اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

   اردو پاور کے لیے اپنی تحریر     اس ای میل ایڈریس پر روانہ کریں    

Email:-ceditor@inbox.com

Email:-Jawwab@gmail.com

 

 

 

 

حضرت امام جعفر صادق
 

 

حضرت امام جعفر صادق نام
704 تاریخ پیداءش
772 تاریخ وفات

آپ کا نام جعفر صادق اور کنیت ابو محمد ہے۔آپ کے مناقب اور کرامتوں کے متعلق جو کچھ بھی تحریر کیا جائے بہت کم ہے ۔

آپ کا نام جعفر صادق اور کنیت ابو محمد ہے۔آپ کے مناقب اور کرامتوں کے متعلق جو کچھ بھی تحریر کیا جائے بہت کم ہے ۔آپ امت محمدی کے لئے صرف بادشاہ اور حجت نبوی کے لئے روشن دلیل ہی نہیں بلکہ صدق و تحقیق پر عمل پیرا �اولیا ءکرام کے باغ کا پھل �آل علی �نبیوں کے سردار کے جگر گوشہ اور صحیح معنوں میں بھی وارث بنی بھی ہیں ۔اور آپ کی عظمت و شان کے اعتبار سے ان خطابات کو کسی طرح بھی نا مناسب نہیں کہا جا سکتا ۔آپ کا درجہ صحابہ کرام کے بعد ہی آتا ہے لیکن اہل بیت میں شامل ہونے کی وجہ سے نہ صرف باب طریقت ہی میں آپ سے ارشادات منقول ہیں �بلکہ بہت سی روایتیں بھی مروی ہیں۔جو لوگ آپ کے طریقہ پر عمل پیرا ہیں وہ بارہ اماموں کے مسلک پر گامزن ہیں ۔آپ نہ صرف مجموعہ کمالات و پیشوائے طریقت کے مشائخ بلکہ ا رباب ذوق اور عاشقان طریقت اور زاہدان عالی مقام کے مقتدا بھی ہیں �نیز آپ نے بہت سی تصانیف میں راز ہائے کو بڑے اچھے پیرائے میں واضح فرمایا ہے اور حضرت امام باقر ے بھی کثیر مناقب روایت کئے ہیں ۔

آپ فرماتے ہیں کہ مجھے ان کم فہم لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جن کا عقیدہ یہ ہے کہ اہل سنت نعوذ باللہ اہل بیت سے دشمنی رکھتے ہیں �جبکہ صحیح معنوں میں اہل سنت ہی اہل بیت سے محبت رکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں ۔اس لئے کہ ان کے عقائد ہی میں یہ شے داخل ہے کہ رسول خدا پر ایمان لانے کے بعد ان کی اولاد سے محبت کرنا لازم ہے۔

اہل بیت ہی کی محبت کی وجہ سے حضرت امام شافعی کو رافضی کا خطاب دے کر قید کر دیا گیا �جس کے متعلو امام صاحب خود اپنے ہی ایک شعرمیں اشارہ فرماتے ہیں :اگر اہل بیت سے محبت کا نام رفض ہے تو پھر پورے عالم کو میرے رافضی پر گواہ رہنا چاہئیے اور اگر بالفرض اہل بیت اور صحابہ کرام سے محبت کرنا ارکان ایمان میں داخل نہ بھی ہو تب بھی ان سے محبت کرنے اور ان کے حالات سے باخبر رہنے میں کیا حرج واقع ہوتاہے ۔ اس لئے اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ خلفائے راشدین ودیگر صحابہ کرام کے مراتب کو بھی مراتب افضل خیال کرے ۔روایت ہے کہ کسی نے حضرت امام ابو حنیفہسے دریا فت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلقین میں سب سے زیا دہ افضل کون ہے؟فرمایا کہ بیبیوں میں حضرت فاطمہ زہرہ صدیق اکبر و حضرت عمر اور جوانوں میں حضرت عثمان و علی اور ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ صدیقہ ۔
خلیفہ منصور نے ایک شب اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ امام جعفر صادق کو میرے روبرو پیش کرو� تاکہ میں ان کو قتل کر دوں ۔وزیر نے عرض کیا کہ دنیا کو خیر باد کہہ کر جو شخص عزلت نشین ہو گیا ہو اس کو قتل کرنا قرین مصلحت نہیں ۔لیکن خلیفہ نے غضب ناک ہو کرکہا کہ میرے حکم کی تعمیل تم پر ضروری ہے ۔چنانچہ مجبوراجب وزیر امام جعفر صادق کو لینے چلا گیا تو منصور نے غلاموںکو ہدایت کی کہ جس وقت میں اپنے سر سے تاج اتاروں تو تم فی الفور امام جعفر صادق کو قتل کر دینا ۔لیکن جب آپ تشریف لائے تو آپ کے جلال نے خلیفہ کو اس درجہ متاثر کیا کہ وہ بے قرار ہو کر آپ کے استقبال کے لئے کھڑا ہو گیا اور نہ صرف آپ کو صدر مقام پر بٹھا یا بلکہ اور خود بھی مودبانہ آپ کے سامنے بیٹھ کر آپ کی حاجات اور ضروریا ت کے متعلق دریا فت کرنے لگا ۔آپ نے فرمایا کہ میری سب سے اہم حاجت اور ضرورت یہ ہے کہ آئندہ پھر کبھی مجھے دربار میں طلب نہ کیا جائے تاکہ میری عبادت اور ریاضت میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔چنانچہ منصور نے وعدہ کر کے آپ کو عزت و احترام کے ساتھ آپ کو رخصت کیا حضرت دائود ائی نے حاضر خدمت ہو کر امام جعفر صادق سے عرض کیا کہ آپ چونکہ اہل بیت میں سے ہیں اس لئے مجھ کو کوئی نصیحت فرمائیں ۔ لیکن آپ خاموش رہے اور جب دوبارہ دائود طائی نے کہا کہ اہل بیت ہونے کے اعتبار سے اللہ تعالی نے جو آپ کو فضیلت بخشی ہے اس لحاظ سے نصیحت کرنا آپ کے لئے ضروری ہے ۔یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ مجھے تو یہی خوف لگا ہو اہے کہ قیامت کے دن میرے جدا علی ہاتھ پکڑ کر یہ سوال نہ کر بیٹھیں کہ تو نے خود میرا اتباع کیوں نہیںکیا؟کیوں کہ نجات کا تعلق نسب سے نہیں بلکہ اعمال صالحہ پر موقوف ہے ۔یہ سن کر دائود طائی کو بہت عبرت ہوئی ۔

جب آپ تارک دنیا گئے تو کسی بزرگ نے حاضر خدمت ہو کر فرمایا کہ مخلوق آپ کے تارک الدنیا ہونے سے آپ کے فیوض عالیہ سے محروم ہو گئی ہے ۔آپ نے اس کے جواب میں مندرجہ ذیل دو اشعار پڑھے (ترجمہ) :
َََ کسی جانے والے انسان کی طرح وفا بھی چلی گئی اور لوگ اپنے خیالات میں غرق رہ گئے
گو بظاہر با ہم اظہار محبت وفا کرتے ہیں لیکن ان کے قلوب بچھوئوں سے لبریز ہیں
آپ کو بیش بہا لباس میں دیکھ کر کسی نے اعتراض کیا کہ اتنا قیمتی لباس اہل بیت کے لئے مناسب نہیں ۔آپ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر جب اپنے آستین پر پھیر اتو اس کا لباس ٹاٹ سے بھی زیا دہ کھردرا محسوس ہوا ۔اس قت آپ نے فرمایا �مخلوق کی نگاہوں میں یہ تو عمدہ لباس ہے لیکن حق کے لئے یہی کھردرا ہے ۔
آپ نے امام ابو حنیفہ سے سوال کیا کہ دانش مند کی کیا تعریف ہے؟امام صاحب نے جوب دیا کہ جو بھلائی اور برائی میں امتیاز کر سکے ۔آپ نے کہا کہ یہ امتیاز تو جانور بھی کر لیتے ہیں کیونکہ جو ان کی خدمت کرتا ہے اس کوایذا نہیں پہنچا تے اور جو تکلیف دیتا ہے اس کو کاٹ کھاتے ہیں ۔امام ابو حنیفہ نے پوچھا کہ پھر آپ کے نزدیک دانشمندی کی کیا علامت ہے ؟جواب دیا کہ جو دو بھلائیوں سے بہتر بھلائی کو اختیار کرے ۔ اور دو برائیوں میں سے مصلحتہََ کم برائی پر عمل کرے ۔

کسی نے آپ سے عرض کیا کہ ظاہری وباطنی فضل وکمال کے باوجود آپ میں تکبر پایا جاتا ہے ۔ آپ نے فرمایا میں متکبر تو نہیں ہوں ۔ البتہ جب میں نے کبر کو ترک کر دیا تو میرے رب کی کبریائی نے مجھے گھیر لیا ۔اس لئے میں اپنے کبر پر نازاں نہیں ہوں �بلکہ میں تو اپنے رب کی کبریائی پر فخر کرتا ہوں ۔

جو شخص عبادت پر فخر کرے وہ گنہگار ہے اور جو معصیت پراظہار ندامت کرے وہ فرمانبردار ہے ۔ صبر کرنے والے درویش کو اس لئے فضیلت حاصل ہے کہ مالدار کو ہمہ اوقات اپنے مال کا تصور ہے اور درویش کو صرف اللہ کا خیال ۔جیسا کہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ �توبہ کرنے والے ہی عبادت گزار ہیں �ذکر الہی کی تعریف یہ ہے کہ جس میں مشغول ہونے کے بعد دنیا کی ہر شے کو بھول جائے کیونکہ اللہ تعالی کی ذات ہر شے کا نعم البدل ہے اللہ تعالی جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت سے خاص کر لیتا ہے یعنی تمام اسباب وسائل ختم کر دیئے جا تے ہیں تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ عطائے الہٰی بلا واسطہ ہے نہ کہ بالواسطہ۔مومن کی تعریف یہ ہے کہ جو اپنے مولیٰ کی اطاعت میں ہمہ تن مشغول رہے ۔صاحب کرامت وہ ہے جو اپنی ذات کے نفس کی سرکشی سے آمادہ بجنگ رہے کیونکہ نفس سے جنگ کرنا اللہ تعالی تک رسائی کا سبب ہوتا ہے ۔اوصاف مقبولیت میں سے ایک وصف الہام بھی ہے ۔ جو لوگ دلائل سے الہا م کو بے بنیا د قراردیتے ہیں وہ بد دین ہیں ۔اللہ تعالی اپنے بندے اس سے بھی زیا دہ پوشیدہ ہے جتنا کہ رات کی تاریکی میں سیاہ پتھر پر چیونٹی رینگتی ہے حضرت امام جعفر صادق کا قول ہے کہ مجھ پر موز حقیقت اس وقت منکشف ہوئے جب میں خود دیوانہ ہو گیا ۔نیک بختی کی علامت یہ بھی ہے کہ عقلمند دشمن سے واسطہ پڑ جائے آپ نے فرمایا کہ پانچ لوگوں کی صحبت سے اجتناب کرنا چاہیے:اول�جھوٹے سے کیونکہ اس کی صحبت فریب میں مبتلا کر دیتی ہے۔دوم �بیوقوف کیونکہ جس قدر وہ تمہاری منفعت چاہے گا اسی قدر نقصان پہنچے گا ۔سوم �کنجوس سے کیونکہ اس کی صحبت سے بہترین وقت ضائع رائیگاں ہو جاتا ہے ۔ چہارم �بزدل سے کیونکہ یہ وقت پڑنے پر ساتھ چھوڑ دیتاہے ۔پنجم�فاسق سے کیوں کہ ایک نوالے کی طمع میں کنارہ کش ہو کر مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے ۔اللہ تعالی نے دنیا ہی میں فردوس وجہنم کا نمونہ پیش کر دیا ہے �کیونکہ آسائش جنت ہے اور تکلیف جہنم ۔جنت کا صرف وہی حق دار ہے جو اپنے تمام امور اللہ تعالی کے سپرد کر دے اوردوزخ اس کا مقدر ہے جو اپنے امور نفس سرکش کے حولے کر دے۔ اگر دشمنوں کی صحبت سے اولیاءکرام کو ضرر پہنچ سکتا تو فرعون سے آسیہ کو پہنچتا اور اگر اولیاءکی صحبت دشمن کے لئے فائدہ مند ہوتی تو سب سے پہلے انبیاءکی ازدواج کو فائدہ پہنچتا ۔لیکن قبض
اور بسط کے سوا اور کچھ بھی ِنہیں ہے ۔

 

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team