سے مشہور ہے اب ایک طرف تو یہ عالم ہے کہ اپنوں اپنوں میں اقتدار و حکومت کے لیے تلوار چل رہی ہے۔ کہیں ایک دوسرے کے خلاف مذہب کی آڑ لیکر طرح طرح کی غیر اسلامی تحر یکیں چلائی جا رہی ہیں جن میں اسمٰعیلی شعیوں کی تحریک باطنیت سر فہرست ہے اور دوسری طرف اسلام کو مٹانے کے لیے کفروباطل کی تمام قوتیں مجتمع ہو کر مسلمانوں کے مقابلے پر آ گئیں۔ اب ان حالات میں کسی قوم میں خواہ کتنی ہی قوت و عزم و جوش اور ولولہ جہاد کیوں نہ ہو وہ جب تک متحد نہیں ہوتی سب کا مرکز ایک نہیں ہوتا۔ اس کا وجودوعدم دونوں برابر ہیں۔
کسی قوم کو ایک مرکز پر اکٹھا کرنے اور ان کے آپس کے اختلافات کو دبانے کے لیے ایک ایسی تبلیغ سے بہتر کوئی ایسا موثر ذریعہ نہیں ہو سکتا جس میں فروعی اختلافات سے قطع نظرصرف اصولوں پر زور دیا جائے۔ آپ نے سلسلہ رشدوہدایت جاری کیا تو اس میں اپنی ذات کو مرکز نہیں بنایا بلکہ محمد رسول اللہ کی ذات والاصفات پر تمام مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش فرمائی حکومت و اقتدار کے لیے دین و مذہب کے نام پر مسلمانوں میں جو مختلف گروہ بن چکے تھے ان کے اغرا ض و مقاصد کی نقاب کشائی کی۔
آپ نے اپنے جدامجد جناب سید نا امام حسن کا اخلاق و کردار ہر مرحلے اور زندگی کے ہر کام پر پیش نظر رکھا یعنی امام حسن نے دیکھا کہ ان کے رفقا وقت پر ساتھ نہیں دیں گے اور خلافت سے علیحدگی پر خون کی ندیاںبہنے سے رک سکتی ہیں چنانچہ آپ علیحدہ ہو گئے اور اس طرح آپ نے مسلمانوں کو باہمی کشت و خون اور جنگ و جدل سے بچا لیا۔
جناب امام حسین بیوی بچوں اور جاں نثاروں کو ساتھ لے کر گھرسے چلے تھے تو آپ نے کسی سے لڑنے کا ارادہ نہیں فرمایا تھا کوفے والوں کے خط پر خط آ رہے تھے یہ ان کی دعوت پر کوفہ کو روانہ ہوئے ۔ کوفہ پہنچ کر آپ کو جو حالات پیش آئے ۔ لوگوں نے سرد مہری سے کام لیا اس وقت بھی آپ نے کسی سے جنگ و جدل کرنا پسند نہیں کیا۔ بلکہ یہ کہا کہ واپس جانے کی خواہش ظاہر فرمائی یا کہا کہ مجھے یزید سے مل کر اپنا معاملہ طے کر لینے کی مہلت دی جائے۔ اور اگر یہ گوارا نہ ہو تو کسی مہم پر بھیج دیا جائے اللہ کی راو میں جہاد کرنے کی اجازت ہو یہ باتیں آپ نے کیوں کہیں؟صرف یہ کہ محمدرسول اللہ کی امت میں آپ کے نواسے کے لیے باہمی تلوار نہ چلے۔
جناب عبدالقادر جیلانی نے اپنے دادا جناب حسن اور نانا جناب حسین کے اخلاق مطہرہ کی پوری پوری پیروی کی ۔ آپ نے اپنے واعظ میں اسلام کے صرف اصولوں کی تبلیغ کی۔ اور حکومت وسیاست کے معاملات میں قطعاًاپنے آپ کو نہیں الجھایا ۔ یہی سبب ہے کہ آپ نے لاکھوں انسانوں کے دلوں پر مکمل حکمرانی کی اور ایسی حکمرانی کہ تخت وتاج کے مالکوں کو رشک آتا تھا آپ کے پر اخلاص ارشادات نے جن کی اثر انگیزی کے مقابلے میں دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ہیچ ہیں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹ جانے سے بچا لیا یہی وہ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ ہے جس کے سبب سے اسلامی دنیا آپ کو محی الدین (دین کو زندہ کرنے والا) کے لقب سے یاد کرتی ہے اور یہی وہ سب سے بڑا فریضہ ہے جس کے ادا کرنے پر آپ کا مرتبہ بلند ہوا کہ تمام اولیائے کرا م آپ کے قدموں میں سر دیتے ہیں۔ اور آپ کے طریقے میں داخل ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

ہندوستان میں آپ کا سلسلہ قادریہ سلطان سکندر خاں لودھی کے عہد حکومت میں جناب سید محمد غوث گوالیاری سے پھیلا۔ جناب غوث نو واسطوں سے اپنے جدّ امجد جناب سید عبدالقادرجیلانی سے جا ملتے ہیں۔ جناب غوث علاقہ اوچھ ضلع ملتان کے قریب ٨٢٤١ءمیں مقیم ہوئے۔ آپ کے زمانے میں ہندوستان کی مذہبی فضا کو ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی اور اس کے لیے ہندوئوں اور مسلمانوں کے معتقدات کو باہم ملا کر ایک ایسا گروہ پیدا کیا جا رہا تھا۔ جس کی تعلیمات میں دونوں گروہوں کے اعتقادات و مذہب کا رنگ موجود تھا۔ بھگت کبیر جو ٠٤٤١ءمیں پیدا ہوئے۔ اسی گروہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی تحریک اتحاد بھگتی تحریک کے نام سے مشہور ہے۔
تحریک تصوف کی تاریخ میں بھگتی تحریک کو اس لیے اہمیت دی جاتی ہے کہ اس کے ذریعے ہندوستانی خیالات و معتقدات مشاغل اور یوگ کے طریقے یعنی حبس دم وغیرہ صوفیوں میں راہ پا گئے۔ قادری سلسلے نے تصوف اسلامی سے ان تمام باتوں کو جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں کلی طور پر نکال باہر کیا۔
تصانیف:دین اسلام کی حفاظت و مدافعت کے لیے جناب جیلانی نے جو کتابیں تصنیف کیں ان کی حیثیت بجا طور پر حصار دین و فصیل ملت کی ہے۔ آپ کی سب سے پہلی کتاب غنیتہ الطالبین ہے۔ اس میں احکام شرع بیان کئے گئے ہیں اوران کی توضیح بھی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مسائل پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسری کتاب فتوح الغیب ہے جس میں آپ نے مضامین تصوف نہایت عالمانہ انداز میں پیش کیے ہیں ۔ تیسری کتاب فتح ربانی ہے جس میں آپ کے مواعظ حسنہ و خطبات عالیہ ملتے ہیں۔ انہیں آپ کے نواسے جناب سید عفیف الدین مبارک نے مرتب کیا ہے۔
مکتوبات سبحانی: اس میں آپ کے وہ خطوط جمع کئے گئے ہیں جو آپ نے وقتاًفوقتاً پندو نصالح کی غرض سے مختلف لوگوں کو لکھے تھے۔
قصائد:اس میں آپ کے چودہ قصیدے ہیں اس کے علاوہ آپ کا ایک فارسی دیوان ہے منجملہ ان کے آ پ کی کچھ اور کتابیں بھی ہیں جن میں زیادہ تر مشہور وہی ہیں جن کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔
ازواج و اولاد:آپ نے مختلف اوقات میں چار شادیاں کیں جن سے کل بیس لڑکے اور انتیس لڑکیاں پیدا ہوئیں آپ نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر خصو صیت کے ساتھ توجہ فرمائی جس سے آپ کی اولاد نے علم و فضل کی دنیا میں بڑا نام پایا ان میں سے چند ایک کے اسمائے گرامی یہ ہےں ۔
١۔شیخ سیف الدین عبدالوہاب ٢۔ شیخ عبد الر زاق تاج الدین
٣۔شیخ شر ف الدین عیسیٰ ٤۔شیخ ابواسحاق ابراہیم
٥۔شیخ ابو بکر عبد العزیز ٦۔شیخ یحیٰ
٧۔شیخ عبد الجبار ٨۔شیخ محمد موسیٰ
ٍٍ ٩۔شیخ محمد
خدام و خلفائ:سلسلہ قادریہ کے خدام خلفاءکی تعداد یوں تو ہزاروں تک پہنچتی ہے ۔ مگر ان مین سے جن کو اسلام کے پھیلانے میں شہرت دوام حاصل ہوئی ان میں سے چند ایک مشاہیر کرام کے اسمائے گرامی یہ ہیں ۔ شیخ ابو البقا ابو الحسن ،مفتی عراق قاضی
ابو طالب عبد الر حمٰن ،شیخ امام موفق الدین، قاضی ابو العباس احمد ، شیخ ابو محمد عبداللہ بن خشاب، شیخ قاضی ابو العلی، شیخ ابو السعود احمد بن ابی بکر حریمی عطار، علامہ ابو بکر عبد اللہ بن نصر، شیخ شہاب الدین سہروردی ان بزرگوںکے علاوہ اور بھی بہت سے بزرگ ہیں جن کو آپ کے سلسلے سے فیض حاصل ہوا آپ کا قاعدہ تھا کہ اپنے مریدین و خلفاءکو ممالک اسلامیہ میں مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق اور دوسرے شہروں میں اسلام کی تبلیغ کے لئے روانہ کرتے۔ اور چلتے وقت انہیں حسب ذیل ہدایات فرماتے۔
١۔ حاکموں اور امیروں کی ملازمت نہ کرنا۔
٢۔ کسی امیر سے وظیفہ نہ لینا۔
٣۔ کتاب اللہ اور سنت رسول کی مکمل پیروی کرنا۔
٤۔ شریعت کی حدود سے کبھی آگے نہ بڑھنا۔
٥۔ زندگی نہایت سادگی سے بسر کرنے کو اپنا شعار بنانا۔
وفات: تبلیغ اسلام اور مدافعت دین کے لیے آپ نے ١٢٥ہجری میں وعظ کہنا شروع کیا جو ١٦٥ہجری یعنی آپ کے انتقال تک چالیس برس جاری رہا ۔ اس مدت میں سینکڑوں یہودیوں اور عیسائیوں نے آپ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کیا ہزاروں مسلمانوں کے ایمان تجدید اور عقائد کی اصلاح ہوئی بہت سے شاگرد پیدا کئے جو مشاہیر کی فہرست میں شمار ہوتے ہیںکئی جماعتیں دیگر ممالک میں اسلام کو پھیلانے کے لیے تیار کیں ۔ موصل حلب ، دمشق، تبریز ، ہمدان، طوس، بسطام، الحطیف اور کوفہ وغیرہ میں قادری سلسلے کے مدرسے قائم ہوئے۔ غرض احیائے اسلام و تبلیغ دین میں کوشش کرتے جب آپ اکیانوے برس کے ہوئے اور آپ کی تمام کوششیں با آور ہوئیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ میں اس دنیائے فانی سے آپ کو واپس بلا لیا۔ آپ ١٦٥ءمیں چند روز صاحب فراش رہ کر راہی دارالبقا ہ ہوئے آپ نے بغداد میں وفات پائی وہیں آپ کا مزار پر انوار مرجع خلائق ہے۔
اقوال:١۔ مالدار بننے کی آرزو نہ کرو۔ ابوالہوس مت بنو مالدار اور فقیر اور بے نوا کے درمیان امتیاز مت رکھو۔
٢۔عمل کے بغیر علم مطلق فائدہ نہیں پہنچاتا۔ عامل بنوجان بوجھ کر جاہل نہ بنو۔ عالم باعمل نائب خدا ہے۔
٣۔

اپنے جائز کسب سے کمائو۔ دین کے ذریعے سے ہر گز نہ کمائو۔ جائز کمائو اور کھائو۔ اور اس سے دوسروں کی غمخواری بھی کرو۔
٤۔ اللہ سے بندوں کا شکوہ نہ کر۔ جب تک زندگی کا دروازہ کھلا ہے اسے غنیمت جانو۔
٥۔ایمان والوں کی آزمائش ہوتی ہے۔
٦۔خدمت کرو مخدوم بن جائو گے۔
٧۔افسوس اس شخص پر جس نے قرآن تو حفظ کیا مگر اس پر عمل نہ کیا۔
٨۔باطن کا جہاد ظاہر کے جہاد سے زیادہ سخت ہے۔
٩۔دنیا تمہارے ہاتھ میں تور ہے مگر دل پر اس کا قبضہ نہ ہونے پائے۔ دل کو اللہ کی یاد سے آباد کرو۔ اللہ ہی کی محبت کا تمہارے دل پر قبضہ ہو۔

 

 

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team