اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

   اردو پاور کے لیے اپنی تحریر     اس ای میل ایڈریس پر روانہ کریں    

Email:-ceditor@inbox.com

Email:-Jawwab@gmail.com

 

 

 

 

حضرت ابو بکر صدیق
 
عبداللہ ابن ابی قحافہ نام
573 تاریخ پیداءش
637 تاریخ وفات

ایام جاہلیت میں حضرت ابو بکر کا نام عبداللہ ابن ابی قحافہ تھا �اسلام لانے کے بعد حضرت محمد نے عبداللہ تجویز فرمایا ۔ صدیق و عتیق دونوں لقب ہیں ۔
جس نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی۔ نسبتاًقریشی تیمی ہیں چھٹی پشت میں مرہ بن کعب پر پہنچ کر آپ کا نسب رسول اکرم کے نسب سے مل جاتا ہے ۔ حضرت ابو بکر عام الفیل کے اڑھائی برس بعد پیدا ہوئے یعنی آغاز سن ہجری سے پچاس برس تھی ۔ بالغ مردوں میں آپ سب سے پہلے مسلمان ہوئے ۔10ھ میں اپنی وفات سے قبل پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد علالت کے زمانہ میں اےک روز مسجد میں تشریف لائے اور کچھ گفتگو کے بعد کہا کہ جس قدر مکانو ں کے دروازے صحن مسجد میں ہیں وہ بند کر دئیے جائیں � مگر ابو بکر کے گھر کا دروازہ بد دستور رہے اور پھر فرمایا :�میں کسی کو نہیں جانتا جو میرے دروازے رفاقت میں با اعتبار احسانات کے ابو بکر سے افضل ہو � پس اگر میں کسی کو قلبی دوست بنانے والا ہوتا تو ابو بکر کو بناتا �رسول اللہ نے اپنی علالت کے آخری ایام میں حضرت ابو بکر کے ساتھ نماز ادا کی ۔ آپ نے 12 ربیع الاول کو 11 ھ میں وفات پائی
اس وقت حضرت ابو بکر سخ میں تھے اور آپ کی وفات کی خبر سنتے ہی روانہ ہوگئے ان کی عدم موجودگی میں کسی کو آپ کا چہرہ مبارک کھولنے کین جرات نہ ہوئی ۔ابو بکر نے آکر آپ کا چہرہ کھولا ۔ پیشانی کو بوسہ دیا اور کہا کہ آپ پاک جیئے اور پاک فوت ہوئے ۔ اس کے بعد خلیفہ منتخبکرنے کا سوال پیدا ہوا تو حضرت ابو بکر نے لوگوں سے کہا کے تم عمر اور ابو عبیدہ میں سے جسے چاہو امیر بنا لو میں اس ہر خوش ہو ں ۔اس پر حضرت عمر نے کھڑے ہو کر کہا کے تم میں سے کون شخص اس بات کو پسند کرے گا کہ وہ اس شخص کو موخر کرے جسے رسولاللہ نے مقدم کیا ۔ یہ کہہ کر حضرت عمر نے حضرت ابو بکر کی بیعت کر لیبعض انصار نے کہا کہ ہم حضرت علی کی بیعت کریں گے ۔ ابن الجبیر سے مروی ہے کہ ابو سفیان نے علی سے کہا کہ یہ کیا ہو ا کہ حکومت قریش میں سب سے کم تعداد قبیلے میں چلی گئی بخد ا اگر تم چاہو تو میں اےک زبردست فوج بھیج کر حضرت ابو بکر سے حکومت چھین لوں ۔ اس پر حضرت علی نے کہا کہ اے ابو سفیان تم ہمیشہ سے اسلام اور مسلمانوں کے دشمن رہے تمہاری دشمنی سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں ہوا ۔ ہم نے ابو بکر کو حکومت کا اہل سمجھ کر ان کی بیعت کی ۔ سقیفہ میں حضرت ابو بکر کی بیعت عام ہوئی ۔ اس کے بعد آپ نے تقریر میں کہا : �لوگو !تمہارا حاکم بنایا گیا ہے حالانکہ میں تمہارا بہترین فرد نہیں ہو ں ۔ اگر میں نیکی کروں تو تم میری اعانت کرنا او راگر میں برائی کروں رو مجھے سیدھا کر دینا جب تک مین رسول اور اللہ لہ پیروی کروں تم میری اطاعت کرنا اور اگر میں اللہ اور اسکے رسول کے احکام کی خلاف ورزی کروں تو تم پر میری اطاعت ضروری نہیں �

حضرت ابو بکر خلیفہ بننے سے قبل تجارت کر تے تھے اور اس آپ کا مکان سخ میں تھا � مگر پھر مدینہ آگئے بیعت خلافت کے بعد چھ ماہ تک سخ میں ہی مقیم رہے اور ہر صبح کو مدینہ پیدل آتے رہہے اور کبھی کبھار گھوڑے پر آجاتے ۔ ان کے جسم پر اےک تہمد اور پرانی چادر ہوتی ۔ مدینہ میں لوگوں کو نماز پڑھا کر واپس چلے جاتے ۔ ان کے پاس بکریوں کا ریوڑبھی ہوتا اکثر خود اسے چرانے چلے جاتے ۔ آپ قبیلے والوں کی بکریوں کا دودھ بھی دوہ دیا کرتے تھے ۔ چنانچہ جب آپ خلیفہ ہوئے تو اےک لڑکی نے کہا ،�اب ہماری گھر کی بکریاں نہیں دو ہی جائیں گی �اس کی یہ با ت سن کر آپ نے فرمایا �ہاں ! بخدا مین تمہاری بکریاں ضرور دوہوں گا اور مجھے امید ہے کہ اس منصب سے میری سابق عادات میں کوئی تغیر واقع نہ ہوگا � چنانچہ خلیفہ ہو کر بھی آپ قبیلے کی بکریوں کا دودھ دوہتے رہے � سخ کے قیام کے زمانے میں چھ ماہ تک یہی آپ کا طرز عمل رہا ۔ پھر مدینہ آکر تجارت ترک کر دی اور بیعت المال میں اپنی اور اپنے متعلقین کی ضرورت کے لئے روزانہ خرچ لینے لگے ۔ لوگو ں نے آپ کے ذاتی مصارف کے لئے سالانہ چھ ہزار درہم کی رقم منظور کی تھی ۔

حضرت ابو بکر صدیق کا دور خلافت بہت ہہی ہنگامہ خیز تھا آپ ہی کے زمانے مین فتنہ ار تداد نے سر اٹھا یا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے عرب کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔ اس کے ساتھ ہی منکرین زکوٰة نے بھی ملک بھر میں انتشار پھیلایا ۔ ریاست اسلامیہ کی گو نا گو ں ذمہ داریوں اور امت کی قیادت کا بار بھی آپ کے کاندھوں پہ آن پڑ ا تھا ۔ اس طوفان دور میں بھی آپ نے کسی قیمت پر رسولاللہ کے حکامات سے ذرا بھی گردانی نہ کی ۔ بیعت خلافت کے بعد آپ کو جب سے پہلا مسئلہ درپیش ہوا وہ جیش اسامہ کی روانگی کا تھا ۔ رسول اللہ نے اپنی وفات سے قبل اہل مدینہ اور حوائی مدینہ سے اےک مہم مقرر کی تھی جس میں حضرت عمر بھی شامل تھے اسامہ بن زید کو آپ نے مہم کا سر براہ مقر ر کیا ۔ ابھی یہ مہم پوری طرح خندق کو پار نہیں کر چکی تھی کہ آپکی وفات ہو گئی ۔ اسامہ سب کے ساتھ ٹھہر گئے اور حضرت عمر کو بھیجا کہ خلیفہ سے واپسی کی اجازت لے کر آئیں کہ کہیں پیچھے سے مشرک مسلمانوں پر حملہ نہ کر دیں ۔ حضرت عمر نے آکر مدعا بیان کیا تو حضرت ابوبکر نے خفا ہو کر فرمایا :�جس شخص کو رسول اللہ نے روانہ کیا ہے

تم مجھ سے کہتے ہو کہ اسے علیحدہ واپس بلالوں � پھر آپ خود مدینہ سے اس مہم کے پڑائو میں آئے اور دس باتوں کی نصیحت کی : � یاد رکھو خیانت نہ کرنا ، نفاق نہ برتنا ،بد عہدی نہ کرنا ، جسم کے اعضانہ کاٹنا ، کسی بچے ۔ بوڑھے یا عورت کو قتل نہ کرنا ، کسی کھجور کے درخت کو نہ کاٹنا اور نہ جلانا ، کسی ثمر دار درخت کا نہ کاٹنا ، بیکار کسی بکری ، گائے اور اونٹ کو ذبح نہ کرنا ، تارک الدنیا لوگوں سے تعرض نہ کرنا ، اگر کچھ لوگ تمہارے لئے کھانا لائیں تو اس میں سے کچھ کھانا اللہ کا نام لے کر کھانا � پھر حضرت عمر کو اپنے پاس رکھ لیا اور فوج کو ہدایت کی کہ رسولاللہ کی طے کردہ حکمت عملی پر عمل کرنا ۔ اسامہ نے ایسا ہی کیا اور کامیابی پائی ۔ اس مہم کے وقت حالت یہ ہو چکی تھی کہ تمام عرب قبائل یا تو سب کے سب مرتد ہو چکے تھے یا ان میں سے کچھ لوگ مرتد تھے ۔ بہر حال کو ئی قبیلہ پورا مسلمان نہیں رہا تھا ۔ اب یہودوانصاری للچائی ہوئی نظروں سے مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے ۔ تمام امراءنے اپنے اپنے مستقر سے اطلاع بھیجی کہ ہر جگہ فتنہ ار تدادبرپا ہو گیا ہے ۔ حضرت ابو بکر نے انہیں ذرائع سے ان کا مقابلہ شروع کیا جو رسول اللہ استعمال کر چکے تھے ، یعنی مراسلت ۔ پھر مرتدین نے رات کے وقت مدینہ پر حملہ کر دیا لیکن شکست کھائی ۔ اس کے بعد وہ مسلمانوں کے ساتھ ظلم کرنے لگے ۔ تین قبائل اسلام کی حمایت کا اعلان کیا ۔ حضرت اسامہ کی فوج واپس آئی تو حضرت ابو بکر نے گیارہ جمعتیں تیار کر کے مرتدین کے مقابلہ کے لئے انہیں گیارہ نشانوں پر روانہ کیا اور اپنا اےک خط بھی ان کے نام بھیجا جس میں ان سے دین کی طرف واپس لوٹ آنے کا کہا ۔اس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے، لیکن فتنوں کا سلسلہ جاری رہا اور سر کوبی کا بھی ۔ عمان ، بحرین ، یمن ، مجد ، حضرموت میں فتنے برپا ہوئے آپ کے دور میں اسود عنسی بن علاثہ ، سجاح ، مسلیمہ کذاب قیس بن یغوث اور اشعث نے نبوت کا دعوی کیا جن سے آپ بہ طریق احسن نمٹے ۔
11 ءمیں حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کو قاضی مقرر کیا جس عہدے پر وہ ان کی وفات تک قائم رہے ۔ خالد بن ولید کو عراق اور ایران میں مختلف مہمات پر روانہ کیا ۔13میں شام کی طرف فوجیں بھیجنے کا فیصلہ کیا اور خالد بن سعید کو پہلا امیر بنایا لیکن انہیں معزول کر کے پزید بن سفیان کو امیر بنا کر روانہ کیا ۔ خالد بن سعید پر حضرت عمر اور حضرت علی کو شبہ تھا ۔ لیکن پھر بھی جب ابو بکر نے مرتدین کی سر کوبی کے لئے افسران فوج منتخب کئے تو ان میں سے خالد بن سعید بھی شامل تھے اور انہیں تیمامیں امدادی دستے پر متعین کردیا ۔ میدان جنگ میں خالد بن سعید نے حضرت ابو بکر کی ہدایات پر عمل نپ کیا اور شکست کھائی ،لیکن آپ نے انہیں معاف کر دیا ۔آپ کی حکومت کی بنیاد قرآن و حدیث تھی اگر کسی مسئلہ کا حل قرآن و حدیث میں نہ ملتا تو اہل الرائے صحابہ کرام کے مشورہ سے فیصلہ کرتے ۔ بیت ا لمال کی آمدنی تقسیم کرتے وقت سب کے ساتھ برابر کا سلوک کرتے ۔ گورنر مقرر کرنے میں آپ کا اصول تھا کہ جو گورنر رسول اللہ کے مقرر کردہ اصولو ں پر قائم رہے ، انہیں ہی تعینات کیا ۔معرکہ یمامہ میں جب بہت سے حفاظ قرآن شہید ہوئے تو حضرت عمر نے آپ کو مشورہ دیا کہ قرآن پاک کو ضابطہ تحریر میں لایا جائے ۔ لیکن آپ اس وجہ سے متامل تھے کہ جو کام رسول اللہ نے نہ کیا وہ کیسے کریں ۔ مگر پھر غوروحوض کے بعد یہ مشورہ مان لیا ۔ چنانچہ آپ نے قرن مجید کو لکھوا کر اسلام کی بنیادیں مضبوط کیں ۔حضرت ابو بکر سے 142 احادیث مروی ہیں ۔ فقہ کے متعلق آپ نے اجتہاد کا قاعدہ کیا جو سارے مجہتدین کا دستور العمل بن گیا ۔ آپ خوابو ں کی تعبیر میں بھی بڑے ماہر تھے سب سے اول تصیفہ و تز کیہ باطن کے واسطے کلمہ طیبہ کا طریقہ ذکر حضرت ابو بکر نے تلقین کیا ۔ شاہ ولی اللہ نے تصوف صدیقی کے ذیل میں حضرت صدیق اکبر کے ان نام اوصاف کی تفصیل دی ہے جو اساس تصوف ہیں ۔ مثلاًتوکل ، احتیاط ، تواضع ، خداکی مخلوق پر شفقت ، رضا ، خوف الہیٰ ۔ حضرت ابو بکر نے اےک روز درخت پر چڑیا دیکھی تو حسرت سے فرمایا : �اے پرندے خوش حال ہے تو پھل کھاتا ہے ، درختت کے سا یہ میں زندگی بسر کرتا ہے ، حساب کتاب کا کچھ کھٹکا نہیں ۔ کا ش ابو بکر تجھ جیسا ہوتا � سلسلہ نقشبند یہ حضرت امام جعفر صادق کی وساطت سے حضرت ابو بکر تک پہنچتا ہے ۔

بے شمار خطیبوں نے کروڑوں مرتبہ ابو بکر صدیق کے�افضل ا لبشر بعد ا لانبیا با لتحقیق� ہونے کا اعلان کیا ہے ۔ فضئل صدیقی کی بنیاد تین شہادتوں پر ہے (1 )آیات کلام مجید (2 )احادیث نبوی اور (3 ) اقوال صحابہ کرام و اہل بیت ۔ � نیز آنحضرت نے آپ کے جنتی ہونے کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا : �قیامت کے روز سب سے اول قبر کشادہ ہوگی پھر ابو بکر اور پھر عمر کی ۔ میری امت میں سب سے پہلے ابو بکر جنت میں داخل ہوں گے � اس کے علاوہ اسلام میں سب سے پہلے مسجد آپ نے بنائی ۔
روایات کے مطابق آ پ کا بدن چھریرا اور رنگ نہایت ہی گورا تھا رخسار بیٹھے ہوئے تھے ۔ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں اور تمام صحابہ کرام سے زیادہ فصیح ا لبیان تھے آ پ کا عر صہ خلافت دو سا ل چار ماہ چار دن کم تھا ۔

حضرت ابو بکر کی وفات کے متعلق اےک بیان طبری نے یہ لکھا ہے کہ آپ کو یہودیوں نے دھوکے سے چاول یا دلیے میں زہر ملا کر دیدیا تھا جس کا اثر اےک سال بعد ظاہر ہو اتھا ۔ چنانچہ اےک سال بعد جب آپ شدید بیما ر ہو ئے تو کسی نے طبیب کو بلانے کا مشورہ دیا مگر آپ نت فرمایا :� وہ مجھے دیکھ چکا ہے اس نے کہا ہے کہ میں جو چاہتا ہو ں کرتا ہوں � اےک اور زیاد ہ مستند مانی جانے والی روایت کے مطابق آپ نے سردی میں غسل کیا اور بخار میں مبتلا ہو گئے ۔ اس دوران حضرت عثمان آپ کی تیمارداری کرتے رہے ۔ آپ اس مکا ن میں اقامت پذیر تھے جو آنحضرت نے آپ کو دیا تھا ۔ مرض ا لموت میں آپ نے یہ اشعار پڑھے : (ترجمہ ) �ہر دو لتمند کا مال میراث میں بٹ جائے گا اور ہر سامان والے سے اس کا سامان چھوٹ جائے گا ۔ ہر غائب ہونے والا واپس آجاتا ہے مگر مر کر غائب ہونے والے کبھی واپس نہیں آتے �

محمد بن ابراہیم کا بیان ہے کہ وفات سے قبل حضرت ابو بکر نے حضرت عثمان کو تخلیے میں بلایا اور ان سے کہا � لکھو بسم ا للہ الرحمٰن ا لر حیم ۔ یہ عہد نامہ ابو بکر بن ابی قحافہ نے مسلمانوں کے نام لکھا ہے ۔
امابعد!�اس کے بعد آپ پر غشی طاری ہوگئی اس لئے حضرت عثمان نے لکھ دیا ،�امابعد میں تم پر عمر بن الخطاب کو تم پر خلیفہ مقرر کرتا ہو ں � پھر آپ ہوش میں آگئے اور حضرت عثمان سے کہا کہ سنائو تم نے کیا لکھا ہے ؟ حضرت عثمان نے پڑھ کر سنایا تو آپ نے تکبیر پڑھی اور فرمایا : � میں سمجھتا ہوں کہ شاید تم کو اندیشہ ہو ا ہو کہ اگر اس غشی میں میری روح پرواز کر گئی تو لوگوں میں اختلاف پیدا ہو جائے گا � حضرت عثمان نے کہا ، ہاں میں نے یہی خیال کیا تھا ۔ حضرت ابو بکر بولے : � خدا تم کو اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر دے � اور مضمون کو بر قرار رکھا ۔ جب طحہ بن عبیدہ نے حضرت عمر کی سختی کا ذکر کرتے ہوئے ان کی نامزدگی پر اعتراض کرنا چاہا تو آپ نے کہا :� یاد رکھو جب میں خدا کے سامنے جائوں گا اور وہ مجھ سے باز پرس کرے گا تو میں نے تیری مخلوق پر ان میں سے بہترین شخص کو خلیفہ بنایا �
حضرت ابو بکر نے حضرت عبدا لرحمٰن سے تین چیزیں کرنے کی تمنا کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا : کاش میں اشعثکی گردن مار دیتا ۔کاش میں نے خالد کو مرتدین کے مقابلے کے لئے روانہ نہ کیا ہوتا اور کاش میں نے خالد بن الولید کو جب شام کی طرف بھیجا تھا تو اس وقت عمر بن الخطاب کو عراق کی طرف بھیج دیتا ۔ � آپ نے رسول اکر م سے تین باتیں پوچھنے کی آرزوبھی کی : �کاش میں پو چھ لیتا کہ امارت کس کو ملنی چاہئے تاکہ پھر کسی کو نزاع کا موقع نہ ملتا � کاش میں آپ سے پوچھ لیتا کہ انصار کے لئے اس حکومت میں کچھ حصہ ہے اور کاش میں آپ سے آپ کی میراث کے متعلق دریافت کر لیتا کیونکہ میرے دل میں اس کے متعلق کچھ نے اطمینانی ہے ۔�

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابو بکر نے مجھ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ کو کتنے کپڑوں میں کفنایا گیا تھا ۔ میں نے کہا تین کپڑوں میں ۔ آپ نے کہا کہ تم لوگ میرے یہ دونوں کپڑے دھولو (وہ دونوں کپڑے پھٹے ہوئے تھے ) اور اےک کپڑا کیرے کئے خرید لو ۔ میں نے کہا� کہ اباّجان ہم لوگ تو خوشحا ل ہیں ۔ آپ نے فرمایا اے بیٹی مردے کی بہ نسبت زندہ آدمی نئے کپڑے کا زیادہ مستحق ہے اور یہ دونوں کپڑے پرانے اور بو سید ہ ہونے کےلئے مناسب ہیں ۔�
آپ کی زبان پر آخری الفاظ یہ بہت ھے :� بار الہا!ب مجھ کو بحالت اسلام موت دے اور مجھ کو صالحین کے پاس پہنچادے � جب آپ کی وفات کا وقت آیا تو فرمایا کہ �بیت المال کا جو کچھ سامان ہمارے پاس ہے سب واپس کر دوکیو نکہ میں اس میں سے کچھ اپنے ذمہ نہیں رکھنا چاہتا � چنانچہ زمین ، اےک اونٹنی ،اےک قلعی گر غلام اور پانچ ہزار درہم کا کچھ غلبہ یہ سب چیزیں حضرت عمر کودیدی گئیں۔ حضرت عمر نے فرمایا :� ابو بکر نے اپنے بعد والوں کو کس قدر مشکل میں مبتلا کردیا ہے � آپ نے 63 سال کی عمر میں 637 ءمیں وفات پائی ۔ آپ اسی پلنگ پر اٹھائے گئے جس پر آنحضرت کو اٹھایاگیا تھا ۔ نماز جنازہ حضرت عمر نے مسجد بنوی میں پڑھائی ۔ حضرت ابو بکر نے حضرت عائشہ کو وصیت کی تھی کہ انہیں رسول اللہ کے پہلو میں دفن کیا جائے ۔ چنانچہ آپ کا سر رسول اللہ کے شانہ مبارک کے قریب اور لحد کو رسول اللہ کی لحد سے ملحق رکھا گیا ۔

 

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team